جائے امان

خوف ایک ایسالفظ ہے جودنیابھر میں جہاں کہیں بھی کسی قسم کے مافیاوجودرکھتے ہیں یہ ان کے ساتھ منسلک سمجھاجاتاہے۔ یہ مافیا اپنے ماحول کو اس شہرکوبستی یامحلے کوایک مستقل خوف کاشکاررکھتاہے۔ ذراساخوف کم ہونے کاتاثرنظرآئے تو اچانک کوئی ایساحادثہ یا سانحہ رونما کردیاجاتاہے کہ پوری کی پوری بستی خوف سے کانپنے لگتی ہے۔لوگ سرشام گھروں میں بند ہوجاتے ہیں اور ڈر کی وجہ سے اگراپنے سامنے کوئی جرم ہوتادیکھ بھی لیں توزبان نہیں کھولتے۔ لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ایسامافیا خود بھی خوف کاشکار رہتاہے۔ اسے ڈر ہوتاہے کہ ایک دن علاقے کے لوگ اذیتوں،پریشانیوں اور اموات سے اتنے تنگ آسکتے ہیں کہ انہیں اپنی زندگی کی پرواہ نہ رہے اوراس مافیا کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔اسی لئے مافیا کبھی بھی لوگوں کو منظّم نہیں ہونے دیتا۔ کسی تحریک یاکسی چھوٹے سے احتجاج کوبھی خوف اورممکن ہوتو خوفناک تشددسے خود ہی آغاز میں کچل دیتاہے۔

دنیاکے ہربڑے شہرمیں ایسے مافیاوجودرکھتے ہیں اوررکھتے رہے ہیں۔ برازیل کے ساؤپولوسے لے کراٹلی کے روم تک اوربنکاک سے لے کربھارت کے کیرالہ تک ہرجگہ ایسے مافیامدتوں تک لوگوں کاخون خشک کرتے رہے۔ان میں کچھ مافیا ایسے ہوتے ہیں جوپس پردہ رہ کراپنے جائز و ناجائز دھندوں کابازار گرم رکھتے ہیں،سیاست دانوں،انتظامیہ اورپولیس میں لوگوں کو نوازتے ہوئے اپنا مطیع بنالیتے ہیں لیکن چندمافیاایسے بھی ہوتے ہیں بلکہ دنیابھرمیں ہیں جوایک سیاسی پارٹی کے طورپرایک خاص نظریہ لے کر کام کرتے ہیں۔الیکشن جیتتے ہیں،اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں،گورنریوں اور وزارتوں کے قلمدان سنبھال لیتے ہیں لیکن ان کے مطیع وہ جرائم پیشہ لوگ ہوتے ہیں جوان کے اشارۂ ابروپر جب چاہیں،جس وقت چاہیں پورے شہر یا علاقے کوخوف میں مبتلا کردیں۔

دنیابھرکے شہروں میں جہاں جہاں مافیا وجودمیں آئے ان کی چند مخصوص علامتیں اورچندمخصوص طریقے ہوتے ہیں جن کی صرف ہیئت تھوڑی بدلتی ہے لیکن مقصد ایک ہی رہتاہے۔ان مافیاز کاپہلاکام اپنے علاقے کے بااثر لوگوں، تاجروں، سرمایہ داروں اور صاحبان حیثیت کوخوف کاشکار کرنا اوران سے اپنی کارروائیوں کے لئے رقم وصول کرناہوتاہے۔یہ رقم براہ راست بھی لی جاسکتی ہے اورکسی رفاہی کام ،تقریب یامہم کے سلسلے میں چندے کے طورپر بھی لیکن یہ وصولی اتنی آسان نہیں ہوتی۔ کوئی شریفانہ گفتگو سے قائل ہوکر اپنی جیب سے پیسے نہیں نکالتا۔مافیا کواس سلسلے میں پہلے بہت محنت کرناپڑتی ہے۔ذرا سے انکارپرگولی سے اڑادو،اغواکرکے بدترین تشدد کرواوراس کی لاش کسی ویرانے میں پھینک دو۔ ہرملک اورہر شہرکااپنافیشن ہوتاہے۔ کہیں پلاسٹک کے تھیلے میں لاش ملتی ہے توکہیں ایلومینیم کے ٹرنک میں یا پھربوری بند ۔لاش پر شدید اذیت کے نشان ثبت کئے جاتے ہیں تاکہ خوف کی لہردوڑجائے۔مزید خوفزدہ کرنے کے لئے جسموں پر لوہے کی گرم گرم مہروں،تیزدھار چاقو یاپھر ڈرل کے ذریعے پیغامات یانعرے یاپھر چند مخصوص نشان داغ دئیے جاتے ہیں تاکہ رقم دینے سے انکارکرنے والے کووہ اذیت اور تکلیف زندگی بھریاد آتی رہے جو اس نے ان کے اذیت خانے میں برداشت کی ہے۔

