سوچ گلی کے جگنو..آواز کی دنیا کا یگانہ شکیل دادا.. رشید بٹ

میرے سامنے ایک کاغذ رکھا ہے، تاریخ 31 مارچ 1965ء۔ زمانہ وہ جب کراچی میں ٹیلی فون نمبروں کے اعداد 5 ہندسوں کے بعد بقول کَسے ’’جواب‘‘ دے جاتے تھے۔ اس کاغذ پہ پتا میرے اس ’’دڑبے‘‘ کا ہے جہاں اُن دنوں مَیں رہتا تھا۔ 922 پی آئی بی کالونی، کراچی۔ اس زمانے کی بات ہی کیا تھی۔ پیرالٰہی بخش کالونی ادنیٰ متوسط اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے شریف شرفا کی پُرسکون آبادی تھی۔ زیادہ تر ہجرتِ مامورہ کی صعوبتیں دیکھے ہوئے تھے۔ باہم محبتیں تھیں۔ تُو کون، وہ کون، مَیں کون کا کوئی سوال نہ تھا۔ بس سے اُتر کے مین روڈ پر سیدھے چلتے جائیں تو نیم ڈھلواں راستہ لیاری ندی کنارے جا رکتا تھا۔ دونوں جانب خاموش خاموش چُپ چُپاں سی گلیاں! ندی کنارے سے ذرا وَرے مکرانی مسجد والی گلی تھی جس کے مولوی کا مکرانی لہجے میں حضرت موسیٰؑ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان مکالمے کے حوالے سے وعظ بڑا دل چسپ ہوتا تھا۔ اُسی گلی سے دو گلیاں پہلے وہ مکان یا کوارٹر تھا جس کے ایک کمرے میں تین اور کرایہ دار، دوستوں کے ساتھ میرا بھی ’’قیام‘‘ تھا۔ ہاں ہمارے خطوط وغیرہ آتے تو ان پر مذکورہ بھاری بھرکم پتا لکھا ہوتا تھا۔ اُسی گلی کی پَھپک میں مین روڈ کا کونا تھا جہاں سے دراصل دو گلیاں پھوٹتی تھیں اور ان ہی گلیوں کی عین پُھنگی پر ہمارے ملباری دوست کا چائے خانہ + ڈھابا تھا جہاں سال بھر محلے داروں مع کرایہ داروں کے ادھار کھاتے چلتے تھے۔ ایک اور بات کہتا چلوںکہ اُن دنوں ایسی آبادیوں میں ڈھابوں پر ملباری مامے اجارہ رکھتے تھے۔ دوستوں کے دوست۔۔۔۔ کسی جان پہچان، سفارش یا ’’ضمانت‘‘ کے بغیر دل کھول کے ادھار کھاتے کھولنے والے!
میرے سامنے ایک کاغذ رکھا ہے، تاریخ 31 مارچ 1965ء۔ زمانہ وہ جب کراچی میں ٹیلی فون نمبروں کے اعداد 5 ہندسوں کے بعد بقول کَسے ’’جواب‘‘ دے جاتے تھے۔ اس کاغذ پہ پتا میرے اس ’’دڑبے‘‘ کا ہے جہاں اُن دنوں مَیں رہتا تھا۔ 922 پی آئی بی کالونی، کراچی۔ اس زمانے کی بات ہی کیا تھی۔ پیرالٰہی بخش کالونی ادنیٰ متوسط اور متوسط طبقے کے پڑھے لکھے شریف شرفا کی پُرسکون آبادی تھی۔ زیادہ تر ہجرتِ مامورہ کی صعوبتیں دیکھے ہوئے تھے۔ باہم محبتیں تھیں۔ تُو کون، وہ کون، مَیں کون کا کوئی سوال نہ تھا۔ بس سے اُتر کے مین روڈ پر سیدھے چلتے جائیں تو نیم ڈھلواں راستہ لیاری ندی کنارے جا رکتا تھا۔ دونوں جانب خاموش خاموش چُپ چُپاں سی گلیاں! ندی کنارے سے ذرا وَرے مکرانی مسجد والی گلی تھی جس کے مولوی کا مکرانی لہجے میں حضرت موسیٰؑ اور اللہ تعالیٰ کے درمیان مکالمے کے حوالے سے وعظ بڑا دل چسپ ہوتا تھا۔ اُسی گلی سے دو گلیاں پہلے وہ مکان یا کوارٹر تھا جس کے ایک کمرے میں تین اور کرایہ دار، دوستوں کے ساتھ میرا بھی ’’قیام‘‘ تھا۔ ہاں ہمارے خطوط وغیرہ آتے تو ان پر مذکورہ بھاری بھرکم پتا لکھا ہوتا تھا۔ اُسی گلی کی پَھپک میں مین روڈ کا کونا تھا جہاں سے دراصل دو گلیاں پھوٹتی تھیں اور ان ہی گلیوں کی عین پُھنگی پر ہمارے ملباری دوست کا چائے خانہ + ڈھابا تھا جہاں سال بھر محلے داروں مع کرایہ داروں کے ادھار کھاتے چلتے تھے۔ ایک اور بات کہتا چلوںکہ اُن دنوں ایسی آبادیوں میں ڈھابوں پر ملباری مامے اجارہ رکھتے تھے۔ دوستوں کے دوست۔۔۔۔ کسی جان پہچان، سفارش یا ’’ضمانت‘‘ کے بغیر دل کھول کے ادھار کھاتے کھولنے والے!
