وہ میٹر کیا ہوئے؟

حیرت اور شرارت سے بھرا بچپن بھی کیا دور ہوتا ہے، بھولتا ہی نہیں۔ اس دور کی جگمگ کرتی یادوں میں کچھ ایسے منظر بھی اپنی جھلک دکھلاتے ہیں جو جانے کہاں گُم ہوچکے ہیں۔ جیسے مجھے اپنا بچپن یاد آتا ہے تو یادوں کی اس قطار میں رکشے پر کیا جانے والا سفر بھی ہوتا ہے۔ بچپن میں رکشے اور ٹیکسی کے سفر میں ہمارے لیے ایک خاص کشش تھی۔ اپنے والد کے ساتھ کہیں جانے کے لیے ہم رکشے یا ٹیکسی پر بیٹھتے تو ہمارے بیٹھتے ہی ڈرائیور میٹر گھماتا اور پہیوں کے ساتھ میٹر بھی چلنا شروع ہوجاتا، جس کے بدلتے نمبر ہم بڑے تجسس سے دیکھا کرتے، اس حقیقت سے بے خبر کے یہ بڑھتے نمبر وہ کرایہ بڑھائے جارہے ہیں جو اس خوب صورت سفر کے اختتام پر ہمارے والد صاحب کو ادا کرنا ہے۔

اب سوچتی ہوں کہ بچپن تو جانا ہی تھا، چلا گیا، لیکن وہ میٹر کیا ہوئے جو ہر رکشے ہر ٹیکسی میں لگے ہوتے تھے اور کرائے کا انحصار انہی میٹروں پر ہوتا تھا۔

جب کچھ دنوں پہلے یہ خبر پڑھی کہ کراچی میں ٹریفک پولیس کی جانب سے خصوصی مہم شروع کی جارہی ہے، جس میں ٹیکسیوں میں میٹر کی چیکنگ کا عمل شروع کیا جائے گا اور خلاف ورزی کرنی والوں کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ترجمان ٹریفک پولیس کا کہنا ہے کہ ٹیکسیوں میں میٹر کی چیکنگ کا عمل ابھی شروع نہیں کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ اس سے قبل بھی جاری تھا۔ تاہم خصوصی مہم کے دوران ٹریفک پولیس کی تمام توجہ ٹیکسیوں پر مرکوز ہوگی کہ ان میں میٹر نصب ہیں یا نہیں۔ اس حوالے سے ٹریفک پولیس کی جانب سے شہر بھر میں15 مقامات پر ڈی ایس پی کی نگرانی میں ٹریفک افسران و اہلکار اس خصوصی مہم میں چیکنگ کا عمل جاری رکھیں گے۔

یہ خبر پڑھ کر دل خوش ہوگیا کہ ہماری ٹریفک پولیس کھوجانے والے میٹر واپس لے آئے، مگر ہمیں شہر کی سڑکوں پر ٹیکیساں اور رکشے تو چلتے نظر آئے، مگر ٹریفک پولیس کی خصوصی مہم اور میٹر کہیں دکھائی نہیں دیے۔ ویسے ٹریفک پولیس کے حکام سے یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ جناب! شہر میں چلتی ٹیکسیوں اور رکشوں سے میٹر تو نہ جانے کتنے سال قبل غائب ہوچکے ہیں، آپ کے ادارے کے اہل کاروں نے اتنے طویل عرصے میں میٹر کے بغیر چلنے والی کتنی ٹیکسیوں اور رکشوں کے چالان کیے؟ ان میں سے کتنوں کے ڈرائیوروں کو سزا ہوئی؟ یہ تو ایک مسلسل عمل ہے پھر اس کے لیے خصوصی مہم کیوں؟

میٹر ہی کیا پبلک ٹرانسپورٹ کا تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی بسیں، جن میں مسافر بھیڑ بکریوں کی طرح بھرے اور چھت تک پر سوار ہوتے ہیں، یہ بسیں سڑکوں پر چلتی نہیں سرکتی ہیں۔ کوئی ضروری نہیں کہ آپ جس بس پر بیٹھیں وہ آپ کو منزل تک پہنچائے، اگر مسافروں کی تعداد ڈرائیور اور کنڈیکٹر کی مطلوبہ تعداد سے کم ہے، تو یہ حضرات بس کی خرابی کا بہانہ کرکے یا کچھ بھی کہہ کر بس روکیں گے اور آپ کو اتار دیں گے۔ بس کسی کو بٹھانے کے لیے تو کہیں بھی روکی جاسکتی ہے لیکن مسافر کو چلتی بس ہی سے کود کر اترنا ہوگا، کیوں کہ ڈرائیور صاحب اسٹاپ پر بس باقاعدہ روک کر اپنا قیمتی وقت ضایع نہیں کرنا چاہتے۔ وہ جب وقت ضایع کرنا چاہیں گے تو کہیں بھی بس روک کر آرام سے بیٹھ جائیں گے اور مسافر سفر شروع کرنے کے لیے گڑگڑاتے رہیں گے، لیکن موصوف کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگے گی۔

