افسوس امت مسلمہ روایات میں کھوگئی

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو ضلالت و جہالت سے مبرا اور دلائل و براہین سے آراستہ ہے، اسلام کے تمام احکام پایہ تکمیل کو پہنچ چکے ہیں۔اور اس دین مبین میں خرافات وبدعات کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اب کوئی نام نہاد عالم دین، مفتی یا محدث ایسا نہیں جو اس دین مبین اور صاف و شفاف چشمے میں بدعات و خرافات کا زہر ملائے لیکن افسوس ہے کہ شیطان اور اس کے پیروکاروں نے اس دین صافی کو ضلالت و جہالت سے غلط کرنے اور خرافات سے داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

اسلامی سال کا دوسرا مہینہ ’’صَفَرْ المْظَفَّر‘‘شروع ہو چکا ہے،یہ مہینہ انسانیت میں زمانہ جاہلیت سے ہی منحوس، آسمانوں سے بلائیں اترنے والا اور آفتیں نازل ہونے والا مہینہ سمجھا جاتا ہے،زمانہ جاہلیت کے لوگ اس ماہ میں خوشی کی تقریبات (شادی ، بیاہ اور ختنہ وغیرہ )قائم کرنا منحوس سمجھتے تھے اور قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ یہی نظریہ نسل در نسل آج تک چلا آرہا ہے؛ حالاں کہ سرکارِ دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے بہت ہی صاف اور واضح الفاظ میں اس مہینے اور اس مہینے کے علاوہ پائے جانے والے والے توہمات اور قیامت تک کے باطل نظریات کی تردیداور نفی فرما دی اور اعلیٰ الاِعلان ارشاد فرما دیا کہ:(اﷲ تعالی کے حکم کے بغیر) ایک شخص کی بیماری کے دوسرے کو (خود بخود)لگ جانے(کا عقیدہ) ، ماہِ صفر (میں نحوست ہونے کا عقیدہ) اور ایک مخصوص پرندے کی بد شگونی (کا عقیدہ) سب بے حقیقت باتیں ہیں۔
دیگر مہینوں کی طرح ماہِ صفر میں بھی کچھ جاہلانہ رسومات ادا کی جاتی ہیں۔ صفر کا مہینہ اسلامی مہینوں کی لڑی کا دوسرا موتی ہے۔ اس مہینے کے بارے غلط باتوں کو ختم کرنے کے لیے اسے 'صفر المظفر' کہا جاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’بیماری کا ایک دوسرے سے لگنا، بدشگونی، ہامہ اور ماہ صفر (کی نحوست) یہ سب چیزیں بے حقیقت ہیں۔ ‘‘ (صحیح بخاری)

ماہ صفر اسلامی کیلنڈر کا دوسرا مہینہ ہے۔ یہ اﷲ تعالی کے بنائے ہوئے بارہ مہینوں میں سے ایک مہینہ ہے۔ جیسا کہ مہینوں کے بارے میں اﷲ تعالی کا ارشاد پاک ہے:
’’بیشک اﷲ کے نزدیک اﷲ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد بارہ ہے۔ جب سے اس نے آسمان و زمین کو پیدا فرمایا، اس میں چار مہینے محترم ہیں۔ یہ سیدھا اور صحیح دین ہے۔ پس تم لوگ ان (مہینوں کے بارے) میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔‘‘ (التوبہ:36)

دو جہانوں کے سردار ہمارے محبوب مْحمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے سال کی بارہ مہہینوں میں سے چار کے بارے میں یہ بتایا کہ وہ چار مہینے حْرمت والے ہیں یعنی اْن چار مہینوں میں لڑائی اور قتال نہیں کرنا چاہئیے ، اِس کے عِلاوہ کِسی بھی اور ماہ کی کوئی اور خصوصیت بیان نہیں ہوئی نہ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اور نہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے !!!!