مَیں بات کہاں سے کہاں لے گیا؟ لیکن کیا کیا جائے، ماضی کی ہر یاد کے ساتھ جانے کتنی کتنی یادیں جُڑی ہوئی ہیں۔
یہ کاغذ ایک خط تھا۔ ریڈیو پاکستان سینٹرل نیوزآرگنائزیشن کراچی کی طرف سے۔ خط ڈائریکٹر نیوز کی طرف سے جناب غلام نبی کے دستخطوں سے جار ہوا تھا۔ دل چسپ بات یہ ٹھہری کہ 1965ء میں بھی ریڈیو پاکستان کا پتا ’’براڈکاسٹنگ ہائوس، بندر روڈ، کراچی‘‘ لکھا تھا۔ ایم اے جناح روڈ نہ تھا!
خیر۔۔۔۔ اگلے روز مَیں ریڈیو پاکستان کی اس عمارت میں چلا گیا جو تب تک ’’کوہِ ندا‘‘ کی سی اساطیری روایت رکھتی تھی۔ بات پہلی بار داخلے کی بھی نہ تھی۔ اسی عمارت کے احاطے میں بیرونی دیوار سے لگی ایک منحنی سی نئی دو منزلہ عمارت بھی وجود میں آچکی تھی۔ یہاں بچوں کے لیے پروگرام ترتیب دیے جاتے تھے۔ اظہار حیدر اس کے پروڈیوسر تھے۔ ان سے شناسائی ہوگئی تھی۔ ایک دن کہنے لگے، بچوں کے لیے کسی غیرملکی لوک کہانی کی ڈرامائی تشکیل کرکے دو۔ مَیں نے فوراً ہامی بھرلی۔ ایک جاپانی کہانی کی ڈرامائی تشکیل کی اور وہ ڈرامہ نشر ہوا۔ ایک اور بات واضح کردوں۔ ان دنوں اخباروں میں تنخواہیں کم تھیں۔ اِدھراُدھر قلم چلانے کا معاوضہ بھی خاصا معمولی ہوتا تھا۔ گو اخراجات بھی زیادہ تو نہ تھے پھر بھی ضرورتیں، ماہرِ معیشت مالتھس کے بقول، زیادہ ہی رہتی ہیں۔ لہٰذا قلم ہر دَم کان پہ رہتا تھا۔ کبھی بہت مشکل پیش آتی تو ’’ہمدرد‘‘ میں مسعود احمد برکاتی صاحب کے پاس جا پہنچتا کہ اُن سے کام کے ساتھ ساتھ کچھ ’’ایڈوانس‘‘ بھی مل جاتا تھا۔ اُن محبتوں اور اپنائیتوں کو کوئی کیا نام دے؟ یہ سب کچھ بے نام تھا۔ کچھ تھا تو بس اپنا پن تھا، کُشادہ دلی اور کُشادہ ذہنی تھی۔
پچاس برس بیتنے کے بعد بھی یاد نہیں پڑتا کہ ریڈیوپاکستان نیوز میں کام کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی ہو۔ معاہدے پر دستخط کے بعد سوچا، ایک چکر نیوزروم کا بھی لگالیا جائے۔ اس کے بعد تو کسی نہ کسی شفٹ میں ’’جَوت‘‘ دیا جائے گا۔ اب اخبار ہو یا خبروں کا کوئی اور ادارہ، سب جگہ ایک لمبی مستطیل لیکن گول کناروں والی میز ایک سی ہوتی تھی۔ سارا ترجمہ ہاتھ سے ہوتا تھا۔ اب تو شاید وہ روائتی اشیاء گم نامی میں چلی گئیں۔ اخبارات کے نیوزروم میں چھوٹی چھوٹی کابکیں بناکر ان میں کمپیوٹر پھنسا دیے گئے ہیں۔
ریڈیو نیوزروم میں جو چہرے نظر آئے، سب اپنے ہی تھے۔ ہاں چند چہرے نئے تھے۔ بیابانی تھے، عُلوی تھے، ظفر رضوی تھے، کفیل احمد، تمثال عسکری تھے، سپروائزر کی کرسی پر ادریس صدیقی براجمان تھے۔ میرے چہرے پر، شناسا چہروں کے لیے کچھ حیرت دیکھ کر ظفررضوی کہنے لگے، ’’ابے حیران کیوں ہو رہے ہو۔ کچھ حیرت اُن چہروں کے لیے بھی بچا رکھو جو دوسری شفٹوں میں تمہیں نظر آئیں گے۔‘‘ اور مجھے احساس ہوا کہ کان پر قلم رکھے گھومنے والا مَیں اکیلا ہی نہ تھا۔ وہ سب بھی دو دو تین تین جگہ کام کرنے والوں میں سے تھے۔ ظفررضوی (مرحوم) روزنامہ جنگ میں میرے اساتذہ میں بھی شمار ہوتے تھے۔ لہٰذا، ابے تبے کرلیتے تھے۔ وہ استاد سے زیادہ میرے دوست تھے۔ ان کے ساتھ بِیتی یادوں پر جائوں تو پوری کتاب ہوجائے۔ مَیں سمجھ گیا کہ اِن ہی میں سے کسی نے ’’برائے ملازمت‘‘ میرا نام آگے بڑھایا ہوگا۔ اور اُسی لمبی میز کے ایک مدّور گوشے میں ایک بھاری بھرکم جسم پر گھنی بھنوئوں والا بھرا بھرا چہرہ نظر آیا۔ مَیں ابھی کچھ سوچ رہا تھا کہ ظفررضوی کی آواز اُبھری، ’’دیکھ کیا رہے ہو؟ یہ شکیل دادا ہیں، ہمارے نیوزریڈر۔‘‘ اور مَیں کچھ مختل سا آگے بڑھ کے اُن کے سامنے احتراماً جھک گیا۔ ’’مجھے رشید بٹ کہتے ہیں۔‘‘
’’ہاں، میں نے سن لیا ہے۔‘‘ انہوں نے میرا شانہ تھپکتے ہوئے جواب دیا۔ ’’اور ہاں، تم خبریں نہیں پڑھ سکتے۔ تمہاری آواز اور لہجے میں پختگی اور بھاری پن نہیں۔‘‘
