الف. سے اسلامی ٹھیکیدار اور ت.سے تبدیلی والی سرکار)

پشتو زبان میں ایک مثل مشہور ہے کہ" پہ ڈیرو قصابونو کے غوا مردارہ وی" معنی تو اس کے بہت سارے ہیں لیکن لفظی معنی کچھ یوں بنتے ہیں کہ جب ایک گائے کو ذبح کرنے والے بہت سارے قصائی ہونگے تو پھر وہ مردار ہو گی"یعنی ایک قصائی دوسرے کو دیکھتا ہے اور دوسرا تیسرے قصائی کو دیکھتا ہے یوں گائے مر جاتی ہیں اور کوئی اسے ذبح نہیں کرپاتا-یہی مثال اس وقت خیبر پختونخواہ کے شہریوں کی بھی ہیں جو اب یقیناًمردار ہی ہونگے کیونکہ اتحاد کے مزے لینے والے اسلامی ٹھیکیدار اور تبدیلی والی سرکار نے صورتحال بھی ایسی ہی پیدا کردی ہے
پشتو زبان میں ایک مثل مشہور ہے کہ" پہ ڈیرو قصابونو کے غوا مردارہ وی" معنی تو اس کے بہت سارے ہیں لیکن لفظی معنی کچھ یوں بنتے ہیں کہ جب ایک گائے کو ذبح کرنے والے بہت سارے قصائی ہونگے تو پھر وہ مردار ہو گی"یعنی ایک قصائی دوسرے کو دیکھتا ہے اور دوسرا تیسرے قصائی کو دیکھتا ہے یوں گائے مر جاتی ہیں اور کوئی اسے ذبح نہیں کرپاتا-یہی مثال اس وقت خیبر پختونخواہ کے شہریوں کی بھی ہیں جو اب یقیناًمردار ہی ہونگے کیونکہ اتحاد کے مزے لینے والے اسلامی ٹھیکیدار اور تبدیلی والی سرکار نے صورتحال بھی ایسی ہی پیدا کردی ہے - تبدیلی والی سرکار کچھ اور کہتی ہیں انکی ترجیحات کچھ اور ہیں جبکہ اسلام کے نام پر ٹھیکیداری کرنے والوں کے کچھ اور ہیں-سیاست جو حقیقت میں مفادات لینے اور دینے کا نام ہے اسی سیاست میں خیبر پختونخواہ کے عوام مارے جارہے ہیں-کیونکہ دونوں پارٹیاں اپنے مفادات کے چکر میں لگی ہوئی ہیں-
کچھ عرصہ سے خیبر پختونخواہ میں ہیپاٹائٹس سی کے مرض میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس میں ایک بڑی وجہ پینے کے مضر صحت پانی کا بڑھتا ہوا استعمال ہے کوئی بھی شخص جان بوجھ کر گندا پانی استعمال نہیں کرتا لیکن جب شہر کے بیشتر علاقوں میں پینے کا پانی سپلائی کرنے والے پائپ ہی زنگ آلود اور پھٹے پرانے ہوں اور اس میں گٹروں کا پانی بھی شامل ہورہا ہو اور سارے گھروں میں پانی وہی آرہا ہو ایسے میں خوش قسمت ہی ہونگے جو اس موذی مرض سے بچے ہونگے-یہی صورتحال اندرون شہر سمیت شہر کے گرد و نواح کے علاقوں کی بھی ہیں - تقریبا یہی صورتحال اس وقت پشاور کے ستر فیصد شہریوں کی ہیں جو زہر آلود اور گندا پانی پی رہے ہیں- گندگی‘ غلاظت اور زہر سے بھرے ان پائپوں کو تبدیل کرنے کیلئے یو ایس ایڈ نے باقاعدہ فنڈز فراہم کردیا ہے تاکہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم ہو جائے لیکن حال یہ ہے کہ بتانے کی ہمت نہیں ہورہی ‘ ٹی وی کے سکرینوں ‘ فیس بک اور اخبارات میں تبدیلی کے خبریں او رنعریں لگانے والوں کو یہ نظر نہیں آرہا -لفظی طورپر دعوے تو بہت کئے جارہے ہیں کہ ہم نے ضلعی حکومتوں کو حق دیدیا ہے لیکن صورتحال کچھ یوں ہے کہ جہاں پر تبدیلی والی سرکار اور اسلامی ٹھیکیداروں کے نمائندے یونین کونسل کی سطح پر منتخب ہوگئے ہیں ان کے مابین آپس میں اتنی چپقلش ہیں کہ ایک دوسرے کو کام کرنے ہی نہیں دے رہے تبدیلی والی سرکار پائپ فراہم کرتی ہیں تو پھر اسلامی ٹھیکیدار روڑے اٹکاتی ہیں تاکہ دوسری پارٹی بدنام ہو اور ان کی واہ واہ ہوجائے - بعض علاقوں میں اسلام کے نام پر ٹھیکیداری کرنے والوں نے اپنے ہی ٹھیکیداروں کو مختلف جگہوں کی تعمیرات کے ٹھیکے دئیے ہیں اور حال یہ ہے کہ مختلف علاقوں میں کام تو شروع کردئیے گئے ہیں لیکن چھ چھ ماہ گزر چکے ہیں لیکن مکمل نہیں ہوپارہے-ابتداء میں لوگوں نے بڑی دعوے اور واہ واہ کئے ہیں واہ واہ کے اس چکر میں ان دو پارٹیوں کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن عوام کا بیڑہ غرق ہورہا ہے- بعض یونین کونسلوں میں تبدیلی والی سرکار کے چیئرمین پائپوں کی تنصیب میں باقاعدہ بھتہ مانگتے ہیں کہ پیسے دو گے تب پائپ لگے گا ورنہ جاؤ بھاڑ میں ‘ -

