سرکارِ دو عالم ؐ کی سیرت پر اجمالی نظر

’’حضرت واثلتہ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد اسمعیل میں سے کنانہ کو منتخب فرمایا اور کنانہ میں سے قریش کو منتخب فرمایا اور قریش میں سے بنو ہاشم کو منتخب فرمایا اور بنو ہاشم میں سے مجھے منتخب فرمایا‘‘ (رواہ مسلم)

آپؐ شہر مکہ میں سردار قریش حضرت عبد المطلب کے گھر پیدا ہوئے آپؐ کے والد ماجد کا نام نامی عبد اللہ اور والدہ محترمہ کا اسم گرامی آمنہ تھا۔

آپؐ کی ولادت سراپا بشارت ربیع الاول کے مہینہ میں دو شنبہ کے دن صبح صادق کے وقت آٹھویں یا نویں تاریخ کو ہوئی، انگریزی تاریخ ۰۲ اپریل ۱۷۵ء بیان کی گئی ہے اس وقت ایران میں نوشیروان عادل کی حکومت تھی۔

آپؐ کی ولادت بابرکت کے وقت بہت سے عجائب قدرت کا ایسا ظہور ہوا کہ کبھی دنیا میں وہ باتیں نہیں ہوئیں، بے زبان جانوروں نے انسانی زبان میں آپ کی خوشخبری سنائی، درختوں سے آوازیں آئیں، بت پرستوں نے بتوں سے آپؐ کی خوشخبری سنی، دنیا کے دونوں بڑے بادشاہوں یعنی شاہ فارس اور شاہِ رُوم کو بذریعہ خواب آپؐ کی عظمت و رفعت سے آگاہی دی گئی اور یہ بھی ان کو بتایا گیا کہ آپؐ کی سطوت و جبروت کے سامنے نہ صرف کسریٰ و قیصر بلکہ ساری دنیا کی شوکتیں سرنگوں ہو جائیں گی۔

آپؐ شکم مادر میں تھے کہ والد ماجد کا انتقال ہو گیا اور چار برس کی عمر میں مادرِ مہربان کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔

بچپن میں عجیب و غریب حالات مشاہدے میں آئے، ایک بڑا حصہ آپؐ کی کم سنی کے حالات کا حضرت حلیمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے، حق یہ ہے کہ بڑی خوش نصیب تھیں۔ بت پرستی اور بے حیائی کے کاموں سے آپؐ ہمیشہ پرہیز کرتے رہے، آپؐ کی صداقت اور امانت قبل از نبوت بھی تمام مکہ میں مشہور اور مسلم الکل تھی حتیٰ کہ آپؐ کا لقب صادق اور امین زبان زد خلائق تھا۔

جب آپؐ کی عمر گرامی پچیس سال کی ہوئی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ آپؐ کا نکاح ہوا جو خاندانِ قریش میں ایک بڑی دانشمند اور دولت مند خاتون تھیں، نکاح کے وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر چالیس سال تھی۔

جب آپ کی عمر شریف چالیس سال کی ہوئی تو دو شنبہ کے دن ۷۱ رمضان کو اور ایک قول کے مطابق ۴۲ رمضان کو جب کہ خسرو پرویز بادشاہ ایران کے جلوس کا بیسواں سال تھا، وہ دولت عظمیٰ آپؐ کو عطا ہوئی جو روزِ ازل سے آپؐ کے لیے نامزد ہو چکی تھی جس کی دعا حضرت خلیل علیہ السلام نے مانگی جس کی بشارت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی یعنی حق تعالیٰ نے آپؐ کو اپنا رسول بنایا اور سارے عالم کی طرف مبعوث کیا۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔

نبوت کے بعد تیرہ برس آپؐ کا قیام مکہ معظمہ میں رہا پھر ہجرت کر کے آپؐ مدینہ منورہ تشریف لائے، دس برس مدینہ میں قیام رہا، اس دس سال کے عرصہ میں انیس لڑائیاں بھی آپ کو کافروں سے لڑنی پڑیں۔

بکثرت معجزات و خوارق عادات کا آپؐ سے ظہور ہوا۔ سب سے بڑا معجزہ آپؐ کا قرآن شریف ہے جس میں فصاحت و بلاغت کا اعجاز بھی ہے اور اخبارِ غیب کا بھی اور قوتِ تاثیر و سرعت تاثیر بھی۔

نبوت کے بارہویں سال جب کہ عمر شریف اکیاون سال نو ماہ کی تھی، حق تعالیٰ نے آپؐ کو معراج عطا فرمائی، یعنی آپؐ کو آسمانوں پر بلایا گیا، جنت و دوزخ کی سیر آپؐ کو کرائی گئی اور عالم ملکوت کے عجائب اور اللہ تعالیٰ کی آیاتِ کبریٰ کا مشاہدہ آپؐ کو کرایا گیا۔ آپؐ جب عمر شریف تریسٹھ برس کی ہوئی اور ہجرت کا گیارہواں سال شروع ہوا تو بارہویں ربیع الاول کو دو شنبہ کے دن بوقت چاشت چودہ دن بیمار رہ کر اس عالم سے رحلت فرمائی: انا للہ و انا الیہ راجعون۔ آخری وصیت جو آپؐ نے مسلمانوں کو فرمائی وہ یہ تھی کہ نماز کی حفاظت کرنا اور اپنے لونڈی غلاموں کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرے میں جس جگہ آپؐ کی وفات ہوئی تھی وہیں آپؐ کی قبر شریف بنائی گئی جو زیارت گاہِ عالم ہے۔

Aqeela Farnaz Khan
About the Author: Aqeela Farnaz Khan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.