’’شکیل صاحب، مجھے خبریں پڑھنے کے لیے نہیں، خبریں ’’بنانے‘‘ کے لیے بلایا گیا ہے۔ مَیں ترجمہ کیا کروں گا۔‘‘
چلو، ٹھیک ہے۔ پر مجھے یہ ’’آپ جناب‘‘ اچھا نہیں لگتا۔ اس میں اپنائیت نہیں ملتی۔ ابھی ظفررضوی نے کہا ناں! تم بھی مجھے شکیل دادا کہہ سکتے ہو۔ اور یہ جھکے ہوئے کیوں ہو؟ سیدھے کھڑے نہیں ہوسکتے؟
’’مَیں شکیل دادا تو کہہ لوںگا پر آپ جناب سے نیچے نہیں آسکتا۔ مَیں بزرگوں اور بڑوں کو مخاطب کرنے کے لیے یہ انداز نہیں اپنا پایا۔‘‘
اور یہ محبت بھری ڈانٹ مجھے سرگشتگی ٔ یادِ ایام کے تھپیڑوں میں لے گئی۔ اس زندہ وتوانا آواز سے تو میری سماعتیں برسوں سے آشنا تھیں۔ راول پنڈی کے وہ ماہ وسال جب مَیں ہائی اسکول اور پھر کالج کے اخراجات پورے کرنے کے لیے اخبار میں نوکری کرتا تھا، بُھٹے بُھون کے بیچتا تھا اور کتابوں کی جِلدبندی کرتا تھا۔ کبھی کبھار پشاور روڈ پر ریڈیوپاکستان راول پنڈی کے ہفتہ وار طلبا کے پروگرام سے کچھ یافت ہوجاتی تھی۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ ریڈیو پروگرام خصوصاً خبریں سننا میرے لیے کسی شوقِِ دل سے کم نہ تھے۔ پھر وہ زمانہ بھی کیا تھا۔ پورے گلی محلے میں کسی اِکّا دُکّا گھر میں ریڈیو ہوتا تھا۔ وہ گھر جو شاید مالی طور پر آسودہ ہوتے تھے۔ ریڈیو بھی بڑے بڑے والوز (Valves) والے جنہیں ’’اسٹارٹ‘‘ ہونے میں ہی تین چار منٹ لگتے تھے۔ اب کون وہاں جاکے بیٹھے اور ریڈیو سنے؟ شناسائی کے باوجود، گھر والے پسندکریں، نہ کریں۔ بس سے باہر ہی آواز سن کے جی بہلا لیں۔ پھر کسی نے ایک کتابچہ لا کے دے دیا کہ ’’اپنا ریڈیو خود بنائیں، ہیڈفون سے۔‘‘ ہیڈفون کہاں سے لائیں؟ راول پنڈی میں ایک پرانا مشہور کباڑی بازار تھا۔ سٹی صدر روڈ۔ پتا نہیں اب ہے یا نہیں؟ سڑک تو صاف ستھری لیکن دونوں جانب پیڑوں کے جھنڈوں میں آڑی ترچھی ڈھلوانوں پر ٹوٹا پھوٹا، سیکنڈ ہینڈ برقی سامان، پرزے، پرانی فوجی ٹرائمف موٹر سائیکلیں یوں بکھری رہتی تھیںکہ رستہ نہیں ملتا تھا۔ پتا چلا کہ یہ کباڑیے فوجی اسٹورز سے دوسری جنگ عظیم کا بچا کھچا، ٹوٹا پھوٹا، بے کار سامان نیلام میں خرید لاتے ہیں اور پھر چار پانچ ناکارہ چیزوں میں سے صحیح پرزے نکال اور جوڑکر ایک کارآمد چیز بنا کے تھوڑا بہت منافع کما لیتے ہیں۔ ایک دن راول پنڈی صدر میں واقع اخبار کے دفتر جاتے جاتے وہاں رک گیا اور دفتر تاخیر سے پہنچنے کا خطرہ مول لیتے ہوئے پرانے ہیڈفون ڈھونڈنے لگا۔ کباڑیے کے پاس شاید مَیں ایسا ’’پہلاگاہک‘‘ نہ تھا۔ وہ مجھے مصروف دیکھ کے اٹھا اور تھوڑی دیر میں ایک بنا بنایا چوبی ڈبہ لے آیا۔ اس میں چند پرزے اور ایک شکستہ سا ہیڈفون تاروں سے جُڑا ہوا تھا۔ اس نے شاید دس روپے (اس وقت کے) مجھ سے لیے اور ہدایت نامۂ کباڑیاں جاری کرتے ہوئے بتایا کہ گھر جا کے چھت پہ دو ڈنڈے لگائوں اور اُن سے المونیم کا ایک تار کھینچتے ہوئے نیچے لاکر اُس ڈبے میں لگادوں۔ بس ’’ریڈیو‘‘ چل پڑے گا۔ ہاں سننے کے لیے ہیڈفون کانوں سے لگانا نہ بھولوں۔ اور ریڈیو واقعی چل پڑا۔ ریڈیو کے اردونیوزریڈرز شمیم اعجاز، انوربہزاد، مسعودتابش (دوسرے ’’روپ‘‘ میں ممتاز شاعر تابشؔ دہلوی) اور شکیل احمدکی آوازیں ذہن سے گویا چپک کے رہ گئیں۔ مالی حالات کبھی ایسے نہ ہوسکے کہ ریڈیو خرید سکتا حالاں کہ کراچی آتے آتے تک چھوٹے ٹرانسسٹرریڈیو بھی میدان میں آچکے تھے۔ پھر کراچی میں ذرا سی مالی آسودگی ملی تو صدر میں سنگر والوں کی پرانی دکان سے قسطوں پہ ایک ٹرانسسٹرریڈیو بہرحال خرید لیا۔ اس ٹرانسسٹرریڈیو کے ساتھ کیا بیتی؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔
اب واپس ریڈیو پاکستان کراچی کے نیوزروم میں۔ میری یونی ورسٹی، پارٹ ٹائم اور ’’فل ٹائم‘‘ اخباری ملازمتوں کی مصروفیات دیکھتے ہوئے ریڈیونیوز والوں نے ارزہِ کرم میرے ڈیوٹی اوقات دوپہر سے شام کے درمیان رکھے۔ شکیل دادا کی نیوزریڈنگ کے اوقات بھی قریب قریب وہی تھے۔ ریڈیونیوز میں ترجمے کا ایک خاص انداز تھا۔ فولز کیپ گتّے ہوتے تھے، چاروں کونوں پر ریگزین کے تکونے ’’کان‘‘۔۔۔۔ ان گَتّوں میں مخصوص بھورے رنگ کے کاغذ اور ان ہی پر دو سطروں کے درمیان خاصی جگہ چھوڑ کے لکھا جاتا تھا۔ جگہ چھوڑنے کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ غلطی سے ایک ہی سطر دوبارہ نہ پڑھ دی جائے۔ عموماً ایک گَتّے پہ ایک ہی خبر ہوتی لیکن خبر اگر طویل ہوتی تو پھر کئی گتّوں پر پھیلادی جاتی ۔ تاہم، ہر گَتّے پر نمبر کے ساتھ عنوان (Slug Line) ضرور لکھے جاتے تھے۔ ترجمے پر سپروائزر نظرثانی کرتا اور پھر عموماً اپنے دائیں ہاتھ بیٹھے نیوزریڈرز کی طرف بڑھا دیتا۔ نیوزریڈر ریہرسل کے طور پر وہ خبر پڑھتا اور ایک جانب رکھ دیتا۔ ساتھ ہی عام طور پر ایک مترجم بھی بیٹھا ہوتا جو اُن گَتّوں کو ترتیب سے اوپر نیچے رکھتا جاتا۔ خبروں یا گَتّوں کی تعداد کا انحصار خبروں کے اوقات اور ان کے دورانیے پر ہوتا تھا۔ یہ سب کام بڑی حسّاس نوعیت کا ہوتا تھا۔ اسٹوڈیو کی جانب روانگی کا وقت آتا تو نیوزریڈر اور گَتّوں کا پُلندا اٹھائے ایک مترجم ساتھ ساتھ اسٹوڈیو میں داخل ہوتے۔ میرے خیال میں یہ پانچ منٹ، دس منٹ یا پندرہ منٹ، جو بھی خبروں کا دورانیہ ہوتا، نیوزریڈر اور ’’گَتّا بردار‘‘ معاون/ مترجم، دونوں کے لیے بڑے حسّاس، ذمہ دارانہ اور کڑی اعصابی آزمائش کے حامل ہوتے تھے۔ سائونڈپروف اسٹوڈیو میں یہ احتیاط بھی لازمی ہوتی تھی کہ ورق الٹنے یا گَتّا رکھنے، اٹھانے کی آواز پیدا نہ ہو۔ اب اس میں طریقۂ کار یہ اپنایا جاتا تھا کہ معاون کی نظریں، نیوزریڈر کی آواز اور نظروں کے ساتھ چلتی تھیں۔ نیوزریڈر جوںہی آخری سطر پڑھ کے گَتّا دائیں ہاتھ رکھتا، معاون بائیں جانب سے کسی تاخیر کے بغیر اگلا گَتّا سامنے رکھ دیتا تاکہ کہیں کوئی سکتہ نہ آئے۔ خبریں ختم ہوتیں تو معاون اسی طرح گَتّوں کا پُلندا اٹھائے نیوزریڈر کے ساتھ باہر آجاتا۔ اور دونوں سُکھ کی لمبی سانس لیتے۔
ہر نیوزبلیٹن میں گو یہی کیفیت ہوتی، مگر نیوزروم میں ماحول کچھ دِگر ہی ہوتا تھا۔ شورشرابا، فقرے بازی۔ عمومی طور پر ہرکسی کو بلیٹن ختم کرکے اپنی اگلی ’’نوکری‘‘ پہ ’’بھاگنا‘‘ ہوتا تھا، اس لیے مصروفیت کے ساتھ عجلت بھی گھیرائو کیے رہتی۔ چائے پہ چائے آتی اور چائے بناکر سب کو پیش کرنے کی ’’ڈیوٹی‘‘ بھی مجھ ایسے ’’چھوٹے‘‘ یعنی جونئیر کے ذمّے لگتی۔ شکیل احمد تب صرف شکیل احمد یا شکیل دادا تھے۔ ہاں آواز کی دنیا میں گھن گرج اور بھاری پن میں یکتا۔ شکیل دادا، اُن کی آواز کے زیروبم، لب ولہجے اور الفاظ کی ادائیگی کو روزمرّہ اور پاکستان میں ہر دھڑکتے دل کی آواز بنا دینے کا وقت ابھی نہ آیا تھا۔ وہ وقت ستمبر 1965ء میں آیا جب پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ ہوئی۔ ترجمہ تو ترجمہ کرنے والے کرتے تھے لیکن ’’ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے، تاک تاک کر نشانے لگانے، جام پور، ہلواڑہ‘‘ ایسے فقروں، ناموں اور الفاظ کو شکیل احمد نے وہ شہرت بخشی کہ یوں محسوس ہوتا تھا گویا شکیل احمد کے نام کو دوام حاصل ہوگیا ہو۔ مولانا محمد حسین نے ’’شہرتِ عام اور بقائے دوام‘‘ کا ایک تاج اپنے سر پہ سجایا تھا تو دوسرا تاج شکیل احمد کے سر پہ سجادیا۔
