سو جی رہے ہیں مرے شہر میں مرے ہوئے لوگ

شہید اسلام حضرت عمر فاروق اعظم رضی اﷲ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ"دریائے دجلہ و فرات کے کنارے کوئی پیاسا کتا بھی مرگیا توعمر(رضی اﷲ تعالی عنہ) کی پکڑ ہوگی۔ قول عمر فاروق رضی اﷲ تعالی عنہ نے مجھے یہ بھی سوچنے پر مجبور کیا کہ آخر روس شام کی مدد کیوں کر رہا ہے ؟ شام میں اس وقت جابر حکمران بشار الاسد کی غاصبانہ اقتدار ہے۔روس کوئی اسلامی ریاست نہیں ہے کہ شام کی مدد کیلئے وہ جنگ میں شریک ہوچکا ہے ۔ ترکی نے روس کو اس کی اوقات اس وقت یاد دلادی جب اس نے وارننگ کود رخو اعتنا سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی تو دنیا پر عالمی اسلامی سلطنت خلاف عثمانیہ کے سپوتوں نے بغیر کسی لیل وحجت کے روس کے طیارے کو زمین پر مار گرایا ۔ روس چراغ پا ہوگیا اور اس نے جواباََ سخت ردعمل دینے کی دہمکی دیتے ہوئے کہہ دیا کہ ترکی انتہا پسندی کو فروغ دے رہا ہے۔روس خود کیا کر رہا ہے اس پر اس نے سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ وہ کسی ریاست کو اپنا اغلام سمجھ کر بغیر اجازت گھسا چلا آئے اور کوئی کچھ نہ کہے ، لیکن ترکی متعدد معاملات میں جرات مندی کا مظاہرہ کررہا ہے حالاں کہ فری میسن کے تربیت یافتہ کمال پاشا اتاترک جس نے خلافت عثمانیہ میں مغربی اقدار کو فروغ دینے کی کوشش کی اور ترک کی اسلامی روایات اور طاقت کو تقسیم کیا ،ترکی عوام نے بھی یورپ میں شمولیت کیلئے ترقی پسند کی کوشش کی لیکن صدیاں لگتی ہیں کسی قوم کی روایات و ثقافت بدلنے میں ، ترک اپنی ریاست کیلئے کوئی بھی نظام اختیار کرنا چاہیے اس کا داخلی معاملہ ہے لیکن یورپ کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہی خلافت عثمانیہ کے حکمران تھے جن کو جزیہ دیتے ہوئے ہاتھ جوڑتے اور ان کے سرجھکے سہمے زدہ و جسم کانپتے رہتے تھے۔ مسلم عالمی ریاست کا شیرازہ تو چھوٹے چھوٹے نام نہاد اسلامی ممالک بنا کر بکھیر دیا گیا لیکن جب یورپ دور جاہلیت سے نشاۃ ثانیہ کے طفیل ترقی کے دور میں داخل ہوسکتا ہے تو مسلم امہ میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک دوبارہ کیوں بیدار نہیں ہوسکتی۔امریکہ و روس شام میں موجود داعش کے خلاف متحد ہوچکے ہیں لیکن یہاں ان کی دوغلی پالیسی نے بھی حیران کیا ہو ہے کہ ایک طرف تو بشار الاسد کی غاضبانہ حکومت اپنی عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، امریکہ چاہتا ہے کہ بشار الاسد کا اقتدار کا خاتمہ ہو ، بشار الاسد کیمیاوئی ہتھیار معصوم عوام پر استعمال کرے لیکن اس پر اقوام متحدہ خاموش رہے اور عراق میں صرف جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے کیمیاوئی ہتھیار کا بہانہ بنا کر جارحیت کرکے قبضہ کرلے اور وہاں بھی جاتے جاتے فرقہ پرست حکمران کو اقتدار سونپ جائے تاکہ معصوم بے گناہ عوام کو جبری مسلک پر مجبور کرے اور عراق کی وحدت کو تین حصوں میں تقسیم کرے ، لیکن جہاں کیمیاوئی ہتھیار استعمال ہوئے وہاں اقوام متحدہ دنیا کو لولی پاپ دینے میں مصروف ہے۔ روس کی جانب سے وٹو پاور کے آمرانہ اقدام کے بہانے کا جواز لیکر بشار الاسد کی جابرانہ حکومت کے آگے گھٹنے ٹیک دے تو پھر اس صورتحال میں اپنے مفادات کیلئے مغرب جس طرح القاعدہ ، طالبان بنا سکتا ہے تو داعش بنانے میں کونسا امر مانع ہے۔سوچنے کی بات ہے کہ اگر انبیا علیہ السلام کے مزارت کوئی مسلکی مسمار کرتا تو اسلامی فرقوں میں پوری دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ، لیکن ایک مسلک کو نشانہ بناتے بناتے داعش نے تمام مسالک کو اپنی لیپٹ میں لے لیا اور اب سنی مطئمن کی شیعہ کے خلاف ہے اور شیعہ مطئمن کہ سنیوں کی بیخ کنی ہو رہی ہے۔شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے مضبوط گڑھ رقہ میں مشترکہ حملے کے لئے حکمت بنا کر بمباریاں شروع کردیں گئیں ہیں لیکن زمینی فوج کوئی نہیں اتار رہا ۔افغانستان میں صرف بامیان کا بت ہی مسمار ہوا تو دنیا بھر کے ممالک نے اپنی افواج کے ساتھ چڑھائی کردی لیکن داعش نے آثار قدیمہ ، تاریخی شہر ، ہزاروں سال کے تاریخی بت برباد کردیئے ، مسلمانوں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی ، انسانوں کے گلے کاٹ ڈالے ، جبری اپنے قوانین کا نفاذ کیا لیکن مغرب کی طاقتیں تما تر قوت کے باوجود لرزاں ہیں بلکہ افغانستان میں دولت اسلامیہ کی غیر اعلانیہ مدد کر رہی ہیں ، افغانستان میں خانہ جنگی کو فروغ دینے کیلئے امارات اسلامیہ و دولت اسلامیہ کے درمیان خانہ جنگیوں میں مغرب ایک بار پھر اپنی دوغلی پالیسی کو اپنائے ہوئے ہے ، لیکن گھو م گھام کے پھر یہی سوال سامنے آجاتا ہے کہ روس جب افغانستان میں آیا تو امریکہ نے اس کی بربادی کیلئے مسلمانوں اور خاص کر پاکستان کو اپنا حلیف بنا کر امریکی مجاہدین تخلیق کئے ، لیکن اب شام میں روس مسلسل مداخلت کر رہا ہے تو اس پر اس کی خاموشی معنی خیز نہیں ہے۔روس شام کے صوبوں بما، حمص اور ادلب میں دولت اسلامیہ کے 53سے زئد ٹھکانوں پر حملے کرچکا ہے۔ جبکہ سب سے بڑا المیہ ہے صدر بشار الاسد اپنے اقتدار کو دوائم بخشنے کیلئے ڈھائی لاکھ افراد کی جان لے چکا ہے۔

یوکرائن کے بحران کے بعد روس اور مغربی ممالک میں تعلقات تیزی سے خراب ہوئے اور روسی صدر پیوٹن ایک ولن کے طور پر سامنے آیا لیکن روس ان سب سے بے پروہ امریکہ کے کمزور ریاستی ڈھانچے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شام میں مسلسل مداخلت کر رہا ہے اور بشار الاسد کی ریاستی ڈھانچے کی بتدریج شکست و ریخت اور بڑھتی مذہبی پرستی کو سہارا دینے کیلئے تمام عالمی قوانین کو پیروں تلے روند رہا ہے۔امریکہ پراکسی وار کا موجدبن کر اب اپنے منصوبوں کی ناکامی کی جانب گامزن ہے۔امریکہ نے کروڑوں ڈالر مالیت کے ترقی یافتہ فوج کا دستہ جب شام بھیجا تو ترکی کے حمایت یافتہ گروپ جبۃ النصرہ کے حملے کا نشانہ بن گیا اور امریکہ کا مقر کردہ کمانڈر اپنی تمام فورس و ساز سامان کے ساتھ جبۃ النصرہ مل گیا اور امریکہ کو شام کے خلاف لڑنے پر تنقید کا نشانہ بنانا شروع کردیا لیکن اس کے بعد امریکہ عراق ، افغانستان ، کی طرح شام پر حملہ آور نہیں ہوا بلکہ صرف بڑھکیں ہی مارتا رہا اور شام کے جابر حکمران بشار الاسد کی کمزور ریاست کو سہارا دینے والے روس کے آگے سہم گیا۔