ماہ ربیع الاول کے آتے ہی جہاں میں تازگی آجاتی ہے

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے نبی آخرالزماںؐ کی ولادت کا مہینہ ماہ ربیع الاول کا چاند نویدِ مسرت اور پیامِِ محبت بن کر چمکتا ہے۔ اس کے طلوع ہوتے ہی اہل ایمان کے قلوب و اذہان فرحت و انبساط سے معمور اور جوشِ محبت سے بھر پور ہو جاتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی وہ ماہِ ذی شان ہے جس کی مبارک ساعتوں کو جانِ ایمان، قرار دل و جان محبوبِ ربّ دو جہاں حضرت محمدؐ کے ورودِ مسعود کیلئے منتخب کیا گیا :
جس سہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند
اس دل افروز ساعت پہ لاکھوں سلام

ماہِ ربیع الاول کے ایام میں اہلِ اسلام کے خواص و عوام کا صدیوں سے معمول ہے کہ وہ محافل میلاد کا اہتمام کرتے ہیں، کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے ہیں اور ہر جائز طریقے سے خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہیں تاکہ اللہ تعالیٰ کی اس نعمتِ عظمیٰ کا پرچار کریں اور رحمت عمیم و فضلِ عظیم پر مسرت و خوشی کا اظہار کریں جو اس نے حضور نبی اکرمؐ کی شکل میں اہل ایمان کو دی ہے-

مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شیطان کے پیروکار، بعض دنیا دار نیکی کے مواقع پر بھی بدی کے پہلو نکالتے ہیں۔ بدقسمتی سے اطوارِ زمانہ کے ساتھ ساتھ محافل میلاد بھی ایسی خرافات کا شکار ہوتی نظر آ رہی ہیں اور ایسے مشاغل و معمولات کو فروغ مل رہا ہے جو جشن میلاد کے تقدس کے منافی اور شریعت مطہرہ کی روح سے متصادم ہیں۔ مثلاً بعض علاقوں میں جلوس میلاد میں غیر شرعی و غیر اخلاقی حرکات ڈھول، باجے، دھمال، لُڈی جیسے قبیح افعال رواج پکڑ رہے ہیں جس سے ان جلوسوں کا تقدس مجروح ہو رہا ہے۔

’’بعض غیر معتدل لوگ ہر نیک اور اچھے کام میں ہوا و ہوس کے تقاضے سے بُرائی کے راستے نکال لیتے ہیں اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض شہروں میں عید میلاد کے جلوس کے تقدس کو بالکل پامال کر دیا گیا۔ جلوس تنگ راستے سے گزرتا ہے اور مکانوں کی کھڑکیاں اور بالکونیوں سے نوجوان لڑکیاں اور عورتیں شرکاء جلوس پر پھول وغیرہ پھینکتی ہیں۔ اوباش نوجوان فحش حرکتیں کرتے ہیں۔ جلوس میں مختلف گاڑیوں پر فلمی گانوں کی ریکارڈنگ ہوتی ہے اور نوجوان لڑکے فلمی گانوں کی دُھن پر ناچتے ہیں اور نماز کے اوقات میں جلوس چلتا رہتا ہے۔ مساجد کے آگے سے گزرتا ہے لیکن نماز کا کوئی احترام نہیں ہوتا۔

محافل میلاد سے متعلقہ چند اہم مسائل ۔ فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں:

٭۔ محافل میلاد اور جلوس میلاد وغیرہ میں ڈھول باجے وغیرہ لے جانا جائز نہیں اور جن محافل میں ایسے آلات لہو و لعب کا استعمال ہو، ان میں جانا جائز نہیں، خواہ انہیں محافل میلاد (عرس، گیارہویں وغیرہ) کا نام ہی کیوں نہ دیا جاتا ہو۔

٭۔ جس شخص کی نسبت معروف و مشہور ہو کہ معاذ اللہ وہ حرام کار ہے اس سے میلاد شریف پڑھوانا، اسے سٹیج پر بٹھانا منع ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ شہرت صحیح ہو، جھوٹی بے معنیٰ تہمت نہ ہو کیونکہ آج کل اکثر ناخدا ترس محض جھوٹے وہم کی وجہ سے مسلمان پر تہمت لگا دیتے ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 23 صفحہ 737)

خواتین کی محافل میلاد:

عورتوں کی محافل میلاد میں شرکت دو طر ح کی ہوتی ہے، ایک یہ کہ ایک ہی محفل میلاد میں خواتین کیلئے پردے کا علیحدہ انتظام ہوتا ہے ایسی محافل درحقیقت مردوں ہی کے لئے ہوتی ہیں تاہم پردے کا اہتمام کر کے عورتوں کو بھی شرکت کا موقع دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلویؒ سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا توآپ نے جواباً ارشاد فرمایا:

1۔ واعظ یا میلاد خوان اگر عالم سُنی صحیح العقیدہ ہو 2۔ اس کا وعظ و بیان صحیح و مطابق شرع ہو 3۔ جانے میں پوری احتیاط اور کامل پردہ ہو 4۔ کوئی احتمال فتنہ نہ ہو 5۔ مجلس رجال سے ان کی نشست دور ہو تو حرج نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 239)

