خاندانی تصویر

انسان نے اپنے آپ کو آئینے کے سامنے کھڑے کھڑے بچپن سے بوڑھا ہو نے تک دیکھا ہوتا ہے ۔ لیکن یقین ایک تصویر ہی دلواتی ہے کہ جس آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر تم ابھی تک سوچ رہے ہوتے ہوکہ "ابھی تو میں جوان ہوں " جھٹ وہ تصویر سامنے آنے پر آئینے کا فریبِ نظر سامنے آجاتا ہے اور انسان کہے بغیر نہیں رہتا کہ کیا میں ایسا تھا؟

ایک تصویر سے کئی یادیں وابستہ ہو تی ہیں

"فیس بُک کے ڈرائنگ روم سے"

ایک تصویر سے کئی یادیں وابستہ ہو تی ہیں۔ بلکہ بعض دفعہ تو یقیناً ایسا ہی محسوس ہو تا ہے کہ ہم اُس دور کا حصہ تھے یا اگر وہ ہماری ذات سے وابستہ ہو تو پھر ہمیں اُس سے متعلقہ کئی افراد یاد آ جاتے ہیں۔مثلاً والدین ،بھائی بہن، رشتے دار و دوست احباب،گھر ،محلے، سکول ،کالج سیر گاہیں ، سمندرو پہاڑی علاقے وغیرہ۔
ابھی تو میں جوان ہوں:

ان میں بھی وہ تصاویر خاص طور پر اہمیت کی حامل ہوتی ہیں جو انسان کے بچپن و جوانی کا عکس ہوتی ہیں۔کیونکہ وقت دُنیا کے جھمیلوں میں گزر چکا ہوتا ہے اور ایک زندہ انسان نے اپنے آپ کو آئینے کے سامنے کھڑے کھڑے بچپن سے بوڑھا ہو نے تک دیکھا ہوتا ہے ۔ لیکن یقین ایک تصویر ہی دلواتی ہے کہ جس آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر تم ابھی تک سوچ رہے ہوتے ہوکہ "ابھی تو میں جوان ہوں " جھٹ وہ تصویر سامنے آنے پر آئینے کا فریبِ نظر سامنے آجاتا ہے اور انسان کہے بغیر نہیں رہتا کہ کیا میں ایسا تھا؟ یعنی سوال اپنے سے ہی۔پھر یادوں کے سمند ر میں کھو کر ایسے غوطے لگانے کی کوشش کرتا ہے کہ ماضی سے کچھ اچھے دن اُدھار ہی مانگ لائے۔

بوجھو تو جانے:
چند روز پہلے ایک خاندان کی اہم تصویر اُس خاندان کی ہی ایک خاتون نے فیس بُک پر لگا کر اپنے فیملی و فرینڈز کو چیلنج کر دیا کہ" بوجھو تو جانے"۔فیس بُک پر اس قسم کی تصاویر عام طور پر ایک بڑی تعداد میں لگائی جاتی ہیں اور اُوپر سے " سلفی "کی اصطلاح نے اس نئی جنریشن کو ایک اور مشغلہ مہیا کر دیا ہے کہ موبائل سے اپنی فوٹو آپ کھینچو اور لگا دو فیس بُک پر ۔ بس پھر ہر کوئی دیکھنا چاہتا ہے کہ لائق کتنے اور کتنے کومینٹز و شیئرز۔

بہرحال جو" تصویر" فیس بُک پر پاکستان کے وقت کے مطابق تقریباً رات 12 بجے کے فوراً بعد لگائی گئی تھی اُس میں ایک خاتون نیلے رنگ کے پوشیش والے صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی اور اُسکی گود میں دائیں اور بائیں2 چند ماہ کے بچے تھے۔ سوال یہ تھا کہ تصویر کتنی پرانی ہے اور وہ دونوں بچے کون ہیں؟ چند منٹ بعد ہی اُس پر جو لائق کے نمبرز اور کومینٹز شروع ہو ئے اُس سے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ خاتون کی جوانی کی تصویر ہے اور وہ دونوں بچے بھی بڑے ہو چکے ہیں۔

آغا زمیں جس نے پہل کی اُس نے اُس خاتون کو" پھوپھو"لکھ کر اپنی رشتے داری کو ظاہر کیا اور دونوں بچوں کی پہچان کیلئے ایک دو ناموں سے بوجھنے کا آغاز بھی کر دیا۔چند منٹوں بعد ایک اور نے اُس تصویر والی خاتون کو " امی" کے خوبصورت لفظ سے مخاطب کرتے ہوئے اُنکی عمر سے اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ اُنکی گود میں کونسے دو بچے ہو سکتے ہیں۔ پھر اُس نے بھی نام لکھے۔اس پر وہ خاتون جس نے وہ تصویر لگائی تھی اُس نے اُن دونوں کے کومینٹز پر جب یہ لکھا کہ جاری رکھو !!تو وہ دونوں سمجھ گئے کہ "پارٹی تو ابھی شروع ہو ئی ہے" ۔اس دوران ایک اور لڑکا شامل ہوا اور اُس نے لکھا کہ "میں بتاؤں ۔۔۔" لیکن شاید اُس وقت کسی نے اُسکے جملے پر غور ہی نہیں کیا۔