روس کے لئے دولت اسلامیہ بھی خود مسئلہ بنی ہوئی ہے روس میں قفقاذ کے چار علاقے داغستان ، چیچینا ، انگشتیا اور کابر دینو بلکاریا میں بنیاد پرست گروپ دولت اسلامیہ کی جانب راغب ہو رہے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ بشا ر الاسد کے استعفی پر نظر ثانی و عبوری حکومت میں بشار الاسد کے لئے گنجائش کیلئے مغرب میں نرم گوشہ پیدا ہورہاہے ۔بعض ذرائع یہ بھی سمجھتے ہیں کہ فرانس حملوں کا ڈر مغرب میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس لئے پیدا کیا گیا تاکہ مسلمان ممالک میں بغیر جنگ کئے مغرب داخل ہوجائے اور یورپ کے کمزور ممالک بھی مغرب کے طاقتور ممالک کے آگے سرنگوں ہوجائیں ، کیونکہ محبت و جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔روس ہاری ہوئی جنگ میں کیوں شریک ہوا اس کے ایک وجہ اور بھی بیان کی جاتی ہے کہ روس 85ارب سالانہ ڈالر کی اسلحہ منڈی میں اپنا پانچ فیصد حصہ بھی حاصل نہیں کرپارہا ۔ روس نے جون میں دوسری عالمی جنگ کی تقریبات کے موقع پر کو بینکا نامی شہر میں جدید جنگی ساز و سامان کی نمائش کا مظاہرہ کیا روس کے دار الحکومت ماسکو کے مضافاتی شہر میں منعقد ہونے والی اس بڑی عسکری نمائش میں سب کچھ رکھا گیا لیکن خریدار استعداد کار کے حوالے سے شکوک و شبہات کے سبب تامل برتتے رہے۔ اس لئے روس نے شام کی ہاری جنگ میں اپنے اسلحے کے ساتھ حصہ لیا کہ کامیابی کی صورت میں عالمی منڈی میں اس کے اسلحے کی مانگ و اعتبار میں اضافہ ہوجائے گا اور بہت سے گاہک بھی مل جائیں گے۔ یہی وجہ بتائی جاتی ہے کہ روس شام کیلئے ہر قسم کا اسلحہ استعمال کر رہا ہے اقوام متحدہ اس کیلئے موثر کاروائی کرنا بھی چاہے تو وہٹو پاور کے آمرانہ ووٹ کی وجہ سے کامیابی نہیں مل سکتی شتر بے مہار روس شام میں ، افغانستان کی طرح جا گھسا ہے۔ شامی مزاحمت کاروں نے روسی اسلحے کو بد ترین شکست دے دی کہ روس کے پالیسی ساز یہ سوچنے پر پھر مجبور ہیں کہ افغانستان کی طرح یہاں بھی ان کا بُرا حشر ہوا اور روسی طاقت کے بخرے ہوئے اگر شام میں ناکام ہوگئے تو باقی ماندہ طاقت کا بھی شیرازہ بکھرنہ جائے ۔یہی وجہ ہے کہ ترکی روس کو چیلنج دے چکا ہے کہ اپنی حد میں رہے ، روسی جنگی جہاز کا گرانا روس کی طاقت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔شام میں روس کی مداخلت سے پیشتر ایران کی پاسداران انقلاب اور لبنانی مسلح شیعہ تنظیم حزب اﷲ کی زمینی امداد بشار الاسد کو کوئی فائدہ نہیں دے رہی تھی اور بشار الاسد کا بت صدام حسین کی طرح گرنے والا تھا لیکن ایسے میں روس جنگ میں شریک ہوا لیکن فالج زدہ اقوام متحدہ کچھ نہیں کرسکی اور شام کا پر امن حل نہیں نکال سکی ۔آخر میں ایک سوال یہی اٹھتا ہے کہ مسلمان کہلانے والی مملکتیں اﷲ تعالی کو کیا جواب دیں گی جو بشار کی جابر حکومت کے سامنے گنگ ہیں توکیا جو ظلم مسلم امہ پر ہو رہا ہے اس پر ان کی گرفت نہیں ہوگی۔

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 666015 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.