امام احمد رضا خان حنفی رحمتہ اﷲ علیہ کی وصیتیں

امام احمد رضا خان حنفی رحمتہ اﷲ علیہ کی ولادت ہفتہ کے دن بوقتِ ظہر بانس بریلی (ہندوستان) کے محلہ جسولی میں، ١٠؍ شوال المکرم ١٢٧٢ھ بمطابق ١٤؍جون ١٨٥٦ء میں ہوئی۔ تاریخی نام ”المختار“ (۱۲۷۲) جبکہ گھر والے پیار سے ”اَمّن میاں“ کہتے تھے۔ آپ مولانا نے ابتدائی تعلیم اپنے والد مولانا نقی علی خان صاحب سے حاصل کی۔ مرزا غلام قادر بیگ سے ناظرہ پڑھا اور ١٢٧٦ھ میں تقریبا ًچار سال کی عمر میں قرآن کریم کا ناظرہ ختم کیا۔ اپنے والد کے علاوہ دیگر اساتذۂ کرام سے علومِ نقلیہ اور عقلیہ کی تعلیم حاصل کی اور ١٢٨٦ھ میں فارغ التحصیل ہوئے، اس وقت عمر صرف تیرہ سال، دس ماہ اور پانچ دن تھی۔ مولانا احمد رضا خان حنفی کے اساتذہ میں آپ کے والد مولانا نقی علی خان کے علاوہ مرزا غلام قادر بیگ، شاہ آلِ رسول مارہروی ، شاہ ابو الحسین احمد نوری اور مولانا عبد العلی رامپوری تلمیذِ علامہ فضل حق خیر آبادی قابلِ ذکر ہیں۔ ٢٥؍ صفر المظفر١٣٤٠ ھ بمطابق ٢٨؍ اکتوبر ١٩٢١ء ، جمعہ کے دن ہندوستان کے معیاری وقت کے مطابق ٢؍بج کر ٣٨ منٹ پر، عین اذان کے وقت جوں ہی موذن نے حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہا، اسی وقت مولانا احمد رضا خان نے داعیِ اجل کو لبیک کہا۔پچاس سے زائد علوم وفنون میں ایک ہزار سے زیادہ اپنی تحقیقات وتوضیحات یار گار چھوڑیں۔

حکمائے اُمت مسلمانوں کو ہمیشہ کچھ ایسی نصیحتیں اور وصیتیں کرتے چلے آئیں ہیں، جن کی وجہ سے کامیابی وکامرانی سے ہمکنار ہونا نہایت آسان ہوا ہے اور ہوتا رہے گا، اور یہ کیوں نہ ہو کہ عربی کا مقولہ ہے ”قَوۡلُ الۡحَکِیۡمِ لَا یَخۡلُوۡ عَنِ الۡحِکۡمَۃِ“ یعنی: ”دانا کی بات حکمت سے خالی نہیں ہوتی“۔ بس آج کے اس جدید دور میں بھی ضرورت اس امر کی ہے کہ اِن نصیحتوں اور وصیتوں پر اخلاص کے ساتھ صحیح معنوں میں عمل کیا جائے تاکہ فوز وفلاح کے راستے پر گامزن ہوا جا سکے۔ امام احمد رضا خان حنفی �نے بھی کئی ایک وصیتیں کی ہیں، یہ وصیتیں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد سے متعلق ہیں۔آپ فرماتے ہیں:”اے عزیز! یہ دین بحمداللہ آسانی وسماحت کے ساتھ آیا، جو اسے اس کے طور پر لے گا اس کے لئے ہمشہی رفق ونرمی ہے اور جو تعمق وتشدد کو راہ دے گا یہ دین اُس کے لئے سخت ہوتا جائے گا،یہاں تک کہ وہی تھک رہے گا اور اپنی سخت گرای کی آپ ندامت اٹھائے گا“۔ ایک جگہ شریعت وطریقت کے باہم تعلق کے حوالے سے لکھتے ہیں: اے عزیز! ”شریعت“ عمارت ہے اور اس کا اعتقاد بنا د اور عمل چنائی، پھر اعمالِ ظاہر وہ دیوار ہں کہ اس بنارد پر ہوا مںم چُنے گئے اور جب تعمرم اوپر بڑھ کر آسمان تک پہنچی وہ ”طریقت“ ہے۔ دیوار جتنی اونچی ہو گی نوے کی زیادہ محتاج ہو گی اور نہ صرف نوک کہ بلکہ اعلیٰ حصہ اسفل کا بھی محتاج ہے۔ اگر دیوار نچےت سے خالی کر دی جائے اوپر سے بھی گر پڑے گی۔ احمق وہ (ہے)،جس پر شطاُن نے نظر بندی کر کے اُس کی چنائی آسمانوں تک دکھائی اور دل مںق ڈالا کہ اب ہم تو زمنی کے دائرے سے اونچے گزر گئے، ہمںق اس سے تعلق کی کات حاجت ہے، (پھر اُن نے) نور سے دیوار جدا کر لی اور نتجہا وہ ہوا جو قرآن مجدں نے فرمایا کہ ترجمہ: ”اس کی عمارت اسے لے کر جہنم مںگ ڈھے پڑی“۔ (التوبۃ ۹: ۱۰۹) والعا ذ باﷲ رب العالمن ۔ اسی لیے اولا ئے کرام فرماتے ہںہ: ”صوفی جاہل شطا ن کا مسخرہ ہے“۔ اسی لئے حدیث مںے آیا حضور سدہ عالم ﷺ نے فرمایا:”ایک فقہق، شطاعن پرہزاروں عابدوں سے زیادہ بھاری ہے “۔ بے علم مجاہدہ والوں کو شطاہن انگلوتں پر نچاتا ہے، منہ مںئ لگام، ناک مں: نکلر ڈال کر جدھر چاہے کھنچےن پھرتا ہے اور وہ اپنے جی مں سمجھتے ہںل کہ ہم اچھا کام کررہے ہںد“۔