شکیل احمد بڑے مرنج ومرنجاں تھے۔ کسی کو کچھ سمجھانا ہو تو لہجے میں عموماً کراراپن یا سختی آجاتی۔ ابتداً تو مخاطب سمجھتا کہ ڈانٹ رہے ہیں پھر اُن کا چہرہ دیکھ کر سمجھ جاتا کہ اُس پر تو محبتوں کے سائے لہرا رہے ہیں۔ ایک دن چائے آئی۔ مجھے چائے بنا کر انہیں ’’پیش کرنے‘‘ میں معمول سے چند سیکنڈ زیادہ لگ گئے ہوںگے۔ مَیں نے میز کے دوسرے سرے سے اُٹھ کر چائے ان کے سامنے رکھی تو کہنے لگے۔ ’’تمہاری عمر کتنی ہوگی؟‘‘ مَیں نے جواب دیا، یہی کوئی بیس بائیس برس‘‘ ابھی میری بات ختم نہ ہوئی ہوگی کہ بولے، ’’اس عمر میں تم اتنے سست ہو۔ چائے بنانے میں اتنا وقت لگا دیا۔ میری عمر کو پہنچو گے تو تمہارا کیا حشر ہوچکا ہوگا؟ اُٹھ کے چل پھر بھی نہ سکوگے۔‘‘
میرے اندازے کے مطابق تب اُن کی عمر پچاس پچپن برس سے زیادہ نہ رہی ہوگی۔ آج جب مَیں خود ستّر کے پیٹے میں ہوں تو سوچتا ہوںکہ شکیل دادا کی باتوں کا وزن کیسا تھا؟ اس عمر میں بھی مشقت (چکّی کی نہ سہی) جاری ہے۔ تھکن حاوی ہوتی ہے، چلنے پھرنے کو جی نہیں چاہتا تو شکیل دادا ایسے بزرگوں، استادوں کی باتیں یاد آجاتی ہیں۔ وہ خود دنیا میں نہیں رہے مگر باتوں اور یادوں کے گل زار کھِلا گئے۔ کل ہم بھی نہ ہوںگے تو ہماری باتیں کون یاد رکھے گا؟ کون انہیں زادِسفر بنائے گا؟
ایک روز ذرا فراغت تھی۔ کہنے لگے ’’تم کشمیری ہو ناں، تمہیں تو کچھ آتا ہی نہیں۔ مَیں نے آغاحشر کاشمیری کے ساتھ کام کیا ہے، اُن کے ڈراموں میں۔ ’طرابلس کا چاند‘ ، ’یہودی کی لڑکی‘۔ آغاحشر اہلِ زبان نہ تھے مگر بڑے بڑے اہلِ زبان اُن کے سامنے کان پکڑتے تھے۔‘‘
’’ہاں دادا، اسی لیے تو لوگ کہتے ہیںکہ کئی سوسال پہلے برطانیہ میں بھی ایک آغاحشر کاشمیری پیدا ہوا تھا۔ اور اس نے محض اس ڈر سے کہ لوگ اُسے آغاحشر کا نقّالی نہ کہنے لگیں، اپنا نام ’ولیم شیکسپیئر‘ رکھ لیا تھا۔‘‘ مَیں نے ان کی بات کاٹ دی تو بولے، ’’تم میں تھوڑی سی حِسِِ مزاح بھی ہے۔ اپنے تلفظ اور لہجے پر توجہ دو، آگے بڑھوگے۔‘‘
’’لیکن دادا، آج میری بات ابھی پوری نہیں ہوئی۔ آپ ’’دادا‘‘ کیسے بنے؟ یہاں تو عام طور پر ’’دادا‘‘ کا کچھ اور ہی مطلب لیا جاتا ہے۔ لوگ دادائوں اور داداگیری سے گھبراتے ہیں، ڈرتے ہیں۔‘‘
’’ہاں، یہ تمہاری بات کچھ وزن رکھتی ہے۔ آخر ہوناں کشمیری۔۔۔۔‘‘ مَیں نے پھر اُن کی بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’دادا، مَیں ہوں تو کشمیری لیکن لوگ مان کے نہیں دیتے، حالاںکہ مَیں نے یہاں تک کہہ دیا کہ مَیں ذرا ’’دُھوانسا‘‘ گیا تھا۔ ہجرت کے دوران جمّوں سے سیالکوٹ، راول پنڈی اور پھر کراچی تک آتے آتے صحت ذرا کم زور ہوتی گئی، دبلاپتا رہ گیا۔ اور شوکت صدیقی صاحب مجھے دیکھتے ہیں تو لکھنٔو کے کشمیری بھانڈوں کو سامنے لاکھڑا کرتے ہیں، ہٹے کٹے، جسیم۔۔۔۔ اور کہتے ہیںکہ تم کشمیری نہیں، کشمیریوں کا خلاصہ ہو۔ انہوں نے تو کشمیری بھانڈوں کے حوالے سے ایک افسانہ بھی لکھا ہے، ’’ڈھپالی‘‘ اور دادا اس افسانے کا انجام، جس میں جابجا ہماری بے حسی، مذہبی رواداری کے اعتبار سے غیرمنقطی سوچوں کا اظہار بھی ہوتا ہے، اونچے اونچے ایوانوں والی، آپ کی اسی ریڈیوبلڈنگ کے گرد گھومتا ہے،کہ ایک ماہر سا رنگی نواز ہجرت کے پَھر سے نکلتا ہے تو وقت کے جبر کے ہاتھوں مجبور ہوکر مضراب کی جگہ چمڑا کاٹنے والی راپنی تھام لیتا ہے۔ روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر۔۔۔۔ مَیں کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوچلا تھا۔ اور ہاں۔۔۔۔ ایک دن ابراہیم جلیس صاحب نے بھی میری کشمیریت کو چیلنج کردیا تھا۔ وہ خاصا عرصہ لاہور میں رہے ہیں اس لیے کشمیریوں کے بارے میں سند کا درجہ بھی رکھتے ہیں۔ انہیں بھی مَیں نے شوکت صدیقی صاحب والی مثال دے کر ٹھنڈا کیا تھا۔‘‘
