اگر حکومت نے گُڈ گورننس سیکھنی ہے تو جنرل راحیل شریف سے سیکھ لے

آج حکمرانوں اور اِنکے وزراء کو ’’ گورننس‘‘ پراپنا احتساب کرنا چاہئے اور اتنا ضرور سوچنا چاہئے کہ وزیراعظم نوازشریف کی موجودہ ڈھائی سالہ حکومت میں بڑے بڑے منصوبوں میں کتنی کرپشن ہوئی ہے؟ آج بھی ملک کے غریب عوام پر مہنگائی کا طوفان سرچڑھ کر آتاہی چلاجارہاہے، اور اگلے ماہ آئی ایم ایف (عالمی مالیاتی ادارہ) سے ملنے والی قرضوں کی اقساط کے شروع ہوتے ہی مہنگائی جو تباہی مچائے گی وہ بھی اپنی جگہ افسوس کی تمام حدود کراس کرجائیگی۔ آج اگر ایسے میں جنرل راحیل شریف نے اپنی کورکمانڈرز کانفرنس میں حکومت سے گورننس کی بات کہہ دی ہے توکیا ہوگیاہے؟ اگر حکومت نے گُڈ گورننس سیکھنی ہے تو جنرل راحیل شریف سے سیکھ لے کیوں کہ انکی گڈ گورننس یہ ہے کہ انہوں نے کراچی سے دہائیوں کا گند صاف کر دیا، انکی گڈ گورننس یہ ہے کہ انہوں نے ملک بھر سے دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کا صفایا کیا، انکی گڈگورننس یہ ہے کہ انہوں نے کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کو بے نقاب کیا۔
آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں ’’گڈگورننس بہتر بنائیں‘‘ جیسے الفاظ عین اس وقت میڈیا کے ہاتھ آئے جب وزیر اعظم نوازشریف بلوکی میں 1223 میگا واٹ بجلی کے منصوبے کے افتتاح کے موقع پر تقریب سے خطاب کر رہے تھے اور پرزور انداز میں اپنے ڈھائی سالہ دور کی کارکردگی پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنی ہی حکومت کی تعریفوں کے پُل باندھ رہے تھے۔ ایسے میں آئی ایس پی آر کی جانب سے اس طرح کی اسٹیٹمنٹ آجانا واقعی ان کیلئے حیرت کا باعث بنا۔ اور ان کے مشیروں کی ایک لمبی قطار نے انکے کانوں میں سرگوشیاں کر کے ’’بغاوت‘‘ کے علم کو بلند کرنے کا کہا۔ مگر میاں نوازشریف کی دور اندیشی دیکھیے کہ وہ اندر ہی اندر کڑھتے رہے اور ماضی قریب کی طرح دبے الفاظ میں مذمت کر گئے۔ لیکن انکے ہم عصر سیاستدانوں سے رہا نہ گیا اور طوفان بدتمیزی کھڑا کردیا۔۔۔ کسی نے کہا کہ یہ آئین کی خلاف ورزی ہے تو کسی نے کہا کہ تمام ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام کریں۔ لیکن آفرین ہے زرداری صاحب پر کہ انہوں نے 3 دن کی اپنے پارٹی رہنمائوں کی تقریریں سننے کے بعد انہیں شٹ اپ کال دیکر کہا کہ بغیر اجازت فوج کے حوالے سے کوئی بات نہ کی جائے۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک طرف آرمی چیف امریکا کا دورہ کرنے جارہے ہیں اور دوسری طرف سیاستدانوں نے بغیر کسی وجہ کے شوروغوغا شروع کر دیا ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کا تو حال یہ ہو چکا ہے کہ علی الاعلان کرپشن کرنے کے باوجود سینہ تان کر کہتے ہیں کہ آئو کوئی ثابت کر کے دکھائے کہ ہم نے کرپشن کی ہے۔ اور اگر کوئی ادارہ یا شخصیت ان سیاستدانوں کو آئینہ دکھائے تو یہ سب گٹھ جوڑ کر کے ایک دوسرے کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں۔

گڈ گورننس کے حوالے سے پاکستان میں یہ مسئلہ ایک عذاب بنا ہوا ہے اور مہنگائی، قرضے، کرپشن وغیرہ اس معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں۔۔۔ حکومت کیخلاف نندی پور پراجیکٹ اور قطر سے گیس کے معاہدے میں کرپشن کے الزامات اور حالیہ اورنج ٹرین میں کرپشن کے الزامات سر اُٹھار ہے ہیں، کیا وہ ’’بیڈگورننس‘‘ کے زمرے میں نہیں آتے؟ اگر کراچی ہی کی بات کی جائے تو وہاں آپریشن کے آغاز کے بعد فوج اور رینجرز کو معلوم ہوا کہ سیاسی لیڈر اور دولت مند افراد بھی دہشتگردوں کی حمایت کرتے ہیں۔ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ نے بھی کراچی واٹر بورڈ جیسے اداروں تک اثرات پھیلا رکھے ہیں جو پاکستان کے محافظوں کیلئے انتہائی تشویشناک بات ہے۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ فوج دہشتگردوں اور کرپٹ افراد کو منطقی انجام تک پہنچائے بغیر واپس نہیں جائیگی۔ یہ بات قابل مسترد ہے کہ فوج اور رینجرز کے ہاتھ مضبوط کرنے کے بجائے سیاسی جماعتیں ان عناصر کی حمایت میں متحد ہوجائیں جن کیخلاف بظاہر محافظین پاکستان آگے بڑھ رہے ہوں۔ پی پی اور متحدہ کو اپنے غلط کاموں کی وجہ سے کارروائی کا سامنا ہے۔ حقیقت میں حکمرانوں کو خوف ہے کہ اگلے مرحلے میں وہ بھی اسکی زد میں آسکتے ہیں۔