حیرانگی کی بات ہے کہ اﷲ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی خبر نہ ہونے کے باوجود کچھ مہینوں کو با برکت مانا جاتا ہے اور من گھڑت رسموں اور عِبادت کے لیئے خاص کیا جاتا ہے اور کْچھ کے بارے میں یہ خیال کِیا جاتا کہ اْن میں کوئی خوشی والا کام ، کاروبار کا آغاز ، رشتہ ، شادی بیاہ ، یا سفر وغیرہ نہیں کرنا چاہیئے ، حیرانگی اِس بات کی نہیں کہ ایسے خیالات کہاں سے آئے ، یہ تو معلوم ہے جِس کا ذِکر اِنشاء اﷲ ابھی کروں گا ، حیرانگی اِس بات کی ہے کہ جو باتیں اور عقیدے کِسی ثبوت اور سچی دلیل کے بغیر کانوں ، دِلوں اور دِماغوں میں ڈالے جاتے ہیں اْنہیں تو فوراً قبول کر لِیا جاتا ہے لیکن جو بات اﷲ اور رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی طرف سے بتائی جاتی ہے اور پوری تحقیق کے ساتھ سچے اور ثابت شْدہ حوالہ جات کے ساتھ بتائی جاتی ہے اْسے مانتے ہوئے طرح طرح کے حیلے بہانے ، منطق و فلسفہ ، دِل و عقل کی کسوٹیاں اِستعمال کر کر کے راہ فرار تلاش کرنے کی بھر پْور کوشش کی جاتی ہے ۔شاعر کے بقول۔۔
افسوس اْمتِ مْسلّمہ روایات میں کھو گئی
مْسلّم تھی جو بات خْرافات میں کھو گئی

اِن ہی خْرافات میں سے ماہ ِ صفر کو منحوس جاننا ہے۔پہلے تو یہ سْن لیجیئے کہ اﷲ تعالیٰ نے کِسی چیز کو منحوس نہیں بنایا ، ہاں یہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی اور حِکمت ہے کہ وہ کِس چیزمیں کِس کے لیئے بر کت دے اور کِس کے لیئے نہ دے۔

سارے مہینے اور دن اﷲ تعالی ہی کی طرف سے مقرر کیے گئے ہیں۔ سب آپس میں برابر ہیں۔ کسی مہینے یا دن کو اگر کوئی برتری حاصل ہے تو اﷲ اور رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے ہے۔ نیز کوئی مہینہ اور دن اﷲ تعالی کے یہاں منحوس نہیں جیسا کہ ماہ صفر کے متعلق عام طور پر یہ بات مشہور ہے اور مختلف روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عقیدہ زمانہ جاہلیت میں بھی پایا جاتا تھا۔ انسان نیکی بھی کرتا ہے اور برائی بھی پس جس وقت کو بندہ مومن اﷲ کی اطاعت میں گزارے وہ اس کے حق میں مبارک وقت ہے اور جس وقت گناہ کا ارتکاب کرے وہی وقت اس شخص کے لیے منحوس ہے۔ گویا حقیقت میں نحوست کی چیز اﷲ تعالی کی معصیت اور نافرمانی ہے۔

اس مہینے کے آخری بدھ کو اور بعض جگہ اس مہینے کی تیرہ تاریخ کو طرح طرح کی رسمیں انجام دی جاتی ہیں۔ بعض لوگ اس ماہ کے آخری بدھ کو خصوصیت کے ساتھ غسل کا اہتمام کرتے ہیں اور خاص کھانے کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ تمام رسمیں بدعات ہیں اور دین اسلام سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ کام نہ تو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی زندگی میں ہوئے اور نہ صحابہ کرام کے عہد میں ان کا ثبوت ہے، نہ تابعین کے ہاں ان رسموں کا رواج تھا اور نہ ہی سلف امت میں کسی نے اس کو جائز قرار دیا ہے۔ لہٰذا ان تمام رسومات و بدعات سے بچنا چاہیے۔

اسی طرح زمانہ جاہلیت میں کفار مکہ بعض پرندوں سے فال لیتے تھے اور الو کو منحوس سمجھا جاتا تھا۔ اسی طرح پرندوں سے یا اس کی آوازوں سے بدفال لینا جیسا کہ آج بھی ہندوؤں اور بعض مسلم معاشرے میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔ یہ کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے احادیث میں ان سے منع فرمایاہے۔

ماہِ صفرکو سیرت نبوی میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ اس ماہ میں بہت سے اہم واقعات پیش آئے۔ ہم ذیل میں چند اہم اور مشہور واقعات کا ذکر کرتے ہیں:
٭ اسی ماہ صفر کی 26 تاریخ تھی، نبوت کاچو دھواں سال تھا، جمعرات کا دن سورج بلند ہونا شروع ہوا اور ادھر کفار مکہ بھی اپنی اپنی کوششوں میں مصروف ہوئے اور رحمتہ العلمین ، مظلوموں کے ساتھی، امن و سلامتی کی علامت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم سے نجات پانے کے راستے تلاش کرنے لگے۔