شکیل دادا پتا نہیں کیوں اور کیسے میری اتنی لمبی چوڑی ’’تقریر‘‘ سنتے رہے اور پھر بڑی سنجیدگی سے لفظ ’’دادا‘‘ کی وضاحت کرنے لگے، ’’دیکھو، تم تو اُدھر سے آئے نہیں۔ یہ برصغیر میں گنگاجمنا کا دوابہ ہے ناں، اس میں جوں جوں آگے بڑھتے جائیں۔ بہار، تری پورہ آسام، بنگال۔ الفاظ، تلفظ اور ان کے مفہوم ومعانی بدلتے چلے جاتے ہیں۔ اب دیکھو ناں، ہندی ہو، اردو ہو یا یہاں کی کوئی اور زبان، سب میں ابّا کے ابّا کو دادا کہا جاتا ہے، لیکن جب ہم بہار، آسام اور بنگال کی طرف بڑھتے ہیں تو اس لفظ کے معانی وسعت اختیار کرجاتے ہیں۔ وہاں بڑے بھائی یا کسی بزرگ کو بھی عزت سے ’’دادا‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ تمہیں شاید علم نہیںکہ مَیں نے ملازمت کا آغاز ریلوے سے کیا تھا۔ تب ایک ہی ملک تھا۔ کئی برس جگہ جگہ گھوما۔ پھر ریلوے چھوڑکر کلکتہ میں رہنے لگا اور جان پہچان والوں کا ’’دادا‘‘ بنتا گیا۔ یوں شکیل احمد سے شکیل دادا بن گیا۔ میرے گھر والوں نے میرا نام وکیل احمد رکھا تھا۔ آغا حشرکاشمیری نے مجھے ڈائیلاگ بولنا سکھائے تو نام بھی وکیل سے شکیل کردیا۔ ایسے ہی ہوتا ہے۔ تمہارا نام رشید بٹ بھی تو پورا نام نہیں ہے۔ کچھ نہ کچھ تو درمیان میں ہوگا۔ احمد، محمد، عبدل، تم نے وہ کیوں نکال دیا؟‘‘
’’ہاں دادا، مَیں نے اخباروں میں مضامین وغیرہ لکھنے شروع کیے تو اپنی تحریر دیکھ کر خاصا جوشیلا اور جذباتی ہوگیا تھا۔ پورا نام ’’رشید احمد بٹ‘‘ ہی نہیں بلکہ ایک ’’ادیب صاحب‘‘ سے متاثر ہوکر ساتھ ’’بی اے‘‘ بھی لکھتا تھا۔ دوچار مضمون چَھپ گئے تو سوچا کہ ’’بی اے‘‘ میں ایسی کون سی خصوصیت ہے۔ یہاں تو ایک پتھر ہٹائو، ستّر بی اے پاس نکلیں گے۔ کچھ ندامت کا احساس بھی ہوتا۔ پھر یہ احساس اتنا بڑھا کہ سب کچھ ہٹا کر نام صرف ’’رشید بٹ‘‘ کردیا۔ آپ جیسے لوگ میرا حلیہ، قدکاٹھ دیکھ کر میری کشمیریت کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ اب یونی ورسٹی سے صحافت میں ایم اے کررہا ہوں۔ پھر دیکھوںگا، ایم اے لکھنا ہے یا نہیں۔‘‘ اور ہم دونوں ہنسنے لگے۔ دادا، یاد ہے پہلی ملاقات میں ہی آپ نے ’’فتویٰ‘‘ دے دیا تھا کہ مَیں خبریں نہیں پڑھ سکتا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ ایسا ’’فتویٰ‘‘ کئی برس پہلے گورڈن کالج راول پنڈی کے جوبلی ہال میں سیکڑوں طلبا اور طالبات دے چکے تھے۔ آپ تو جانتے ہیں، کالجوں میں فرسٹ ایئر فول بنانے کی روایت جانے کب سے چلی آرہی ہے۔ 1961ء میں مجھے بھی بنایا گیا۔ لیکن مَیں نے چند مہینے بعد ہی Cover up کرلیا۔ گورڈن کالج راول پنڈی کی اپنی روایات تھیں۔ اس میں مخلوط تعلیم تھی۔ طلبا اور طالبات کے دو کلب خودکار طریقے پر وجود میں آجاتے تھے۔ جن کے رول نمبر طاق میں ہوتے یعنی 1,3,5 وہ منروا (Minerva) اور جفت یعنی 2,4,6 رول نمبر والے بار (Bar) کلب کے رکن بن جاتے۔ اور پھر اگلے چار چھ برسوں تک نہ صرف کالج میں مضمون نویسی، تقریری مقابلوں اور اسپورٹس ایسی غیرنصابی سرگرمیوں میں مدّمقابل رہتے بلکہ دوسرے کالجوں اور بیرونِ شہر تعلیمی اداروں میں بھی مقابلے جیتتے، لُٹّس مچاتے۔ لیکن دادا، ایک اور بات۔ اُن سنہری دنوں میں سب کچھ اہلیت کے بل بُوتے پر ہوتا تھا۔ ہوا یوںکہ چند ماہ بعد منرواکلب کی طرف سے مقابلۂ مضمون نویسی کا ’’پرچہ‘‘ لگا۔ لڑکے لڑکیاں کل ملا کے پانچ چھ سو کا ہجوم تھا۔ مَیں بھی کود پڑا اور مقابلے