۳۔ لوگوں کی خاطر مدارت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اے عزیز! مُداراتِ خلق واُلفت وموانست اہم اُمور سے ہے۔نبی کریم ﷺ سے روایت ہے: فرمایا: ”مجھے لوگوں سے خاطر مدارات کے لئے بھجاہ گاو ہے“، اور آپ ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کے بعد کمالِ عقل انسانوں سے محبت کرنا ہے“(الحدیث)۔ آپ � اس کی وضاحت کرتے ہوئے قرآنی آیات اور رسول اللہ ﷺکے فرامین ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”مگر جب تک نہ دین مںو مداہنت، نہ اُس کے لیے کسی گناہِ شرعی مںک ابتلا ہو۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: ”وہ اللہ تعالیٰ کے بارے مںو کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہںگ ڈرتے“۔

۴۔ اہلِ ایمان کو زکوٰۃ کی اہمیت سمجھاتے ہوئے لکھتے ہیں: ”اے عزیز!ایک بے عقل گنوار کو دیکھ کہ تخمِ گندم اگر پاس نہںی ہوتا، بہزار دقت قرض دام سے حاصل کرتا اور اسے زمن مںہ ڈال دیتاہے، اس وقت تو وُہ اپنے ہاتھوں سے خاک مںس ملا دیا مگر اُمدق لگی ہے کہ خدا چاہے تو یہ کھونا بہت کُچھ پانا ہو جائے گا۔ تجھے اس گنوار کے برابر بیت عقل نہںا ، یا جس قدر ظاہری اسباب پر بھروسہ ہے اپنے مالک جل وعلا کے ارشاد پر اتنا اطمناان بھی نہںت کہ اپنے مال بڑھانے اور ایک ایک دانہ ایک ایک پڑب بنانے کو زکوٰۃ کا بج نہںز ڈالتا۔ وُہ فرماتا ہے : زکوٰۃ دو تمھارا مال بڑھے گا۔ اگر دل مںل اس فرمان پر ینوئ نہںر جب تو کُھلا کفر ہے، ورنہ تجھ سے بڑھ کر احمق کون کہ اپنے یی ب نفع دین و دناہ کی ایی بھاری تجارت چھوڑ کر دونوں جہانوں کا زیاں مول لتاف ہے“۔
۵۔ ایک بہت زبر دست علمی نکتہ کی وضاحت یوں کرتے ہیں: ”اے عزیز! کسی بات کو حق جاننے کے لیے اس کی حققت۔ جاننی لازم نہںو ہوتی ، دنا جانتی ہے کہ مقناطسن لوہے کو کھنچتا ہے ، اور مقناطینم قوت دیا ہوا لوہا،ستارۂ قطب کی طرف توجہ کرتا ہے۔ مگر اس کی حققتل و کنہ کوئی نہں بتا سکتا کہ اس خا کی لوہے اور اس اَفلاکی ستارے مں کہ یہاں سے کروڑوں ملل دور ہے، باہم کان اُلفت! اور کوینکر اسے اس کی جہت کا شعور ہے ! اور ایک ییا نہںر عالم مںب ہزاروں ایسے عجائب ہںہ کہ بڑے بڑے فلاسفہ خاک چھان کر مر گئے اور ان کی کنہ نہ پائی، پھر اس سے ان باتوں کا انکار نہں ہو سکتا ،آدمی اپنی جان ہی کو بتائے وہ کاے شیٔ ہے جسے یہ”میں“ کہتا ہے اور کاد چزا جب نکل جاتی ہے تو یہ مٹی کا ڈھیر بے حس وحرکت رہ جاتا ہے“۔

سبحان اللہ! کس قدر خوبصورت انداز میں اہلِ ایمان کی رہنمائی کا سامان مہیا کیا ہے، یقیناً آج اگر کا مسلمان مذکورہ نصیحتوں پر صدقِ دل سے عمل کرے تو فوز وفلاح اُس کے قدم چومے گی اور وہ دونوں جہاں میں سرخ رُو ہو گا، اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق بخشے، آمین۔
Hamid Ali
About the Author: Hamid Ali Read More Articles by Hamid Ali: 5 Articles with 3779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.