یہی وہ دن ہے کہ جس دن سردارانِ قریش نے ایک میٹنگ بلائی جس میں اس امت کا فرعون ابوجہل بن ہشام قبیلہ بنومخزوم کا سرپرست، جبیر بن مطعم بنی نوفل بن عبدمناف کا ،شیبہ بن ربیعہ اور اس کابھائی عتبہ بن ربیعہ اور سفیان بن حرب بنی عبدشمس بن مناف کے ،نضربن حارث بنی عبدالدار کے ، ابوالبختری بن ہشام اورزمعہ بن اسود اورحکیم بن حزام بنی اسد بن عبدالعزی کے ، نبیہ بن حجاج اورمنبہ بن حجاج بنی سہم کے اور امیہ بن خلف بنی جمح کے سردار بن کرسامنے آئے ، ان کی مزید سربراہی کیلئے ابلیس نے اپنی خدمات مفت پیش کیں۔فیصلہ یہ ہواکہ نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کوقتل کرنا، جس کیلئے قریش کے قبیلوں سے ایک ایک فرد چناگیاتاکہ اس خون میں سب شریک ہوں اور بنوعبدمناف(رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے قبیلے کا نام ) بدلے میں کسی سے جنگ نہ کرسکے گا۔

ادھر اﷲ علام الغیوب کی طرف سے جبریل امین آ پ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس حکم ہجرت لے کر آئے، ساتھ یہ بھی کہاکہ آج رات اپنے بستر پر نہ گزاریں۔ یہ 27صفر کا دن تھا کہ اسی رات قریش کے اکابر مجرمین نے اپناسارادن آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے خلاف مہم میں گزارا،جب رات ذراتاریک ہوئی تو یہ لوگ گھات لگاکر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے دروازے پر بیٹھ گئے کہ آپ سوجائیں تو یہ لوگ آپ پر ٹوٹ پڑیں۔ بہرحال قریش اپنے منصوبے کے نفاذ کی انتہائی تیاری کے باوجود ناکامی سے دوچار ہوئے اور اس نازک ترین لمحہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے علی رضی اﷲ عنہ سے فرمایا’’ تم میرے بستر پر لیٹ جاو اور میری یہ سبز حضرمی چادر اوڑھ کر سورہو، تمہیں ان سے کوئی تکلیف نہ پہنچے گی۔‘‘ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم یہی چادر اوڑھ کر سویاکرتے تھے۔

آپ صلی اﷲ علیہ وسلم باہر آئے اور کفار کی صفیں چیریں،مٹی سے ایک مٹھی لی اور ان کی طرف اچھالی جس سے اﷲ تعالی نے ان کی نگاہیں پکڑلیں اور و ہ آپ کو نہ دیکھ سکے۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم حضرت ابوبکر کے گھر تشریف لے گئے اور پھر ان کے مکان کی ایک کھڑکی سے نکل کر دونوں حضرات نے رات ہی رات یمن کا رخ کیا اور چند میل دورواقع ثورنامی پہاڑ پر ایک غار میں جاپہنچے، جسے بعد میں غارثورکے نام سے پہچاناگیا۔غار میں حضرت ابوبکر رضی اﷲ عنہ کے بیٹے عبداﷲ بھی یہیں رات گزار تے۔ امی عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ وہ بڑے ذہین وفطین تھے رات چھاجانے کے بعد آپ کے پاس جاتے اور صبح اس حالت میں کرتے کہ مکہ والے سمجھتے کہ انہوں نے رات یہیں گزاری ہے اس طرح وہ کفار مکہ کی سازشیں آپ تک پہنچاتے۔

چوتھے دن بروز سومواریکم ربیع الاول 1ھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے غار سے آگے مدینہ کا سفر عبداﷲ بن اریقط اللیثی کی رہنمائی میں کیا جوصحرائی اور بیابان راستوں کاماہر تھا اور ابھی قریش ہی کے دین پر تھا،لیکن قابل اطمینان بھی تھا۔
٭ ماہ صفر 2ھ اگست 623ء غزوہ ابوا ء۔ اس مہم میں ستر مہاجرین کے ہمراہ رسول صلی اﷲ علیہ وسلم بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور مدینے میں حضرت سعد بن عبادہ کو اپنا قائم مقام مقرر کیا، مہم کا مقصد قریش کے ایک قافلے کی راہ روکنا تھا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ودان تک پہنچے لیکن کوئی معاملہ پیش نہ آیا، اسی غزوہ میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بنوضمرہ کے سردار وقت عمرو بن مخشی الضمری سے حلیفانہ معاہدہ کیا جس کی تحریر یہ تھی ’’یہ بنو ضمرہ کے لئے محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی تحریر ہے۔ یہ لوگ اپنے جان اور مال کے بارے میں مامون رہیں گے اور جو ان پر حملہ کرے گا اس کے خلاف ان کی مدد کی جائے گی ، الا یہ کہ یہ خود اﷲ کے دین کے خلاف جنگ کریں۔ یہ معاہدہ اس وقت کے لئے ہے جب تک سمندر ان کو ترکرے (یعنی ہمیشہ کیلئے ) اور جب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اپنی مد د کیلئے انہیں آوازدیں تو انہیں آناہوگا۔‘‘

