عطاء اور خطاء

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

بادشاہ سلامت آپکے کے خلاف سازش ہو رہی ہے، سازش! محمود بادشاہ نے حیران ہو کر پوچھا ، ایاز آپ کے خلاف سازش کر رہا ہے ۔ایاز ، محمود بادشاہ کا چہیتا غلام تھا ، محمود وزراء کے مقابلے میں ایاز کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اس لئے بعض وزراء ایاز سے حسد کرتے تھے اور ایاز کی معمولی سی بات کو بادشاہ کے سامنے بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ، وزراء نے کہا کے ایاز روزایک خاص جگہ پر جاتا ہے اس لئے ہمیں کچھ دال میں کالا لگتا ہے، محمود نے پہلے تحقیق کی تو واقعی ایاز پابندی سے ایک مخصوص جگہ جاتا تھا، بادشاہ نے ایاز کو طلب کیااور اس کا جواب طلب کیا اور اس جگہ خود تشریف لے گئے، ایاز نے ٹالنے کو کوشیش کی لیکن سمجھ گئے کہ کسی نے بادشاہ کے کان بھرے ہیں ،بادشاہ نے ایاز سے کہا کہ روزآنہ یہاں کیا کرتے ہو؟ ایاز نے ایک صندوق کھولا ایک بوسیدہ لباس نکال کر بادشاہ کو دیکھایا کہ میں اسے روز زیب تن کر کے آئینے سامنے کھڑے ہو کر اپنے آپ سے مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ ایاز تیری تو یہ حیثیت تھی ،آج تو اگر بادشاہ کے دربار میں رہتا ہے اس میں تیرا کمال نہیں بلکہ محمود بادشاہ کی عنایت ہے ۔ایاز کے اس طرز عمل سے بادشاہ بہت خوش ہوئے اور ان کے دل میں ایاز کی محبت میں اور اضافہ ہو گیا-

بندہ جب کوئی کام سر انجام دے کر نسبت اپنی طرف کر کے اتراتا ہے تو انسان غور کرے کہ اس کام کو سر انجام دینے کی صلاحیت کس نے دی؟ جن جانداروں کے پاس صلاحیت نہیں ان کے کام کون بناتا ہے؟ مثلا ایک درخت ہرا بھرا نظر آتا ہے اسے خوراک حاصل کرنے کے لئے کہیں جانا نہیں پڑتا کیونکہ چلنے پھرنے کی صلاحیت درخت کو حاصل نہیں اس لئے اس کی خوراک کا انتطام اپنی جگہ کھڑے کھڑے ہی ہو جاتا ہے ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کرتا ہے اور آکسیجن باہر نکالتا ہے اپنی جڑوں سے پانی جذب کرتا ہے ۔

جانوربھی خوراک حاصل کرتے ہیں لیکن چونکہ صلاحیت چلنے پھرنے کی ملی ہوئی ہے اس لئے ذمہ داری ڈال دی گئی کہ تلاش کرو ، پرندوں کو بھی اﷲ تعالی روزی دیتے ہیں لیکن گھونسلے میں نہیں اتارتے بلکہ اڑکرتلاش کرنا پڑتا ہے ،کیوں؟ اسلئے کہ اڑنے صلاحیت جو ملی ہوئی ہے ، درخت کی طرح اپنی جگہ رہتے ہوئے وہ زندہ نہیں رہ سکتا ۔ جانور کے اندر اپنے بچوں کو تربیت دینے کی صلاحیت نہیں تو یہ بوجھ بھی جانوروں پر نہیں ڈالا گیا اس لئے جانور کے بچے پیدائشی ہر اس چیز سے آگاہ ہوتے ہیں جو ان کے کرنے کی ہیں ، بکری کا بچہ پیدا ہوتے ہی اپنی ماں کے تھن پر منھ مارتا ہے اسے یہ کون سی ذات بتاتی ہے کہ تیری خوراک کا انتظام یہاں ہے۔ مچھلی کا بچہ پیدا ہوتے ہی تیرنا شروع کر دیتا ہے ، چوہے بلی کی زندگی میں پہلی ملاقات ہوتی ہے تو ان سے وہی فطری حرکات صادر ہوتی ہیں ، شیر اپنے بچوں کو شکار کرنا نہیں سیکھاتا۔