مافیادوسرا کام ان اداروں کوخوفزدہ کرنے کاکرتاہے جوامن وامان سے منسلک ہوں جن کی ذمے داری ہوکہ ایسے لوگوں سے عوام کونجات دلائی جائے جب بھی پولیس ،تفتیشی ایجنسی یاکسی آزادتحقیقاتی ادارے کے افرادنے انہیں ان غیر قانونی کاموں پرگرفت میں لیایاان کی مجرمانہ کاروائیوں میں رکاوٹ بنے یا سر اٹھاتے نظر آئے،انہیں موقع ملتے ہی صفحہ ہستی سے مٹادیا گیابلکہ ان کی لاش کونشان عبرت بنادیاگیا۔مافیا کا اگلا شکار وہ لکھنے والے ہوتے ہیں جوان کی دہشت اورغنڈہ گردی کومنظرعام پرلانے کی کوشش کرتے ہیں۔دنیابھرکی صحافتی تنظیموں نے وہ ریکارڈ محفوظ کررکھاہے کہ کتنے ایسے صحافی تھے ،لکھنے والے تھے،دانشور تھے جوان مافیازکے ہاتھوں قتل ہوئے،کتنے اخبارات کے دفترجلائے گئے ، کتنے کیمرے توڑے گئے جوان کی براہِ راست تقریرنشرکرنے سے گریز کرتے تھے اوربالآخرانہوں نے مافیاکے سامنے سرجھکادیا،کتنے صحافیوں کواغواکیاگیا،کتنے لکھنے والوں کے بیوی بچوں کو ہراساں کیا گیا، اس لئے کہ لکھنے والے، صحافی اورمیڈیاکے لوگ مافیا کاخوف لوگوں کے دلوں سے اتارتے ہیں اوراگرلوگوں کاخوف اترگیاتو مافیاکے رکن خوف میں یوں بھاگنے لگتے ہیں،جیسے برسات میں پتنگے ۔دنیاکے ہرمافیا کاانچارج میکسیکو میں ٹوکیو کے مافیاکاانچارج ہانگ کانگ اورگرنیڈا کے مافیاکاانچارج امریکا یااوردوسرے کئی ممالک کے مافیاکے انچارج کسی مغربی ملک میں بیٹھے ہوئے ہیں اوران کا خوف ان کے اپنے ملک کے عوام پرمسلط ہے۔

لیکن ان تمام مافیازکی ایک پہچان بہت خاص ہے،انہیں دل سے جس نظام سے نفرت ہوتی،وہ جسے خوفزدہ کرنے کے لئے سردھڑکی بازی لگادیتے ہیں وہ آزاد خودمختارعدلیہ اورمیڈیا ہے۔ دنیامیں قتل ہونے والے ججوں،وکیلوں اور صحافیوں کی تعداداٹھالیں توان میں کثیرتعداد بلکہ حیرت انگیز اکثریت ان کی ہے جومافیاز کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ اٹلی،برازیل،میکسیکو،تھائی لینڈ،بیٹی،ٹوکیو،بھارت غرض دنیاکے کسی بھی ملک میں آزادعدلیہ اورصحافیوںکے خلاف اگرکسی کو ہتھیار اٹھا کرسرگرم عمل دیکھیں گے تویہی مافیا ہوتاہے،انہیں ایسے ججوں اور صحافیوں کے نام سے نفرت ہوتی ہے جو لوگوں کو انصاف دیتے ہوئے مافیا کا خوف ان کے دل سے نکال دیں کیونکہ اگریہ خوف دل سے نکل گیا توپھرتوان کا بسترگول ہو جاتا ہے۔دنیامیں جہاں کہیں ایسی صورت حال آئی انہوں نے اپنی پوری سفاکی دکھائی،ان کی وحشت وبربریت عروج پرجا پہنچی ۔ یہ درندے بن گئے ۔ انہوں نے لوگوں کے گھروں کوآگ لگائی، بچوں کوقتل کیا،لوگوں کواذیتیں دے کرمارا،زندہ جلایا کہ کہیں ان کاخوف ختم نہ ہوجائے لیکن ایک اورایسامافیابھی معرضِ وجودمیں آگیاجس نے اپنے کاموں پرپردہ ڈالنے کیلئے ملکی سیاست کا سہارالیتے ہوئے ایک مخصوص علاقے پرقبضہ کرلیااوراسی قبضہ مافیاسیاست کی آڑمیں بھتے کی وصولی کیلئے نت نئے طریقے ایجادکرتے ہوئے ہزاروں بوگس بھرتیوں کے نام پرکروڑوں روپے ماہانہ کامشاہرہ وصول کرناشروع کر دیا۔ علاقے کے ہرکارخانے اورفیکٹری کیلئے ہرمہینے بھتے کے نام پرچندہ دینا لازم ہوگیااوراگر کسی نے انکارکیاتواس کو سینکڑوں محنت کشوں کے ساتھ جلا کرخاکسترکردیاتاکہ آئندہ کوئی انکارنہ کرسکے۔

ایسی مثالیں دنیا کے ہراس ملک میں بکھری ہوئی ہیں جہاں ایسے مافیاز وجودمیں رہے یاہیں۔ لیکن وقت کے اوراق یہ کہانی بھی سناتے ہیں کہ جوں جوں ان کی درندگی اورسفاکی عروج پرآتی ہے اسی تیزرفتاری سے لوگوں کاخوف بھی دلوں سےنکلنے لگتاہے۔ لیکن موت کاخوف اس مافیاکو ایک درندے میں تبدیل کردیتا ہے جسے بس اپنے بچاؤ کے لئے آخری وار کرناپڑتاہے کسی کوزندہ جلاکر یا اذیت ناک موت دے کر کیونکہ اس کے بعد لوگوں کی نفرت کا ایساسیلاب اس کی جانب بڑھتاہے کہ پوری بستی میں جائے اماں تک نہیں ملتی۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351484 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.