یہ پہلی فوجی مہم تھی جس میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم بذات خود تشریف لے گئے تھے اور پندرہ دن مدینے سے باہر گزار کرواپس آئے ، اس مہم کے پرچم کا رنگ سفید تھا اور حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ علمبردارتھے۔

٭ ماہ صفر 4ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس عضل اور قارہ (قبیلوں کے نام) کے کچھ لوگ حاضر ہوئے اور ذکر کیا کہ ان کے اندر اسلام کا کچھ چرچاہے لہٰذا آپ ان کے ہمراہ کچھ لوگوں کو دین سکھانے اور قرآن پڑھانے کیلئے روانہ فرمادیں آپ نے دس افراد کو روانہ فرمایا اور عاصم بن عمر بن خطاب کے نانا حضرت عاصم بن ثابت کو ان کا امیر مقرر کیا۔ جب یہ لوگ رابغ اور جدہ کے درمیان قبیلہ ہذیل کے رجیع نامی ایک چشمے پر پہنچے تو ان پر عضل اورقارہ کے مذکورہ افراد نے قبیلہ ہذیل کی ایک شاخ بنولحیان کوچڑھادیااور بنولحیان کے کوئی ایک سوتیر انداز ان کے پیچھے لگ گئے، ان کو گھیر لیا اور انہیں امن کا وعدہ دینے لگے لیکن حضرت عاصم نے ان کی بات کا یقین نہ کیا اور اپنے رفقاء سمیت ان سے جنگ شروع کردی ، بالآخر تیروں کی بوچھاڑ میں سات افراد شہید ہوگئے اور تین باقی رہ گئے، اب دوبارہ بنولحیان نے اپناعہد وپیماں دہرایااس پر تینوں صحابہ کرام ان کے پاس آئے لیکن انہوں نے قابوپاتے ہی بد عہدی کی اور انہیں اپنی کمانوں کی تانت سے باندھ لیا اس پر تیسرے صحابی نے یہ کہتے ہوئے جانے سے انکار کردیا کہ یہ پہلی بدعہدی ہے جس پر انہوں نے انہیں قتل کردیا اور باقی دو صحابہ حضرت خبیب اور زید رضی اﷲ عنہم کو مکہ لے جاکر بیچ دیا گیا ان دونوں نے بدر کے روز اہل مکہ کے سرداروں کو قتل کیا تھا۔

٭ صفر 4ھ بئر معونہ۔ یہ اس مہینے کادوسرا المناک واقعہ تھا جس کاخلاصہ یہ ہے کہ ابوبراء عامر بن مالک جو ملاعب الاسن? یعنی نیزوں کاکھلاڑی کے لقب سے مشہور تھا، مدینہ خدمت نبوی میں حاظر ہوا۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اسے اسلام کی دعوت دی، جو اس نے قبول تو نہ کی مگر دوری بھی اختیار نہیں کی۔ اس نے کہا کہ اے اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم ! آپ آپنے اصحاب کو دعوت دین کیلئے اہل نجد کے پاس بھیجیں تو مجھے امید ہے کہ وہ لوگ آ پ کی دعوت قبول کرلیں گے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے ان سے خطرہ ہے۔ ابوبراء نے کہاکہ آپ کے صحابہ میری پناہ میں ہوں گے۔

اس پر آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے70آدمیوں کو اس کے ہمراہ بھیجا اور منذربن عمرو رضی اﷲ عنہ کو ان کا امیرمقررکیا۔ بئر معونہ پہنچ کر حرام بن ملحان رضی اﷲ عنہ کو رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا خط دے کر اﷲ کے دشمن عامر بن طفیل کے پاس روانہ کیا جس نے کچھ نہ دیکھااور ایک آدمی کوپیچھے سے اشارہ کردیاجس نے حضرت حرام رضی اﷲ عنہ کواس زورکا نیزہ ماراکہ آر پار ہوگیا اور ان کے آخری الفاظ تھے ’’ اﷲ اکبر! ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہوگیا۔ ‘‘

