خادم حرمین ،فاتح حربین:عظیم آل سعود

سانحہ منیٰ کے بعد جن مخصوص عناصر نے سعودی عرب کے خلاف زہراگلا‘اس سے صاف ظاہر ہورہا تھا کہ ان عناصرکے اصل مذموم عزائم کیاتھے؟ ان کے سامنے سعودی حکمران خاص طورپر شاہ سلمان چٹان بن کرکھڑے ہوگئے ہیں۔ بھلا کوئی سوچ سکتا تھا کہ امریکہ کاصدر اپنے اعلیٰ ترین حکام اور بیوی کے ساتھ سعودی عرب میں آئے اور سعودی عرب کا سربراہ حکومت خود ہی نہیں‘ اپنے سارے ساتھیوں سمیت اذان کی آواز سنتے ہی انہیں یکا و تنہا چھوڑ کر خود نماز ادا کرنے چلاجائے اور امریکی صدر ان کی واپسی تک وہیں انہی قدموں پرکھڑاان کا انتظار کرے۔ ایسے عظیم متقی لوگوں پر سازشیوں نے الزام لگایا کہ حج کے موقع پر سارے حجاج کو ایک طرف روک کر 2سعودی شہزادے طواف کعبہ کر رہے تھے۔یہ جھوٹ بولنے والوں کاپول بھی فوری کھل گیا کیونکہ جھوٹ سامنے آتے ہی ثابت ہوگیا تھا کہ یہ ویڈیو حج کی نہیں بلکہ کئی سال پرانی ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے تو انتہائی پیرانہ سالی اور کمزوریٔ صحت کے باوجود عام عازمین کے ساتھ طواف کرکے ایک نئی مثال قائم کردی تھی۔

سانحہ منیٰ کے بعد سعودی عرب مخالف پروپیگنڈہ مہم کی اصل وجہ سعودی عرب کا ساری دنیاکے مسلمانوں کا ہر میدان میں امام اور قائد بن کر سامنے آناہے۔سعودی عرب نے نام نہاد ’’بہارعرب‘‘ کو جس طرح کچلااوراپنے ساتھ متصل ملک بحرین میں اس وباء کو وہاں کی حکومت کی دعوت پر پہنچ کر جڑسے اکھاڑ پھینکا ‘اس کے زخم مخالفین کو بہت گہرے لگے ۔ انہی عناصرنے حوثی باغیوں کو بھاری اسلحہ اور امداد دے کر ملک پر قبضہ کروایا۔مقصدواضح تھا کہ بحرین کے ساتھ سعودی عرب کے بالکل دوسرے رخ کے محاذپر ایک نیا قضیہ کھڑاکیاجائے جس کے بعد سعودی عرب دونوں طرف سے الجھ کر رہ جائے گا اور یوں حرمین شریفین کی پرامن سر زمین جنگ و فساد کا شکار ہوجائے گی۔ سعودی حکومت نے اس سازش کو بھانپتے ہوئے عرب اتحاد بنایابلکہ ترکی اور ملائیشیا تک کو ساتھ ملایااور پھریمن میں فوجی مہم تیز کردی۔ دنیا ایک عرصہ سے یا وہ گوئی میں مصروف تھی کہ سعودی قوم اورحکمران جنگ لڑنے کے قابل نہیں۔ وہ آرام پرست ہیں، وغیرہ وغیرہ۔لیکن سعودی عرب دنے یمن میں جنگی اتحاد بناکر‘ جنگ لڑکر اورپھر جانیں دے کرثابت کردیا کہ وہ اس میدان کے آج بھی دھنی ہیں۔

سپرپاور امریکہ 14سال پہلے دنیابھرکے اتحادیوں اوربے پناہ اسلحہ وطاقت سمیت آج تک افغانستان میں ناکام ونامراد ہے بلکہ افغان طالبان کے برسوں سے پاؤں پکڑ رہاہے لیکن سعودی حکومت نے انتہائی کامیابی سے چند ہفتوں میں انتہائی طاقتوراور بیرونی حمایت یافتہ حوثیوں کو شکستدے کر قانونی حکومت کو بحال کر دیا۔اس جنگ میں جس طرح عالم اسلام کاایک بڑا حصہ براہ راست سعودی پرچم کے نیچے کھڑاہوا ‘اس نے سعودی عرب کو مسلم دنیا کاصحیح معنوں میں قائد اور رہنما بنادیا۔یہی وہ درد اور رنج تھا جس کو سامنے رکھ کر اسلام دشمن طاقتوں نے حج جیسے عظیم اور مبارک موقع کو استعمال کرکے سعودی حکومت کو ناکام ونااہل ثابت کرنے کاپروگرام بنایا اور اس کے لیے منیٰ جیسے واقعہ کی منصوبہ بندی کی گئی ۔اب یہ ساری باتیں سامنے آرہی ہیں کہ اصل سازش کیاتھی ۔

