چودھری رحمت علی کا پاکستان…اور ہماری ترجیحات

 انسانی تاریخ صرف غیرمعمولی کارنامے انجام دینے والوں کو ہی یاد رکھا کرتی ہے معمولی ذہن اور کردار، انسانی ذہنوں سے محو ہو جایا کرتے ہیں۔ قومی ہیروز کی خدمات کا اعتراف آنے والی نسلوں کے بہتر مستقبل کی ضمانت دیتا ہے۔ ہر سال دوسرے اہم قومی ایام کی طرح 16 /نومبر کا دن بھی جوں جوں قریب آتا ہے میری ماند پڑتی امیدوں کو جلا ملنا شروع ہو جاتی ہے۔ تھوڑی دیر کے لیئے ماضی میں جھانکتے ہوئے مجھے یہ خوشگوار احساس تازہ رکھنے کا موقع میسر آتاہے کہ آج جس آزادی اور سکھ چین کو ہم حقیقی معنوں میں محسوس کر رہے ہیں اس کے پسِ پردہ ہمارے قومی ہیروز کی دانش مندی اور دوربینی کا کتنا بڑا اہم راز پوشیدہ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہی میرے ذہن کا یہ روشن پہلو اپنی نالائقی اور ارد گرد کی بے حسی اور سرد مہری کے زیر اثر آ جاتا ہے تا وقتیکہ کوئی غیر معمولی واقعہ رونما نہ ہو جائے۔ میرے ذہن میں اکثر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں اپنے مشاہیر کے عظیم کارناموں اور صلاحیتوں کی یادوں کو نئی نسل تک منتقل کرتے بھی رہنا چاہیئے یا آہستہ آہستہ اس کام کو بھی دیگر فرائض کی طرح بستۂ نسیان کی نظر کر دینا چاہیئے؟۔ اس سوال کے مثبت اور منفی دو پہلو نکلتے ہیں، مثبت پہلو پے غور کرنے کے بعد حوصلہ افزاء صورت حال سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہاں ابھی اس بات کا رحجان پایا جاتا ہے کہ ہم اپنے اسلاف کو چار و ناچار یاد رکھے ہوئے ہیں تبھی تو آج تک مذہبی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی روایات کامعاشرے میں جاندار کردار اجتماعی یا انفرادی طور پر نظر آ رہا ہے۔ لیکن اس مثبت پہلو کے باوجود منفی پہلو کا اثر غالب نظر آتا ہے کہ جب ہم اپنے قومی ہیروز کو دینی اور سیاسی خدمات کے اعتراف میں پسند تو کرتے ہیں مگر ان کا راستہ اپنانے میں پس و پیش سے کام لیتے ہیں۔

برصغیر کی تاریخ میں چوہدری رحمت علی مرحوم کا نام ہمارے ان چند بڑے سیاسی رہنماؤں میں آتا ہے جنھوں نے مسلمانوں کے لیئے علیحدہ مملکت کے حصول کے لیئے دن رات محنت کی۔ چوہدری رحمت علی قیام پاکستان کے حقیقی بانیوں میں شمار ہوتے ہیں۔ انھوں نے انیس سو تیس کی دہائی کے آغاز ہی میں اپنے ایک مشہور انگریزی رسالہ "Now or Never" میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیئے جس علیحدہ آزاد مملکت کا بھرپور فارمولہ کے تحت تصور پیش کر دیا تھا وہ بعد میں قیام پاکستان کی نہ صرف بنیاد بنا بلکہ پاکستان کے نام کے خالق کا اعزاز بھی چوہدری صاحب کو نصیب ہوا۔ چوہدری رحمت علی مرحوم نے ’’پاکستان‘‘ کا نام تجویز کیا تھا، بس یہی مختصر سی تاریخ ہمیں یاد ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ وقت گزرنے کے بعد شاید ہماری اگلی نسلوں کو یہ بھی یاد نہ رہ پائے۔ اس مردِ حُر کی جدوجہد آزادی کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اپنے طالب علمی کے دور سے ہی یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیئے اپنے دل میں کس قدر دردمندی رکھتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ آزادی کی اس جدوجہد میں ان کے نکتۂ نظر کو سمجھنے میں اختلافات رہے لیکن سب کا مطمۂ نظر مسلمانوں کی آزادی اور ترقی ہی تھا۔ ایسی صورت حال میں اُس وقت کی مسلم قیادت کے ساتھ دیگر مسلم رہنماؤں کے اختلافات بھی اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہیں جن سے مفر ممکن نہیں۔ اگر صرف اتنی بات ہی ذہن نشین رہے کہ رہنماؤں کے اختلافات جو بھی ہوں عوام کے بہتر اور پائیدار مستقبل کے لیئے ہوں تو قوموں کے مستقبل کے فیصلے آسان رہتے ہیں۔ اس عمل میں اگر کوئی بھی کمی بیشی رہ بھی جائے تو در گزر سے کام لیا جا کر بہتری کی جانب سفر رواں دواں رکھا جانا ہی مناسب رہتا ہے بشرطیکہ خلوص اور دیانتداری کا پہلو پیشِ نظر رہے۔ وقت سب سے بڑا منصف ہوتا ہے۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کے اوراق بھی گواہی دیتے چلے جاتے ہیں کہ ان قومی فیصلوں میں ہمارے حق میں کیا رہا اور نقصان میں کیا تھا۔ سرکاری اور عوامی سطح پربھی قومی ہیروز کی خدمات کا اعتراف ہمارے اخلاقی اور قومی فریضہ کا حصہ ہے۔ اس فریضہ سے ہم کس حد تک عہدہ برآ ہوتے ہیں یہ بات دیکھنے کی ضرورت زیادہ ہے۔