اس کے بعد فوراہی اس سرکش عامر نے باقی صحابہ کرام پر حملہ کرنے کے لئے اپنے قبیلے کو آواز دی، مگر انہوں نے ابوبراء کی پناہ کے پیش نظر اس کی آواز پر کان نہ دھرے اس نے مایوس ہوکر بنو سلیم کو آوازدی اس کے تین قبیلوں عصیہ ، رعل ، اور ذکوان نے اس پر لبیک کہا اور جھٹ آکر ان صحابہ کرام کا محاصرہ کرلیا۔ جواباًصحابہ کرام نے بھی لڑائی کی مگر سب کے سب شہید ہو گئے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس خبر سے شدید صدمہ ہوا اور آپ نے دو ماہ تک ان قبیلوں کے لیے قنوت نازلہ پڑھی اور ان کے لیے بددعا کی۔

فتح خیبرکے بعد کے کئی واقعات بھی اسی ماہ صفر میں پیش آئے جن میں سے:
٭ صفر 7 ھ حضرت جعفر اور ابوموسی اشعری رضی اﷲ عنہم کا حبشہ سے خیبر پہنچنا۔
٭ صفر 7 ھ حضرت صفیہ کی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے شادی جس میں ان کی اسلام کے بعد آزادی، ان کا مہر قرارپائی۔
٭ صفر 7 ھ سلام بن مشکم کی بیوی زینب بنت حارث نے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو بھنی ہوئی بکری کا ہدیہ بھیجا جوکہ زہر آلود تھا،آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس سے ایک ٹکڑاچبایااور نگلنے کی بجائے تھوک دیااور فرمایاکہ یہ ہڈی مجھے بتارہی ہے کہ اس میں زہر ملایاگیاہے۔
٭ صفر 7 ھ اہل فدک سے نصف پیداوار پرمصالحت ہوئی۔
٭ صفر 7 ھ کو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم لشکر اسلام کے ہمراہ وادی القری تشریف لے گئے جوکہ ایک یہودی علاقہ تھاان کے ساتھ عرب بھی شامل ہوگئے، جب مسلمان وہاں اترے تو انہوں نے تیروں سے استقبال کیا، وہ پہلے ہی صف بندی کئے ہوئے تھے ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ایک غلام ماراگیا، جس نے غنیمت خیبر سے ایک چادر چرائی تھی، آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا’’وہ چادر اس پر آگ بن کر بھڑک رہی ہے۔‘‘اس کے بعد آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی جو انہوں نے نہ مانی مبارزت ہوئی جس میں ان کے گیارہ آدمی مارے گئے، جب ایک ماراجاتا آپ صلی اﷲ علیہ وسلم انہیں اسلام کی دعوت دیتے۔اس دن جب نماز کا وقت ہوتا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ نماز پڑھتے اور پھر دوبارہ یہودکے مقابلے میں چلے جاتے اسی طرح شام ہوگئی۔ دوسرے دن ابھی سورج نیزہ برابر بھی نہ ہواتھا کہ انہوں نے اپناتمام کچھ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے ڈھیر کردیا۔
٭ خیبر سے مدینہ واپسی بھی غالباً اسی صفر 7ھ کے آخر میں ہوئی۔
٭ صفر 8ھ میں سریہ غالب بن عبداﷲ پیش آیا۔
٭ صفر9 ھ : سریہ قطبہ بن عامر پیش آیا۔
٭ آخری فوجی مہم : آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کی آخری اور ایک بڑی فوجی مہم کی تیاری اسی مہینے میں کرائی جس کا سپہ سالار حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ تعالی عنہ کو مقررکیااور حکم دیاکہ بلقاء کا علاقہ اور داروم کی فلسطینی زمین سواروں کے ذریعہ روندآؤ۔

یہ سب جاننے کے بعد بھلا کون مْسلمان ایسا ہو گا جو اِس مہینے کو یا کِسی بھی مہینے کو منحوس جانے اور کوئی نیک کام کرنے سے خود کو روکے ، سطور گذشتہ میں ہم نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے کچھ واقعات پیش کیے ہیں جو صفر کے مہینہ میں پیش آئے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی عرض کی گئی کہ اس مہینہ کو منحوس سمجھنا محض جہالت اور دین سے دوری ہے۔ اس مہینہ کے ابتدئی دنوں کو تیرہ تیزی کا نام دینا، جنات کا آسمان سے نزول، اس ماہ میں شادی کی تقریبات منعقد نہ کرنا وغیرہ یہ سب توہمات ہیں جن کی ہمارے پاک اور مقدس دین میں کوئی گنجائش نہیں۔ اﷲ تعالی ہم سب کو سیرت نبوی کا مطالعہ کرنے ،اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق سے نوازیں۔اور اﷲ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور اْس پر عمل کرتے ہوئے ہمارے خاتمے فرمائے۔(آمین )
Amna Naseem
About the Author: Amna Naseem Read More Articles by Amna Naseem: 15 Articles with 16117 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.