سعودی حکومت نے اس واقعہ کو جس طریقے سے اب تک سنبھالا ہے‘ وہ بھی انتہائی لائق تحسین ہے کیونکہ ردعمل میں کسی کے خلاف نہ سخت زبان استعمال کی گئی اورنہ تحقیقات پرانکارکیاگیا بلکہ ناظم امورحج اور گورنر مکہ کے بعد خودشاہ سلمان بن عبدالعزیز نے خود کو مفتیٔ اعظم شیخ عبدالعزیز آل شیخ کے سامنے پیش کردیاکہ اگرسانحہ منیٰ میں ان کی غلطی ثابت ہو تو وہ سزا لینے کے لیے تیارہیں۔اس حوالے سے تحقیقات کاسلسلہ جاری ہے۔ سانحہ کے بعد عرب کے ایک معتبرترین اخبارالشرق الاوسط نے تو کھل کر بتادیاتھا کہ اس بھگدڑ کی وجہ ایرانی عازمین کا اپنے خیمے چھوڑکر مخالف سمت آنے والے عازمین سے جان بوجھ کرٹکراناہے ۔اس بات کو الشرق الاوسط کے مطابق ایک ایرانی عہدیدارنے بھی تسلیم کیا۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک اورپریشان کن تھی۔اسی تناظر میں بعد میں میڈیا پر پتہ چلاکہ ایرانی پاسداران انقلاب کے 6 اہم کمانڈر اس مشن پر حج میں شامل تھے‘ جو گرفتار ہیں۔حج پرپر سے آنے والے حجاج نے واپسی پر بتایا کہ جیسے ہی سانحہ رونماہوا ‘اس کے بعد ایرانی حجاج یک دم غائب ہوگئے ۔ سانحہ کے بعد کئی میڈیاگروپس یہ کہتے اورلکھتے پائے گئے کہ حج انتظامات میں سعودی حکومت کو ساری دنیاکی مسلم حکومتیں اور لوگ شامل کرنے چاہئیں لیکن وہ ایسانہیں کریں گے کیونکہ ان کی حج سے ہونے والی بھاری آمدن متاثر ہوسکتی ہے جو انہیں قطعاً برداشت نہیں ہوگی۔ یہ اتنابڑا بہتان اور جھوٹ ہے کہ جس کی تردیدکے بغیر بھی سب کچھ سمجھ میں آسکتاہے۔ حج اور عمرہ کے انتظامات سے لے کر حرمین کی توسیع وعازمین کی سہولیات تک کے لیے جتنا سعودی حکومت خرچ کررہی ہے ‘آمدن تواس کے پاسنگ بھی نہیں۔ انہی اخراجات کے باعث حرمین شریفین کے مقامات کے قریب دنیا کے مہنگے ترین تعمیراتی منصوبے بن چکے ہیں۔ اس کواگرسمجھناہوتو یہی کافی ہے کہ سعودی حکومت نے آب زم زم کی فروخت تک پراپنے ملک ہی نہیں‘ دنیابھرمیں پابندی عائد کررکھی ہیں‘ اگروہ صرف آب زم زم کی ہی معمولی قیمت رکھ دیں توصرف اس ایک مد سے بھاری سرمایہ کمایاجاسکتا ہے۔ایک پاکستانی صحافی نے اپنی روئے داد میں حال ہی میں میں لکھاکہ ’’اگرسعودی حکومت صرف واش روم اور جوتے سنبھالنے کا ایک ریال معاوضہ مقرر کردے تو روزانہ کروڑوں ریال کمائے جاسکتے ہیں لیکن وہ صرف خدمت کرتے ہیں۔‘‘ وہ تواپنے ہاں آنے والے کئی ملین عازمین کو واپسی پرمفت تحائف سے نوازتے ہیں۔ ساری دنیاکے مسلمانوں کی خدمت و تعاون پربے تحاشہ پیسہ صرف کرتے ہیں اورخصوصاً دنیا بھر میں مساجد‘ مدارس اوراسلامی لٹریچر کی تقسیم توان کے ایسے وسیع بجٹ کا ایک بڑاحصہ ہے۔ ساری دنیاجانتی ہے کہ سعودی عرب نے اگر اپنے ملک میں جدید ترین ٹرین چلائی ہے تووہ صرف اور صرف عازمین حج وعمرہ کے لیے عرفات ‘ مزدلفہ اور اب مکہ سے مدینہ کے درمیان ہی چلائی ہے۔