میں شرکت کے بعد چند دن کی چُھٹی لے کے زندگی میں پہلی بار کراچی آیا کہ میری بڑی بہن اپنے کنبے اور منجھی بستروں کے ساتھ دبئی جارہی تھیں۔ وہ بھی کیا دن تھے کہ دبئی وغیرہ میں تیل تو ابھی کم نکل رہا تھا لیکن پاکستان سے بندے وہاں جانے کے لیے زیادہ نکل رہے تھے۔ واپس راول پنڈی پہنچا تو کالج میں میری ڈُھنڈیا پڑی ہوئی تھی۔ پتا چلا کہ سینئر اساتذہ نے جو جج بھی تھے، میرے مضمون کو اوّل قرار دیا تھا اور میرے اُردو کے استاد، میری ’’غیرموجودگی‘‘ میں اہلے گہلے پھر رہے تھے۔ پھولے نہیں سما رہے تھے اور مجھے گھر سے دفتر تک ڈھونڈوا رہے تھے۔ دادا، ان دنوں مَیں کالج کا خرچہ پورا کرنے کے لیے اخبار میں نوکری بھی کررہا تھا، مجھے دیکھا تو گلے لگالیا۔ وہ بھی کاکوری سے ہجرت کرکے راول پنڈی آئے تھے اور گورڈن کالج میں پڑھا رہے تھے۔ پڑھا کیا رہے تھے، ہم ایسے غبی مغز شاگردوں میں پَھیّوں پَھّیوں علم ٹپکا کے خوش ہوتے تھے۔ کیسے استاد تھے وہ کہ اُن کی یادیں اور تربیت روشن چراغوں کی مانند ساتھ چلتی رہتی ہیں۔ بڑی آئو بھگت ہوئی۔ توصیفی جلسہ بھی ہوا جس میں سینئر اساتذہ بھی شریک تھے لیکن کسی نے کنایہ تک نہ دیا کہ میری اس عزت افزائی کا ذمّے دار کون تھا۔ سینئر کلاس میں اُن ہی سینئر اساتذہ نے پڑھایا بھی۔ اُن میں سے ایک بریلی کے تھے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے گویا وہ زمانہ میرامّن دہلوی کے قصہ چہاردرویش ایسا تھا۔ کچھ درویش سینئر اور کچھ جونیئر تھے لیکن تھے سب درویش ۔۔۔۔ کہ جانے کہاں کہاں سے لُٹ پُٹا کے وہاں اکٹھے ہوگئے تھے! سینئر درویش مِہربکف اور جونیئردرویش سراپا احترام!
دادا، یہ تو تھا اہلیت یا (Merit) کا ایک رخ اور دوسرا رخ تھا جس کا مَیں پہلے تذکرہ کرچکا ہوں۔ طے یہ پایا کہ مضامین، تقریری عنوانات کے حامل تھے لہٰذا، اب منروا اور بارکلبوں کے درمیان جو سالانہ تقریری مقابلے ہوںگے اُن میں پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والی تحریریں شامل ہوںگی۔ بس دادا، یہاں میری ساری علمیت کی چِیں بول گئی۔ بولنا ہی میری شاید سب سے بڑی کم زوری تھی۔ اب تو غالباً کچھ فرق آچکا ہے لیکن تب میرے لہجے اور الفاظ کی ادائیگی میں بیک وقت کشمیری، پہاڑی، گوجری، پنجابی، پوٹھوہاری اور جانے کون کون سی مقامی اور علاقائی زبانوں کا رنگ جھلکتا تھا۔ جھول پڑتا تھا۔ مجھے بڑی ’’ریہرسل‘‘ کرائی گئی۔ تقریب کے لیے کچھ بھرم بھی درکار تھا۔ کالج یونیفارم بھی نسبتاً بہتر ہونی چاہیے تھی۔ ایک کلاس فیلو نے اپنا بلیزر دان کیا کہ وہ میرے بلیزر سے قدرے اچھی حالت میں تھا۔ پتلون کا معاملہ ذرا اَڑنگا ثابت ہوا، بہرحال وہ بھی سُلجھا۔ دادا، یہ کوئی شکوۂ ایّام نہیں۔ اُن دنوں سب کے مالی حالات ایسے ہی تھے، تاہم ہرکوئی باہم ہاتھ بٹانے میں کسی سے پیچھے رہ جانا پسند نہ کرتا تھا۔ آج بھی وقتاً فوقتاً ایسا ہی ہوتا ہے۔ بات، ذرا ذرا سی بات پہ کہیں کی کہیں نکل جاتی ہے۔ تقریری مقابلے ہوئے اور میرے اسی لب ولہجے کو لے کر حاضرین وسامعین باتمکین نے کلیتاً اہلیت یا میرٹ (Merit) کی بنیاد پر مجھے اُڑا کے رکھ دیا۔ پرومپٹر (Prompter) بھی کچھ نہ کرسکا۔ اور مَیں دل ہی دل میں سوچتا رہ گیا کہ
مرے کام کچھ نہ آیا یہ کمالِ نے نوازی
تو دادا، اب آپ میرے لب ولہجے کے معاملے میں کچھ مطمئن ہوگئے ہوںگے! اس کے بعد مَیں نے تقریر، خصوصاً
مائیک پر بولنے سے توبہ کرلی۔
مَیں نے تو شکیل دادا کی یادوں، باتوں کا سلسلہ توڑنے کی کوشش کی تھی لیکن اُن پر بھی شاید اپنا ماضی طاری تھا۔ بات کا سِرا وہیں سے پکڑا، ’’مَیں کلکتہ میں آغاحشر کاشمیری سے ابھی کچھ سیکھ رہا تھا کہ میری پاٹ دار آواز ذوالفقار علی بخاری کی سماعتوں سے جاٹکرائی۔ یہ اُن کی صداشناسی تھی کہ مجھے اٹھا کر کلکتے سے پہلے آل انڈیا ریڈیو، بمبئی اور پھر دہلی لے گئے۔ پاکستان بنا تو مَیں ہجرت کرکے یہاں چلا آیا۔ تمہیں پتا ہے قیام پاکستان کے بعد ریڈیوپاکستان سے خبروں کا پہلا بلیٹن مَیں نے ہی پڑھا تھا۔ یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔‘‘
