الحمرا ادبی بیٹھک۔ڈاکٹر تقی عابدی کی زبانی فیض احمد فیضؒ کی یادیں

 لاہور میں نومبر کے مہنے میں موسم کی خوبصورتی کو کمال عروج تک پہنچائے میں لاہور کی ثقافتی سرگرمیاں اپنی مثال آپ ہوتی ہیں۔ داتا علی ہجویریؒ کی نگری میں عجیب سکوں اور مٹھاس کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں شاعر حریت جناب فیض احمد کی یاد میں بہت ہی اعلیٰ پروگراموں کا انعقاد سرزمین لاہور کے لیے اعزاز ہے اور بجا طور پر سر زمین لاہور اِس لائق ہے کہ اِس سرزمین پہ اتنے بڑئے لوگوں کی محبتوں ہمتوں کے ذکر سے نئی نسل کو رشناس کروایا جائے۔ ادبی محافل میں زیادہ تو جانے کا اتفاق نہیں ہوتا بس کبھی کبھار موقعہ مل جاتا ہے ۔ فیض احمد فیضؒ سے میرا لگاؤ زمانہ طالبعلمی سے ہی ہے یوں آج میں اپنے بیٹے حذیفہ کے ساتھ فیض ؒ کی یاد مین ہونے والے پروگرام میں شریک تھا۔اور یقینی طور پر اِس طرح کے پروگرام ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوتے ہیں۔نامور صحافی، شاعرجناب فیض احمد فیضؒ کے حوالے سے ایک خصوصی لیکچر کاہتمام ادبی بیٹھک الحمرا مال روڈ لاہور میں کیا گیا ۔ ڈکٹر تقی عابدی امریکہ سے خاص طور پر لیکچر کے لیے تشریف لائے اور اصغر ندیم سید نے بطور میزبان اِس پروگرام میں شرکت کی ۔ مجھے بھی اِس لیکچر کو سُننے کا موقع ملا اور فیض شناسی کے حوالے سے جناب ڈاکٹر تقی عابدی نے نہایت پُر اثر گفتگو کی۔ڈاکٹر تقی عابدی پیشے ے لیے ہارٹ کے ڈاکٹر ہیں لیکن فیض شناسی کے حوالے سے اُن کا ریسرچ سے بھر پور لیکچر سُن کر اُن پہ رشک آیا۔ڈاکٹر تقی عابدی خود تو چالیس سال سے زائد عرصہ سے امریکی میں مقیم ہیں لیکن جس انداز میں اُنھوں نے جناب فیض احمد فیضؒ کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا اُس سے اُن کی اردو دوستی پہ ناز کیا جاسکتا ہے۔ اُن سے گفتگو کے دوران جب سوال و جواب کی نشست میں یہ سوال پوچھا گیا کہ آپ میڈیکل ڈاکٹر ہوتے ہوئے شعر وسخن میں اتنی دلچسپی کی کوئی خاص وجہ رکھتے ہیں تو اُنھوں نے کہا کہ فیض صاحب ؒاتنے بڑئے آدمی ہونے کے باوجود جتنی وہ عاجزی رکھتے تھے اِس بات نے اُن کو فیضؒ صاحب کا گرویدہ کیا۔ اِس موقع پر امجد اسلام امجد اور فیض صاحبؒ کے نواسے اور اصغر ندیم سید اور ڈاکٹر تقی عابدی سے بات کرنے کا موقع ملا۔ اﷲ پاک اِن انسان دوست ہستیوں کو سدا ہنسا مسکراتا رکھے جو موجودہ دورمیں امن کا پرچار کر رہے ہیں۔اِسی لیکچر میں جب یہ گفتگو ہوئی کہ جناب فیض احمد نے اپنی وفات سے چار ہفتے قبل اپنی بیٹی کو خط لکھا کہ وہ اپنے گھر جارہے ہیں بڑی معنی خیز بات تھی اور چارہفتے بعد اپنے ملک میں آکر اﷲ کو پیار ئے ہو گئے۔لیکچر کے دوران یہ بھی تذکرہ کیا گیا کہ فیض احمد فیض نے جیل میں قید کے دوران اپنے گھر والوں کو جو خط لکھا اُس میں درداں دی ماری دا دل علیل ائے صوفیانہ پنجابی کلام لکھ بھیجا۔ فیضؒ کو صوفیانہ شاعری سے خاص لگاؤ تھا بابا بلھے شاہؒ غلام فریدؒ اور شاہ حسینؒ کے وہ بہت پرستار تھے۔فیض ؒصاحب کی حریت پسندی کا عالم دیکھیں کہ یاسر عرفات ؒمرحوم نے جو رسالہ شائع کیا تو فیضؒ اُس کے تین سال سے زائد عرصہ تک مدیر رہے۔اِس بات کا بھی تزکرہ ہوا کہ فیضؒ کی پہلی برسی پر یاسر عرفاتؒ نے جو پیغام دیا وہ یہ تھا کہ فیض ؒ نے اپنی زندگی میں جوکردار ادا کیا ہے وہ شھید تھے۔ فیضؒ کی شاعری کی حریت اور باغیانہ پن نے ایک نسل کو متاثر کیا۔9 مارچ 1951ء میں آپ کو راولپنڈی سازش کیس میں معا ونت کے الزام میں حکومت وقت نے گرفتارکر لیا۔ آپ نے چار سال سرگودھا، ساہیوال، حیدر آباد اور کراچی کی جیل میں گزارے۔ آپ کو 2 اپریل 1955 کو رہا کردیا گیا۔ زنداں نامہ کی بیشتر نظمیں اسی عرصہ میں لکھی گئیں۔ فیض ؒکی کتب نقش فریادی ۔دست صبا۔زنداں نامہ۔دست تہ سنگ۔سر وادی سینا۔شام شہر یاراں۔مرے دل مرے مسافر۔نسخہ ہائے وفا (کلیات) ہیں۔فیض احمد فیضؒ نے جس انداز میں اپنی زندگی کا سفر جاری رکھا اُس حوالے سے ایک بات ببانگ دہل کی جاسکتی ہے کہ نام نہاد اشرافیہ جو سٹیٹس کو کی علمبردار ہے اُس کے خلاف جہاد کیا اور مظلوم کی زبان بنے۔ اقبالؒ اور فیض احمد فیضؒ ایک ہی شہر کے سپوت تھے دونوں عظیم انسانوں کی شاعری ہر دور کے ہر یزید کے خلاف علم بغاوت سربلند کیا ہوا ہے۔پاکستانی معاشرئے میں مارشل لاء جس تواتر کے ساتھ رہے اُس نے معاشرئے میں گھٹن کی انتہا کیے رکھے۔ اِن حالات میں فیض صاحبؒ کی جدو جہد حسینیت کا درس دیتی ہے۔جس طرح پیر کی اولاد اُس سے فیض یاب نہیں ہوپاتی شاید ہم بھی اقبالؒ اور فیضؒ سے استفادہ نہیں کرپارہے۔

MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 384247 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More