یعنی ایسی محافل میلاد میں شرکت کیلئے مذکورہ بالا شرائط کا پایا جانا ضروری ہے ورنہ عوتوں کو ایسی محافل میں جانے کی اجازت نہیں۔ جہاں اختلاطِ مرد و زن اور بے پردگی کا اندیشہ ہو، خواہ وہ محافل میلاد ہو یا اس قسم کی دیگر محافل عرس و گیارہویں شریف۔

امام احمد رضا خاں قادری فاضل بریلویؒ سے سوال کیا گیا کہ چند عورتیں ایک ساتھ مل کر گھر میں میلاد شریف پڑھتی ہیں اور آواز باہر سُنائی دیتی ہے یہ جائز ہے یا نہیں؟ آپ نے جواب میں لکھا کہ ناجائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے۔ عورت کی خوش الحانی کو اجنبی سے محل فتنہ ہے۔ (فتاویٰ رضویہ)

ایسے ہی ایک اور سوال کے جواب میں آپ نے ارشاد فرمایا: ’’عورتوں کا اس طرح (مولود شریف) پڑھنا کہ ان کی آواز نامحرم سُنیں، باعثِ ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے۔‘‘

کیسی محافل میلاد میں شرکت کی جائے؟ :

محفل میلاد اگرچہ عظیم ترین مستحبات میں سے ہے مگر دیگر مجالس کی طرح محافل میلاد میں شرکت تب ہی جائز ہے جب اس میں خلافِ شرع امور کا ارتکاب نہ ہو اگر وہ شرعی منہیات اور ناپسندیدہ بدعات سے پاک نہ ہو تو اس میں شرکت نہیں کرنی چاہیے۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ ’’کسی خلافِ شرع مجلس میں شرکت جائز نہیں۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 133)

اور جب مجلس میلاد منکراتِ شرعیہ سے خالی ہو تو اس میں شرکت کرنا عظیم سعادت ہے۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے : ’’ مجلس میلاد مبارک اعظم مندوبات سے ہے جبکہ بروجہ صحیح ہو۔‘‘ (جلد 23 صفحہ 560)

اگر محافل میلاد منکرات شرعیہ سے پاک ہوں اور ان میں آداب کا لحاظ رکھا گیا ہو تو ایسی محافل موجب برکت اور ان میں شرکت ذریعہ سعادت ہے اور اگر ان میں امور مکروھہ کا ارتکاب ہو تو وہ موجب خسران اور ان میں شرکت باعث ہلاکت ہوتی ہے۔ مولوی عبدالحئی نے کتاب النصیحہ سے نقل کیا ہے کہ ایک نعت خوان حقہ پیتا تھا اُس نے خواب میں دیکھا کہ رسول اللہؐ فرماتے ہیں جب تم میلاد شریف پڑھتے ہو تو ہم مجلس میں رونق افروز ہوتے ہیں مگر جب حقہ آتا ہے تو ہم فوراً مجلس سے چلے جاتے ہیں۔ (بحوالہ جشن میلاد اور اسلام صفحہ 111)

اور اس موقع (میلاد النبیؐ) پر ایسی محافل کے انعقاد کو فروغ دیں جن میں آداب کو لحاظ رکھا گیا ہو اور وہ ہر قسم کی منکرات شرعیہ، خرافات واہیہ سے پاک ہوں۔ صرف اسی صورت میں ان محافل کو عوام الناس کیلئے مفید سے مفید تر بنایا جا سکتا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ رضویہ میں ہے کہ ’’اگر کوئی مجلس فی نفسہٖ منکرات شرعیہ پر مشتمل نہ ہو اور نہ ہی اس میں وہ افعال کیے جائیں جو مقاصد کے مختلف ہونے یا حالات کے بدلنے سے حسن و قبیح میں مختلف ہو جائیں مثلاً سماعِ مجروہ (بغیر مزامیر کے قوالی) اور نہ ہی ایسی باتیں ہوں جو دقت اور گہرائی کی وجہ سے ناقص فہم لوگوں کیلئے فتنہ کا باعث بنیں جیسے وحدت الوجود کے دقیق مسائل اور تصوف کے مشکل دقائق یعنی وہ مجلس خال اور مال ہر لحاظ سے تمام تر منکرات اور فتنوں سے خالی ہو تو اس میں عموم اذن (اجازت عام ہونا) اور شمول دعوت (دعوت میں شامل ہونا) میں حرج نہیں بلکہ مجلس وعظ و پند میں شرعی حدود کی پابندی جس قدر عام (اور زیادہ ہو گی) اسی قدریہ مجلس نفع کے لحاظ سے تام (کامل اور مفید تر) ہو گی۔‘‘ (فتاویٰ رضویہ جلد 24 صفحہ 147-148)

المختصر علماء اسلام پر لازم ہے کہ وہ لوگوں کو اس مجلس میں درپیش آنے والے تمام قبائح و منکرات سے آگاہ کریں اور جہاں خلافِ شرع امور کا ارتکاب ہو وہاں جانے سے روکیں۔
Aqeela Farnaz Khan
About the Author: Aqeela Farnaz Khan Read More Articles by Aqeela Farnaz Khan: 4 Articles with 3208 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.