شکیل دادا 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے بعد آواز کی دنیا میں یگانہ روپ کے مالک بن چکے تھے۔ ایک دن مَیں نے پوچھ لیا، ’’دادا، آپ ملیح آباد میں پیدا ہوئے، لگ بھگ چالیس برس اس طرح گزارے کہ سارا ملک ایک ہی تھا۔ برصغیر تھا۔ پھر دو ملک بن گئے۔ ہم لوگ تو صرف ترجمہ کرتے تھے، مگر آپ جس انداز میں وہ خبریں پڑھتے تھے، وہ کچھ۔۔۔۔‘‘
’’دیکھو بھائی، مَیں تمہاری بات سمجھ گیا۔ ٹھیک ہے، مَیں اُدھر پیدا ہوا لیکن ساری سرزمین کے اِس حصے کو وطن بنانا تو میرا اپنا فیصلہ تھا ناں! اور تم کیوں آگئے تھے اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کے؟ ساری داستان تو تم سنا ہی چکے ہو۔ چھوڑو، ان باتوں کو۔۔۔۔ بس یہی ہمارا وطن ہے۔‘‘
ایک دن مَیں نے کہا، دادا! اب مَیں اپنے نام کے ساتھ ایم اے لگا نہ پائوںگا۔ مجھے یونی ورسٹی سے نکال دیا گیا ہے، دو سال کے لیے۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کچھ صاف صاف بتا کے نہیں دیا۔ بس Rustication کا خط رجسٹرڈ ڈاک سے بھیج دیا۔ اندرکی کہانی یہ ہے کہ مَیں جو سال بھر سے چینی قونصلیٹ کے لیے چیئرمین مائوزے تونگ کی تحریروں کا ترجمہ کررہا تھا تو خفیہ پولیس والوں کی پہنچ میں آگیا۔ بس نتیجہ صاف ظاہر تھا!‘‘
کچھ روز اور بیت گئے۔ شکیل دادا خبریں پڑھ کے بیٹھے تھے۔ مَیں نے اُن کے قریب جاکے خبر دی۔ ’’دادا، مَیں پاکستان سے جارہا ہوں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ دادا نے ایک نشرشدہ خبر والا گَتّا میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’جن کی وجہ سے یونی ورسٹی نے نکالا تھا، انہوں نے ہی اپنے ہاں بلا لیا ہے۔‘‘ اور مَیں ستمبر 1967ء میں چین چلا گیا۔
انسان بعض اوقات چاہتے ہوئے بھی دل میں بکھری کرچیاں سمیٹ نہیں سکتا۔ کرچیاں جو چبھتی بھی ہیں! وہ میری شکیل دادا سے آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد مَیں جانے کتنی بار پاکستان آیا، گیا۔ کراچی میں رہا، کراچی سے باہر رہا لیکن شکیل دادا سے ملاقات میں کوئی نہ کوئی اَڑچن آجاتی۔ ہاں اتنا ضرور سننے میں آیا کہ حکم ران تو بہرحال حکم ران ہوتے ہیں۔ وہ خبروں کی دنیا کو کراچی سے اٹھا کے راول پنڈی، اسلام آباد لے
گئے۔ شکیل دادا نے اپنا شہر چھوڑ کے جانے سے انکار کردیا۔ انہیں ریڈیو کی عالمی سروس کے حوالے کردیا گیا اور اس سرزمین کی فضائیں اُن کی پاٹ دار، طرح دار آواز سے محروم ہوگئیں۔ آخری بار جب مَیں کراچی کے راستے 1977ء میں چین ’’فرار‘‘ ہورہا تھا تو ستمبر ہی کا مہینہ تھا۔ گزشتہ تین چار مہینے سخت اذیتوں میں گزرے تھے۔ بہرحال دل میں تہیہ کیے ہوئے تھا کہ اب کی بار شکیل دادا سے مل کے جائوںگا لیکن جون کی کسی تاریخ کو پتا چلا کہ شکیل دادا مجھ سے ’’ملاقات‘‘ کے مرہون نہیں رہے۔ جاتے جاتے دل میں شاید کہہ گئے ہوںکہ ’’رشید، تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو؟ جائو تم نہیں ملتے تو ہم تم سے ملنے کو کون سے اداس بیٹھے ہیں؟ ہماری بلا سے کہیں بھی رہو۔ ہم تو تمہارے اس دیس ہی سے جارہے ہیں، اپنے اُس دیس کو جہاں سے ہم کبھی پلٹ کے نہ آئیں گے۔‘‘
مَیں جو اِس اپنے دیس سے نکلا تو چھ سات برس لوٹ کے نہ آیا۔ شکیل دادا تو ہمیشہ کے لیے جاچکے تھے۔ یہی کرچیاں اب دل میں چبھتی ہیں۔۔۔۔ اور چبھتی رہیںگی۔ اُس دیس میں اُن کے خبروں والے گَتّے جانے کون اٹھاتا ہوگا؟ جانے کون اُن کی آواز اور خبروں والے صفحوں پر لکھی تحریروں پر نظر رکھتا ہوگا؟ جانے کون یہ خیال رکھتا ہوگا کہ سائونڈ پروف اسٹوڈیو میں کاغذوں کی سرسراہٹ سنائی نہ دے۔۔۔۔
 
Rashid Butt
About the Author: Rashid Butt Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.