حرمین شریفین کو کھلے شہربنانے کامطالبہ کرنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ پہلے قبلہ اول مسجداقصیٰ کو یہودیوں کے پنجے سے آزاد کروائیں کیونکہ وہاں تواسلام کے حقیقی اور سب سے بڑے دشمن یہود قابض ہیں۔

سعودی حکومت کے حسد کی آگ میں جلنے مرنے والے خیالی گھوڑے دوڑانے والے اور خیالی پلاؤ پکا نے والے یہ تک کہتے پائے گئے کہ دنیا میں حج سے کہیں بڑے اجتماعات ہوتے ہیں اور سب انتہائی منظم اورپرامن ہوتے ہیں، حالانکہ انہیں یہ پتہ نہیں کہ وہ خود کو مسلمان کہلوا کر بھی اپنی اس جہالت کے ذریعے حج جیسے عظیم رکن کی توہین وتحقیر میں ملوث ہوتے ہیں۔اسلام کے سارے دشمن جس بات پر سب سے زیادہ پریشان ہیں ‘وہ مسلمانوں کے حرمین شریفین کی اس قدر آبادی اوراس سے وابستہ والہانہ محبت ہے جہاں ہروقت لاکھوں کامجمع رہتاہے۔ ایسی مثال دنیا کا کوئی مذہب اپنی ساری تاریخ سے پیش نہیں کر سکتا۔ کافروں کے اجتماعات کا تو کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہوتا ‘ لاکھوں کروڑوں کے صرف زبانی دعوے ہوتے ہیں ‘ جنہیں تسلیم کرلیا جاتاہے۔حج جیساطویل رکن اسلام جس میں بیرونی دنیاسے آئے سبھی عازمین باقاعدہ گنتی کے ساتھ رجسٹرڈ ہوتے ہیں‘پھر حاجی 40دن تک حرمین میں قیام کرتے ہیں اورپھرانتہائی محدود وقت میں ایک ہی ساتھ کتنے ہی مقامات پرکتنے مشکل ارکان ادا کرتے ہیں اور ہرجگہ انہیں ایک جیسی سہولیات وآرام میسر آتاہے۔ بھلا ایسی عبادت واجتماع کی مثال دنیامیں کہیں کوئی پیش کر سکتاہے۔ یقینا ہرگزنہیں۔حیرت تواپنے مسلمانوں پرہوتی ہے کہ جو دشمنوں کے ہاتھوں میں کھیل کرعالم اسلام میں ایک نئی آگ بھڑکانے کاحصہ بن رہے ہیں۔ انہیں یادرکھناچاہیے کہ لگ بھگ عرصہ100سال سے اﷲ تعالیٰ نے حرمین شریفین کی خدمت و حفاظت کا ذمہ آل سعود کو عطا کر رکھا ہے اور انہوں نے ان عظیم ترین مقامات کی جس قدر حفاظت وخدمت کے ساتھ آنے والوں کی سہولت وآرام کے لیے جان لڑائی ہے ‘ایسی مثال پوری تاریخ میں نہیں ملتی ۔اﷲ تعالیٰ کاایسے ہی لوگوں سے وعدہ ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی حفاظت بھی خود ہی کرتاہے۔

الحمد ﷲ کہ سانحہ منیٰ پرجھوٹ بول کر،ناجائزمقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کو منہ کی کھاناپڑیجنہیں سبق ضرور حاصل کرناچاہیے۔
 
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 123793 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.