ابھی تک پہلے والے ہی دونوں اپنی عمروں کے حساب سے بچپن کی یادیں تازہ کرتے ہوئے اندازہ لگا رہے تھے کہ" پھو پھو یا امی "کی عمر کے حساب سے یہ تصویر 30 سال سے زائد پرانی ہے یا کم اورصوفہ کس کا ہے اور کسی گھر میں پڑا ہو سکتا ہے؟ دادی یا نانی یا کوئی اوروغیرہ۔ ساتھ میں چند مزید نام بھی پیش کرتے جا رہے تھے۔ لیکن ایک دفعہ پھر جملہ وہی تھاکہ جاری رکھو ! جاری رکھو!اس پر تصویر والی خاتون کے بیٹے نے جب یہ لکھا کہ" ممانی "میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کافی لطف اُٹھا رہی ہیں تو اس سے اُن کے آپس کی رشتے داریوں کا کچھ اندازہ ہو ہی گیا کہ وہ دونوں کزن ہیں اور تصویر لگانے والی ایک کی ممانی اور دوسرے کی چچی ہیں۔ یعنی نند کی تصویر ہے۔

رات کے ایک بج چکے تھے اور ایک ،دو نام ایسے بھی پیش کیئے جاچکے تھے کہ جیسے اُن میں سے ایک بچہ یا بچی تو وہی ہے۔پھر دوسرے والے نے جب یہ لکھا کہ ہم دونوں سعودیہ والے ہی اس بحث میں اُلجھے ہوئے ہیں اور ہمارے باقی 20کزن کہاں ہیں تو اس پر خاتون نے لکھا کہ اُسکو بہت ہنسی آرہی ہے اور شُکر ہے وہ اس وقت اپنے خاوند کے کمرے میں نہیں ہے ۔اسطرح سوال وہاں ہی رہا اور آہستہ آہستہ تینوں رات بہت ہونے کی وجہ سے سونے چلے گئے اور اب جاگ گئے وہ کزن جن کے ملک میں دن تھا ۔یعنی امریکہ و کینیڈا والے۔یعنی تقریباً1گھنٹے بعد امریکہ سے ایک لیڈی نے لکھا کہ یہ کیا بحث چل رہی ہے اور وہ اس صوفے کو کیسے بھول سکتی ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ یہ کون ہیں۔ لیکن اگلے چند گھنٹوں تک وہ یہ ظاہر نہیں کرے گی۔

کینیڈا سے لکھا گیا کہ یہ دونوں تصویر والی خاتون کے ہی دونوں بیٹے ہیں ۔یعنی ایک وہی جو اس بحث میں بھی شامل ہے۔ جبکہ یہ بھی بحث کا حصہ رہا کہ اُن دونوں بچوں کی عمر کے درمیان شاید چند ماہ کر فرق ہو۔ لہذا سوال آیا کہ اُنکے دونوں بیٹے جڑواں ہیں۔اس پر ایک اور خاتون اس بحث میں شامل ہوئی اور اُس نے لکھا ایسا نہیں ہے ۔ ساتھ میں امریکہ والی لیڈی کو لکھا کہ یہ گھر تو اُنکا ہی ہے (بعد کے جملوں سے یہ بھی ظاہر ہو گیا کہ یہ دونوں ماں بیٹی ہیں) لہذا یہ دونوں وہ نہیں ہو سکتے۔بہرحال پہچان وہ بھی نہ پائیں اور ایک دو ایسے ہی نام لکھ دیئے۔ صبح ہو چکی تھی اور لاہور سے ایک لڑکی نے شاید جاگتے ہی فیس بُک پر جب اُس تصویر کو دیکھا تو اُس نے فوراً لکھ دیا کہ وہ بتا سکتی ہے کہ یہ دونوں بچے کون ہیں۔لیکن اُس کو روک دیا گیا۔