عمومی زندگی میں بھی اگر اپنے کردار اور افعال پر نظر ثانی کی جائے تو ہم بحیثیت مجموعی بے شمار دوسری جگہوں پر اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے نظر آتے ہیں۔ کہیں ہم عائلی زندگی میں اپنے ہی گھر میں انصاف کے تقاضوں کو پامال کر رہے ہوتے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ انصاف ہوتا رہے، کہیں پڑوسیوں اور عزیز و اقارب کی دل آزاری کرنے میں فخر محسوس کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم عملاً اسلامی قوانین اور ریاستی آئین کی دھجیاں بکھیر رہے ہوتے ہیں، جب کہ ان قوانین کا عملدرآمد ہمیں صرف کتابوں اور تذکروں میں اچھا لگتا ہے۔ حرام و حلال میں تمیز اور دیانتداری کے ثمرات کی صرف تمنا ہی رہتی ہے، کوئی ہمارے حصہ کا یہ کام بھی کر لے تو بڑا سکون میسر رہتا ہے۔ نظم و ضبط اور میرٹ کا جھنڈا تو صرف بلند کرنے سے ہی سبھی تقاضے پورے ہو جاتے ہیں، اپنے لیئے اس کڑوی گولی کو نگلنا ہمارے لیئے ذرا مشکل ہو جاتا ہے بس۔کچھ نہ کر کے بھی معاشرے میں باعزت مقام کے حصول کی تو حد سے زیادہ خواہش پیچھا نہیں چھوڑتی۔ قول و فعل کے تضاد نے تو ہماری’’ مَت‘‘ ہی مار کے رکھ دی ہے، بڑی تمنا رہتی ہے کہ باتیں ہم کرتے رہیں اور عمل لوگ کرتے رہیں۔ ان تمام کمزوریوں کے باعث ہم شاید اخلاقی، سیاسی، مذہبی اور معاشرتی طور پر ترقی سے تنزلی کی طرف جا رہے ہیں اور گمان یہ کیئے بیٹھے ہیں کہ ہم ترقی یافتہ دور میں داخل ہونے کو ہیں۔ یہ حقیقت اب اچھی طرح سے سمجھنے کی بھی ضرورت ہے۔ ہماری ڈکشنری میں ترقی اور تنزلی کی تشریح جو کی جا رہی ہے وہ اصول اور معیار کے منافی بھی ہو سکتی ہے۔ جب تک ہم خود کو نہیں بدلیں گے تو اپنی اصلاح ممکن نہیں ہو گی، اپنی اصلاح سے ہی معاشرے کی تکمیل ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ اسلاف کی قربانیوں اور خدمات کو یاد رکھنے سے ہی درست راستے کے تعین میں مدد مل سکتی ہے۔ راستے کا تعین درست سمت میں رہے تو منزل کے حصول میں آسانی رہتی ہے۔ منزل کی آسانی زندگی کے مقاصد کے ترجمانی کرتی ہے۔ زندگی کے مقاصد کا وجود مذہبی اور سیاسی دونوں پہلوؤں کو یکساں درست رکھنے سے ہی قائم رہ سکتا ہے، ایک بھی پہلو نظر انداز کر دیا جائے تو مقاصد کے حصول میں ناکامی مقدر بن جاتی ہے۔ ہماری خوش بختی یہ ہے کہ ہمیں ان دونوں پہلوؤں میں اپنے اسلاف کی وافر رہنمائی اور ہدایت ربانی میسر ہے صرف بات استفادہ کرنے پے رکی ہوئی ہے۔ اب وقت ’’بات‘‘ سے بڑھ کر ’’عمل‘‘ کا تقاضا کرتا ہے، ہم سب کو اسی تقاضا کے پیشِ نظر اپنے کردار و گفتار کا رخ مثبت سمت رکھنا ہو گا۔ پھر یہی مثبت رخ ہمارے مستقبل کی کامیابی کا ضامن بھی قرار پا سکتا ہے اور عظیم رہنماؤں کی قربانیوں کا نعم البدل بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
Abdul Majeed Siddiqui
About the Author: Abdul Majeed Siddiqui Read More Articles by Abdul Majeed Siddiqui: 6 Articles with 3646 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.