حقیقت میلاد النبی - انترواں حصہ

بدعت کی مبادیات اور جشنِ میلاد کے ثقافتی پہلؤوں کے بیان کے بعد اب ہم بدعت کا حقیقی تصور بیان کرتے ہیں

بدعت کا حقیقی تصور:-

ذیل میں اَحادیثِ مبارکہ کی روشنی میں بدعت کا حقیقی مفہوم بیان کیا جا رہا ہے جس سے یہ واضح ہو جائے گا کہ ’’مضمونِ بدعت کی احادیث‘‘ کا حقیقی اِطلاق کن کن بدعات پر ہوتا ہے :

1۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو ردّ.

’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں سے نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضية، باب نقض الأحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718
2. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب تعظيم حديث رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 1 : 7، رقم : 14
3. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 270، رقم : 26372

2۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے ہی مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من أحدث في أمرنا هذا ما ليس فيه فهو ردّ.

’’جو ہمارے اس دین میں کوئی ایسی نئی بات پیدا کرے جو اِس میں اَصلًا نہ ہو تو وہ مردود ہے۔‘‘

1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلح، باب إذا اصطلحوا علي صلح جور، 2 : 959، رقم : 2550
2. ابو داؤد، السنن، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4606

3۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

من عمل عملاً ليس عليه أمرنا فهو ردٌّ.

’’جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس پر ہمارا کوئی اَمر موجود نہیں تو وہ مردود ہے۔‘‘

1. مسلم، الصحيح، کتاب الأقضيه، باب نقض الأحکام الباطلة، 3 : 1343، رقم : 1718
2. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 180، 256، رقم : 25511، 26234
3. دارقطني، السنن، 4 : 227، رقم : 81

مغالطہ کا اِزالہ اور فَھُوَ رَدٌّ کا درست مفہوم:-

مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں اَحْدَثَ، مَا لَيْسَ مِنْہُ اور مَا لَيْسَ فِيْہِ کے الفاظ قابلِ غور ہیں۔ عرف عام میں اَحْدَثَ کا معنی ’’دین میں کوئی چیز ایجاد کرنا‘‘ ہے، اور مَا لَيْسَ مِنْہُ کے الفاظ اَحْدَث کا مفہوم واضح کر رہے ہیں کہ اس سے مراد وہ چیز ایجاد کرنا ہے جو دین میں نہ ہو۔ حدیث کے اس مفہوم سے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر اَحْدَث سے مراد ’’دین میں کوئی نئی چیز پیدا کرنا‘‘ ہے تو پھر مَا لَيْسَ مِنْہُ (جو اس میں سے نہ ہو) یا مَا لَيْسَ فِيْہِ (جو اس میں اَصلًا نہ ہو) کہنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیوں کہ اگر وہ چیز دین میں سے تھی یعنی اس دین کا حصہ تھی تو اسے نئی نہیں کہا جاسکتا کہ محدثۃ (نئی چیز) تو کہتے ہی اسے ہیں جو پہلے دین میں موجود نہ ہو۔

اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ حدیث مذکورہ پر غور کرنے سے یہ معنی معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیا کام مردود نہیں بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جو دین کا حصہ نہ ہو، جو نیا کام دین کے دائرے میں داخل ہو وہ مردود نہیں مقبول ہے۔ اس کی مزید وضاحت یوں ہوگی کہ من احدث فی امرنا ھذا ما لیس منہ! فیہ فھو ردّ میں فھو ردّ کا اطلاق نہ صرف مَا لَيْسَ مِنْہُ پر ہوتا ہے اور نہ ہی فقط اَحْدَثَ پر بلکہ اس کا صحیح اطلاق اس صورت پر ہوگا جہاں دونوں چیزیں (اَحْدَثَ اور مَا لَيْسَ مِنْہُ! فِیہِ) جمع ہو جائیں یعنی مردود فقط وہی عمل ہوگا جو نیا بھی ہو اور جس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل بھی دین میں نہ ہو اور نہ دین کی کسی جہت کے ساتھ اُس کا کوئی تعلق ہو۔ پس اس وضاحت کی روشنی میں کسی بھی محدثۃ کے بدعت و ضلالت قرار پانے کے لیے دو شرائط کا ہونا لازمی ہے :

1۔ دین میں اس کی کوئی اصل، مثال یا دلیل موجود نہ ہو۔

2۔ یہ محدثۃ نہ صرف دین کے مخالف اور متضاد ہو بلکہ دین کی نفی کرے اور اَحکامِ سنت کو توڑے۔

مذکورہ بالا تیسری حدیث شریف میں لَيْسَ عَلَيْہِ اَمْرُنَا سے عام طور پر یہ مراد لیا جاتا ہے کہ کوئی بھی کام خواہ وہ نیک اور اَحسن ہی کیوں نہ ہو (مثلاً ایصالِ ثواب، میلاد اور دیگر سماجی، روحانی اور اَخلاقی اُمور) اگر اس پر قرآن و سنت کی کوئی دلیل موجود نہ ہو تو یہ بدعت اور مردود ہے۔ یہ مفہوم غلط اور مبنی بر جہالت ہے کیوں کہ اگر یہ معنی مراد لے لیا جائے کہ جس کام کے کرنے پر اَمرِ قرآن و سنت نہ ہو وہ مردود اور حرام ہے تو پھر شریعت کے جملہ مباحات بھی قابلِ ردّ ہوجائیں گے۔

مذکورہ بالا اَحادیث پر غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر نیا کام مردود کے زمرہ نہیں آتا بلکہ صرف وہ نیا کام مردود ہوگا جس کی کوئی اَصل، مثال، ذکر، معرفت یا حوالہ. بالواسطہ یا بلا واسطہ. قرآن و سنت میں موجود نہ ہو اور اسے ضروریاتِ دین، (1) واجباتِ اسلام اور اَساسی عقائدِ شریعت میں اِس طرح شمار کر لیا جائے کہ اسے ’’اَساسیاتِ دین میں اِضافہ‘‘ سمجھا جانے لگے یا اُس سے دین اسلام کے بنیادی اصولوں میں اَصلًا کمی بیشی واقع ہو جائے۔ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کُلُّ بِدْعَة ضَلَالَة سے بھی یہی بدعت مراد ہے، نہ کہ ہر نئے کام کو ’’ضلالۃ‘‘ کہا جائے گا۔ یہی اِحداث فی الدین، اسلام کی مخالفت اور دین میں فتنہ تصور ہوگا۔

(1) ضروریاتِ دین ان چیزوں کو کہتے ہیں جن میں سے کسی ایک چیز کا انکار کرنے سے بھی انسان کافر ہو جاتا ہے۔

مذکورہ بالا بحث واضح کرتی ہے کہ جشن میلادالنبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہرگز کوئی ایسا اَمر نہیں ہے جو قرآن و حدیث کے خلاف ہو بلکہ یہ ایک ایسا مبنی بر خیر اور مستحسن عمل ہے جو سراسر شریعت کے منشاء و مقصود کے عین مطابق ہے۔

جاری ہے---
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93886 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.