اب وہ خاتون ایک دفعہ پھر میدان میں آئیں اور "رہبر کے کولر" کا انعام رکھ دیا۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ سہ پہر ہوگئی اور اب اَسٹریلیا سے ایک آواز آئی اور اُس نے باقاعدہ 2 بچیوں کا نام لکھ کر یہ بھی کہہ دیا کہ " لاک کر دیا جائے"۔صوفے والا نشانہ اُسکا ضرور ٹھیک لگا لیکن غلطی وہ اس لیئے کر گیا کہ اُس نے خاندان کی ہی ایک اور"محترمہ" کی طرف سے لکھے گئے دونوں بچوں کے الگ الگ والد کے ناموں کے اشارے سے بوجھ تو لیا لیکن عمروں کا حساب نہ لگا سکا کہ خاندان کی اُن وونوں بچیوں کی عمر میں کتنا فرق ہے۔اس دوران امریکہ والی لیڈی نے جب یہ لکھا کہ جواب غلط ہونے سے حیرانگی نہیں ہو رہی ہے ۔حیرانگی اس بات پر ہو رہی ہے کہ ایسے کزنز کا نام بھی لیا لکھا جا رہا ہے جنکی پیدائش کے دور میں رنگین فوٹو گرافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہو تا۔اس پر تصویر لگانے والی خاتون نے مزاح کے انداز میں لکھا کہ آج کے دور میں پرانی فوٹو بھی رنگین کروائی جا سکتی ہے۔ حوالہ فلم" مغلِ اعظم"کا دیا۔

اب ایک دفعہ پھر شام کو سب سے پہلے کمینٹز کرنے والا شامل ہوا اور اُس نے وہ دونوں نام لکھ دیئے جنکی وہ تصویر تھی ۔ فرضی نام فائزہ اور ژو ہیب۔اُس پرخاتون نے لکھا کہ جواب بالکل دُرست ہے ۔د ائیں طرف لڑکا اور بائیں طرف لڑکی ہے جو لڑکے سے 20 دن بڑی ہے۔ اسطرح تصویر تقریباً27سال پرانی ہے۔ لہذا "رہبر کا کولر" آپکا ہوا۔ لیکن وہ لڑکی جو لاہور سے جواب جانتی تھی اُس نے کہا کہ کھیل میں دھاندلی ہو گئی ہے۔ کیونکہ فائزہ وہی تھی ۔ لہذا دھرنا ہوگا !دھرنا ہو گا!جبکہ پہلے والے نے جواب میں لکھا !عمران خان سے سبق سیکھو!!!!ساتھ میں اُس نے یہ بھی لکھا کہ آغاز میں وہ ایک نام تو پیش کر چکا تھا۔

بحث بن گئی کہانی:
اصل میں خاندانی تصویرپر " بوجھو تو جانو" کی یہ بحث اُس وقت کہانی بن گئی جب "دھاندلی ودھرنے" کے الفاظ سامنے آئے۔ سب کو یاد ہو کہ شروع میں تینوں کے درمیان ایک لڑکے کا بھی ذکر آیا تھا۔وہ نام کی مناسبت سے اُس لڑکی کا بھائی تھااور وہ جانتا تھا کہ تصویر میں اُس کی پھوپھو کی گود میں اُس کی اپنی بہن اور کزن ژوہیب ہیں۔ جو اُس ہی خاتون کا بیٹا ہے جس نے تصویر لگائی ہے۔ اُس وقت یہی محسوس ہوا تھا کہ کسی نے اُس لڑکے کو اہمیت نہیں دی ۔جبکہ فائزہ کو علم ہو گیا تھا کہ پہلے والے اور اُس کے بھائی میں ایس ایم ایس کے ذریعے رابطہ ہو چکا ہے جو کھیل کے اصول کے خلاف ہے ۔ اس پر ہی اُس نے شور مچایا تھا۔لہذ اس ہی لیئے آخر میں تصویر لگانے والی خاتون نے اُس لڑکے کے بارے میں مذاق میں لکھا !!!۔۔"یو ٹو برؤٹس"۔۔

جواب آنے کے بعد ایک دم کچھ اور کمینٹز آئے جن میں سے ایک نئی خاتون نے صرف یہ لکھا کہ اچھا یہ وہ دونوں ہیں اور دوسری نئی خاتون جنکے نام کی مناسبت فائزہ اور اُسکے بھائی سے تھی نے لکھا ! اے میرے خدا !صرف 8لائق اور102کمینٹز۔چند اور بھی تھے۔لیکن اُن میں سب سے دلچسپ تھا اُس دوسرے والے کا جو تصویر والی خاتون کا بیٹا تھا ۔ اُس نے لکھا کہ وہ اپنے کاموں سے فارغ ہو کر آیا ہے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا ہے کہ اس بحث پر" ٹریفک یوایس،کینیڈااور اَسٹریلیا "کی بھی نظر آئی ہے۔اُس وقت رات کے 10بج چکے تھے۔
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 204 Articles with 309914 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More