حکمران، سیاستدان اور ان کے چھوٹے بڑے افسر شاہی، چیلے (بیوروکریٹس) قوم کے حقوق پر ڈاکہ ڈالا رہے ہیں اور صرف اپنے مفادات کا سوچ رہے ہیں۔ کیا ملک کو لوٹ کھانے والے حکمرانوں، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا کڑا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ میرے خیال میں ’’گڈگورننس‘‘ کے لفظ نے عوام کو خاصا متاثر کیا ہے، عوام میں حوصلہ بلند ہواکہ آج پاک فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو آپریشن ضرب عضب کو جاری رکھ کر مُلک کو دہشت گردی سے پاک کرنے میں مصروفِ عمل ہے جس کی ہر ممکن کوشش بس یہی ہے کہ ملک میں کسی نہ کسی طرح سے بہتری آئے اور ملک کرپشن، لوٹ مار، دہشت گردی اور قتل ِو غارت گری سے پاک ہواور ایک سندھ ہی کیا سارے ملک میں گڈ گورننس کی بہتری ہو اور ملک اور عوام خوشحالی کی راہ پر اُس طرح سے گامزن ہوجائے۔ افسوس یہ ہے کہ یہی شور مچانے والے حکمران وطن عزیز کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے مگر عوام کے حصے میں جمہوری ثمرات ایک رتی برابر بھی نہیں آئے ہر بار عوام کے دامن میں مہنگائی ، بھوک و افلاس اور تنگدستی اور سالانہ سیلاب کی تباہ کاریاں ہی آتی رہی ہیں۔

آج حکمرانوں اور اِنکے وزراء کو ’’ گورننس‘‘ پراپنا احتساب کرنا چاہئے اور اتنا ضرور سوچنا چاہئے کہ وزیراعظم نوازشریف کی موجودہ ڈھائی سالہ حکومت میں بڑے بڑے منصوبوں میں کتنی کرپشن ہوئی ہے؟ آج بھی ملک کے غریب عوام پر مہنگائی کا طوفان سرچڑھ کر آتاہی چلاجارہاہے، اور اگلے ماہ آئی ایم ایف (عالمی مالیاتی ادارہ) سے ملنے والی قرضوں کی اقساط کے شروع ہوتے ہی مہنگائی جو تباہی مچائے گی وہ بھی اپنی جگہ افسوس کی تمام حدود کراس کرجائیگی۔ آج اگر ایسے میں جنرل راحیل شریف نے اپنی کورکمانڈرز کانفرنس میں حکومت سے گورننس کی بات کہہ دی ہے توکیا ہوگیاہے؟ اگر حکومت نے گُڈ گورننس سیکھنی ہے تو جنرل راحیل شریف سے سیکھ لے کیوں کہ انکی گڈ گورننس یہ ہے کہ انہوں نے کراچی سے دہائیوں کا گند صاف کر دیا، انکی گڈ گورننس یہ ہے کہ انہوں نے ملک بھر سے دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کا صفایا کیا، انکی گڈگورننس یہ ہے کہ انہوں نے کرپشن اور لوٹ مار کرنے والوں کو بے نقاب کیا۔
حکمرانوں کو یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی عسکری قیادت نے جس حکمت عملی اور جرأت مندی کے ساتھ فاٹا کے علاقوں سے دہشت گردی کے مراکز ختم کئے ہیں اس کا پوری دنیا میں خیر مقدم کیا جا رہا ہے پاکستان کی فوج جو پہلے ہی ایک مضبوط پیشہ ور فوج کا تشخص رکھتی ہے اس کی عالمی ساکھ میں مزید اضافہ ہوا چنانچہ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ فوج دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے مخصوص حکمت عملی اور درکار صلاحیتوں سے بھی آراستہ ہے اس تناظر میں آرمی چیف کے دورہ امریکہ کو نہ صر ف امریکہ میں بلکہ عالمی سطح پر غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اس دوران پاک امریکہ دفاعی امور پر بھی بات ہوگی اور پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے بھارت کا رویہ بھی زیر غور آئے گا تا ہم افغانستان میں قیام امن کے معاملات بھی جنرل راحیل شریف کی امریکی حکام کیساتھ ملاقاتوں میں سر فہرست ہوں گے صدر اوباما چند ماہ بعد ایوان اقتدار سے رخصت ہونے والے ہیں اپنے اقتدار کی دو مدتوں کے بعد وہ عالمی امن کیلئے کن کامیابیوں کے ساتھ رخصت ہونگے ان کیلئے یہ بہت بڑا سوال ہے شام اور فلسطین کے معاملات میں انکی ناکامی سب پر عیاں ہے اب صرف افغانستان میں قیام امن ان کیلئے ایک بڑا ہدف جسکے حصول کیلئے وہ بے چین ہیں اسی باعث انہوں نے بار بار افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان کے کر دار کا ذکر کیا ہے، پاک فوج اور آئی ایس پی آر اس معاملے میں امریکہ کی بہتر مشاورت کر سکتے ہیں۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 301386 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More