انسا ن میں چونکہ صلاحیت دوسرے جانداروں سے زیادہ ہے اس لئے ذمہ داری اور بوجھ بھی اس اعتبار سے زیادہ ڈالا گیا ، جانور جنگل میں تلاش کر کے اپنی خوراک حاصل کر لیتے ہیں جبکہ انسان کے لئے خوراک زمین کے اندر چھپا دی گئی اور اسے صلاحیت دے دی گئی کہ وہ زمین میں چھپی اپنی خوراک نکال سکے ، اسی طرح انسان تربیت کر سکتا ہے اس لئے تربیت کا بوجھ اس پر ڈالا گیا ، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو جانور کے بچوں میں پیدائشی جو صلاحیت ہوتی ہے وہ انسان کے بچوں میں نہیں ہوتی اسے سیکھاناپڑتا ہے۔

انسان پر بھی اتنا بوجھ ڈالا گیا جتنی صلاحیت اس میں ہے ، انسان کے بس میں اتنا ہی ہے کہ زمین ہموار کر کے بیج ڈال دے ۔ ہوا،پانی،روشنی کا انتظام انسان نہیں کر سکتا تو یہ بوجھ بھی انسان پر نہیں ڈالا گیا ، اﷲ تعالی نے انسان کے لئے ایسا زبردست انتظام فرمایا ،مثلا خوراک کے لئے پانی کی ضرورت پوری کرنے کے لئے سمندر کے رن وے سے پانی بادلوں کی شکل میں ٹیک آف کرتاہے ، پانی کی یہ خاموش فلائٹیں روز ہم اپنے سروں کے اوپر دیکھتے ہیں اور یہ کارگو سروس بالکل مفت ہے ،شور کرتا ہوائی جہاز جب گزرتا ہے ہم فورا اسے دیکھتے ہیں اور انسانی ایجاد کی داد دیتے ہیں ،لیکن پانی سے بھرے بادلوں کو اﷲ تعالی نے بے آواز کر دیا کہ ان کی اڑان سے انسان کے آرام میں خلل بھی واقع نہ ہو (سبحان اﷲ) کیا ان کو دیکھ کر ہم اﷲ تعالی کی حمد کرتے ہیں ، پھر جہاں حکم ربی ہوتا ہے تویہ پانی لینڈ کر جاتا ہے اور پھر بڑی مقدار میں پہاروں کے برف خانوں میں محفوظ ہو جاتا ہے اور دریاؤں کی شکل میں بہہ کر انسان کی ضرورت پوری کرتا ہے

انسان اپنے حصے کا بہت معمولی کام سر انجام دیتا ہے جب اسے اپنے معمولی کام میں کامیابی حاصل ہوتی ہے تواس یہ خطاء ہوتی ہے کہ اترانے لگتا ہے اور اپنا کمال سمجھتا ہے ، اس میں اپنا کیا کمال ہے؟جسمانی ساری صلاحیتں اﷲ تعالی کی عطاء کی ہوئی ، زمیں و آسمان اﷲ تعالی کے بنائے ہوئے ، ذرا غور کریں تو اپنا کچھ نہیں سب اﷲ تعالی کی عطاء ہے
پھندے سے تیرے کیوں کر، جائے نکل کے کوئی
پھیلا ہوا ہے ہر سو، عالم میں جال تیرا (حالی)

یہی انسان کی آزمائش ہے کہ بندہ اپنا کمال سمجھتا ہے یا اﷲ تعالی کی عطاء سمجھتا ہے، جو اپنا کمال سمجھے گا تکبر میں مبتلا ہو گا اور جو اﷲ تعالی کی عطاء سمجھے گا اس میں عاجزی و انکساری ہو گی ۔ ایاز کی ادا ء محمود بادشاہ کوپسند آئی اورمحبت کے بڑہنے کا ذریعہ بنی تو جو بندہ اچھے کام کواﷲ تعالی کی عطاء سمجھے گا تو بادشاہوں کا بادشاہ اﷲ اسے اپنا محبوب بنا لے گا۔ اﷲ والے لوگ کہتے ہیں کہ کوئی گناہ کا کام ہو جائے تو کہے کے یہ اپنی خطاء ہے اور نیک عمل ہو تو کہے کہ یہ میرے رب کی عطاء ہے۔
Ilyas Katchi
About the Author: Ilyas Katchi Read More Articles by Ilyas Katchi: 40 Articles with 36044 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.