مصالحتی کمیٹیاں محلہ کمیٹیاں اور کمیٹیاں

گزشتہ روز ایک دوست کے ساتھ ایک میٹنگ میں جانے کا اتفاق ہوا. یہ میٹنگ علاقے کے معززین کی محکمہ پولیس کے افسران کے ساتھ تھی. اور میٹنگ کا بنیادی مقصد گلی محلے کی سطح پر کمیٹیوں کا قیام تھا. اسکی وجہ علاقے میں بڑھتے ہوئے جرائم کی عوام سے مل کر روک تھام تھا. اس متعلقہ تھانے کی حدود میں رہنے والے معززین اور ایس ایچ او اور ڈی ایس پی صاحب کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیوں کی نمائندگی بھی موجود تھی. سب نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا. کسی نے پولیس کی نفری کی کمی کا رونا رویا اور کسی نے پولیس کے عوام کے ساتھ رویہ کی بات کی. کسی نے ان کمیٹیوں کو کاغذی کارروائی قرار دیا اور کسی نے ان اقدامات کی تعریف کی.

اس ساری میٹنگ میں میرے لیے دلچسپی کا محور ڈی ایس پی صاحب کی باتیں تھیں. کہ کمیٹی کا صرف ممبر بننا ہماری کوئی مدد نہیں بلکہ آپ عوام اور ہم مل کر جرائم کا خاتمہ کیسے کریں اس کا حل اور تجویز پیش کریں اور اس پر عمل درآمد یقینی بنانے کیلئے ساتھ دیں اور ان کی اس بات کا جواب کسی کے پاس نہ تھا.

میں اسکے لیے ایک حل تجویز کرتا ہوں کہ علاقے کے عام لوگو کو پولیس اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے آمادہ کرے اس کے لیے لوگو کی تربیت کا اہتمام کیا جائے. سرکاری اور نجی سکول اس میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں وہاں پڑھنے والے طالب علموں کے والدین کی میٹنگ میں پولیس افسران اس کام کی ترغیب دیں. ہر گلی محلے میں ایک یا ایک سے زائد افراد موجود ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد صرف اللہ اللہ کرنے میں مصروف ہیں. ان کو ایسی کمیٹی کا حصہ بنائیں. اچھی شہرت کے حامل یہ لوگ اپنے کردار اور عمل سے عام عوام میں پہلے ہی عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں.ان کی بات کا عام لوگ ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں گے. وہ اپنے گھر کی بیٹھک کو اس مقصد کے لیے استعمال کریں اور بجائے اس کے کہ وہ تھانے جائیں پولیس ان سے علاقے کی ڈائری اگھٹی کرنے کا اہتمام کرنے کے ساتھ ان کا تحفظ بھی کرے.اور یی کام ہر تھانے میں موجود dfcاہلکار کر سکتا ہے. اسکے علاوہ سیکیورٹی برانچ اور سپیشل برانچ سمیت دیگر ایجنسیز معلومات لے سکتی ہیں. کیونکہ جن کمیٹیوں کو میں بنتے دیکھ کر آیا ہوں ان میں شامل لوگ صرف باتیں کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے اور کچھ تو صرف میری طرح اپنی بلے بلے کرانے کے لیے ان کمیٹیوں میں شامل ہو تے ہیں. اگر ان شوقیہ کمیٹی ممبران کی جگہ پڑھے لکھے ریٹائر لوگو کو شامل کریں تو امید ہے کہ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں. موجودہ کمیٹی ممبران کو عام آدمی معلومات فراہم کرنے سے بھی کتراتے ہیں. ضروری نہیں کہ میری اس تجویز پر عمل کرنے سے سارے مسائل حل ہو جائے گے. اس میں بھی بہتری لائی جاسکتی ہے. یہ میری زاتی رائے ہے.
Malik Abdul Saboor
About the Author: Malik Abdul Saboor Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.