بلدیاتی انتخابات کے موقع پر مسلط ہونیوالی تبدیلی والی سرکار نے یہ شوشہ چھوڑ دیا تھا کہ یونین کونسل کی سطح پر چیئرمین کو تنخواہ ملے گی اور باقاعدہ اسے دفتر بھی دیا جائیگا کچھ علاقوں میں گلیوں میں آوارہ گردی کرنے والے اسی چکر میں کہ چلو بیٹھنے کیلئے دفتر بھی مل جائیگا اور تنخواہ بھی ملتی رہیگی نے الیکشن لڑا اور منتخب بھی ہوگئے اب وہ بھی " آنجناب ممبران صاحبان"ہوگئے ہیں صوبائی حکومت نے ضلعی ناظمین کیلئے فنڈز بھی مختص کردئیے ہیں لیکن حال یہ ہے کہ ضلعی حکومتوں کے زیر انتظام ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز کم رکھے گئے ہیں جبکہ ممبران صاحبان کیلئے فنڈز زیادہ رکھے گئے ہیں تاہم اب یونین کونسل کی سطح پر منتخب ہونیوالے افراد بھی اپنے لئے تنخواہوں اور دفاتر کا مطالبہ کررہے ہیں -تبدیلی والی سرکار اور اسلام کے ٹھیکیداروں کے کچھ ممبران کو یقین دہانی تو کرادی گئی ہیں کہ "تم لوگوں کیلئے بھی شوڑا ہے" اس لئے بعض نے فنڈز کے اجراء سے قبل ہی اپنے لئے دفتر کھول دئیے ہیں جہاں پر اور کچھ ہو نہ ہو لیکن ت سے تبدیلی اور بعض کے دفاتر سے الف سے امیر کی آوازیں ہر وقت آتی رہتی ہیں-

صوبے کے بیشتر پہاڑی علاقے بشمول ملاکنڈ اور چترال میں زلزلہ زدگان نومبر کی اس سخت سردی میں ابتر صورتحال کا شکار ہیں-زلزلے کے فوری بعد اسلامی ٹھیکیداروں اور تبدیلی والی سرکار کے اہم ارکان نے مختلف علاقوں کے طوفانی دورے کئے اور اپنی طوفانی تصاویر بھی جاری کردی ہیں کہ "ہم یہ کرینگے وہ کرینگے" لیکن یہ کرینگے وہ کرینگے والے بھی ایک دورے کے بعد سخت سردی میں زندگی گزارنے والے معصوم بچوں ‘ خواتین کو بھول گے کیونکہ ان رہنماؤں کی کچھ تصاویر تو لگ چکی ہیں جس میں انہوں نے کیمروں کی آنکھ سے محفوظ ہوتی ہوئی تصاویر میں چار کلوچاؤل ‘ ایک کلو چائے ‘ ایک تھیلے کا آٹا اور خیمہ دئیے تھے اور یہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ ان کی ڈیوٹی ختم ہوگئی ہیں-جبکہ بعض لیڈروں نے چترال میں جا کر رشتے بھی کر لئے-لیکن سخت سردی میں زندگی گزارنے والے معصوم بچے جو کہ شانگلہ ‘ مدین ‘ بحرین‘ سوات اور چترال میں آج بھی اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کوئی اللہ کا بندہ آکر ان کی مدد کریگا-

کچھ عرصہ سے تبدیلی والی سرکار کے اسلام کے ٹھیکیداروں سے کشیدگی کا عالم یہ تھاکہ ایک صاحب کئی مرتبہ یہ کہتے ہوئے دکھائی دئیے کہ جلد ہی ہم کوچ کرجائیں گے اس صورتحال پر قابو پانے کیلئے تبدیلی والی سرکار نے کچھ مہرے آگے پیچھے کرتے ہوئے اپنا تھوکا ہوا بھی واپس چاٹ لیا کچھ عرصہ قبل کرپشن کے الزام میں برطرف کئے جانیوالے افراد کی پارٹی کو ایک مرتبہ پھرخیبر پختونخواہ میں حکومتیں سیٹیں فراہم کرے ہوئے اتحادی بنا دیا تاکہ ایک طرف اسلامی ٹھیکیداروں کی بدمعاشی کا بھی خاتمہ ہو اور دوسری طرف پرانی یاری دوستی بھی برقرار رہے- اسی عمل کے نتیجے میں صورتحال کچھ یو ں بن گئی ہیں کہ اب اسلامی ٹھیکیداروں کے غبارے سے ہوا بھی نکل گئی ہیں کیونکہ گذشتہ کل کو جن لوگوں کو نکالا گیا تھا ایک مرتبہ پھر اتحادی بن گئے ہیں تو دوسری طرف تبدیلی والی سرکار نے کمال سیاست کرتے ہوئے پارٹی سے آنیوالے ممبران کو صرف نام کی وزارت فراہم کردی ہیں اختیارات نام کی کوئی چیز انہیں دی گئی اسی باعث اب نئے اتحادی پارٹی بھی اندرونی طور پر خلفشار کا شکار ہیں کہ اس سے تو بہتر تھا کہ حکومت سے باہر ہی رہتے صرف یہ الزام تھا کہ کرپشن کی ہیں لیکن اب تو حکومت میں رہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتے-واقفان حال کا کہنا ہے کہ نئے اتحادی کو بتا دیا گیا ہے کہ "ہم خود بھی بنی گالہ" سے حکم کے غلام ہیں اس لئے ہمارے طرح گزارہ کرو-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 590 Articles with 421831 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More