اب آئیے ٹیکسیوں اور رکشوں کی طرف۔ بسوں کی صورت حال خاص طور پر ان کی سست رفتاری سے تنگ آجانے والے خواتین وحضرات کو اگر کہیں پہنچنے کی جلدی ہو تو وہ ٹیکسی یا رکشے کا سہارا لیتے ہیں۔ ایسے میں آپ کو چند کلومیٹر کا بھی وہ کرایہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کے ہوش اُڑجاتے ہیں۔ اکثر ایک جگہ کھڑی ٹیکسیوں اور رکشوں کا مختلف علاقوں کے لیے کرایہ یکساں ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ اس حوالے سے حکومت نے کوئی کرایہ نامہ جاری کیا ہے، جس کی یہ تابعدار حضرات مکمل پابندی کر رہے ہیں، مگر درحقیقت یہ ان کا ایکا ہوتا ہے۔ اسے آپ چھوٹی سی ’’کارٹیل‘‘ سمجھ لیں۔ آخر کئی رکشے یا ٹیکسیاں روک کر اور بڑی بحث وتکرار کے بعد آپ کرائے کی مد میں کچھ رقم کم کرانے میں کام یاب ہوجاتے ہیں، لیکن دراصل اب بھی آپ فاصلے کے اعتبار سے کہیں زیادہ رقم ادا کر رہے ہوتے ہیں، مگر مجبوری کا کیا جائے جائے۔ مختلف اشیاء کی قیمتیں ہوں، اسکولوں اور ڈاکٹروں کی فیسیں ہوں، سہولیات کے بل ہوں یا ٹرانسپورٹ کے کرائے، جہاں سے جو مانگا جائے ہم شہریوں کو ادا کرنا ہے، کیوں کہ ریاست کی طرف سے انھیں انھیں آزادی ہے کہ جتنے چاہیں نرخ، فیسیں اور کرائے وصول کریں اور بے یارومددگار عوام مجبور ہیں کہ ان کی مانگ پوری کریں۔

ٹرانسپورٹ کراچی کے عوام کا اہم ترین مسئلہ ہے، جس پر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں، کیوں کہ یہ وسائل سے محروم لوگوں کے مسئلہ ہے جن کے پاس اپنی ٹرانسپورٹ نہیں۔ جب اس شہر کی آبادی کم تھی تو یہاں ٹرانسپورٹ کی سہولتیں کہیں زیادہ تھیں۔ کبھی اس شہر میں ٹرام چلا کرتی تھی، یہ سلسلہ عشروں پہلے اختتام کو پہنچا، شہر بھر میں بچھی ریل پٹریوں پر لوکل ٹرینیں مسافروں کو ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں پہنچاتی تھیں، یہ ٹرینیں ریلوے کے مالی بحران کا شکار ہوکر عرصہ پہلے بند ہوگئیں، شہر قائد میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (کے ٹی سی) نام کا ایک ادارہ تھا، جس کی سفید اور آسمانی رنگوں سے رنگی بڑی بڑی بسیں پوری رفتار سے سڑکوں پر دوڑا کرتی تھیں، یہ ادارہ ختم ہوا اور اس کی بسیں نہ جانے کہاں گئیں، پھر گرین اور میٹرو کے نام سے سرکاری ٹرانسپورٹ شروع کی گئی، لیکن ان کا بھی وہی انجام ہوا۔ کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس شہر کی اہم ترین ضرورت اچھی ٹرانسپورٹ ہے وہاں اچھی ٹرانسپورٹ کے تمام سرکاری سروسز ناکامی سے دوچار ہوکر آخرکار بند ہوگئیں۔

اب صورت حال یہ ہے کہ شہر میں صرف نجی ٹرانسپورٹ چل رہی ہے، چاہے وہ بسیں ہوں یا ٹیکسیاں اور رکشے اور شہریوں سے من مانے کرائے وصول کیے جارہے ہیں۔ حکم راں دو کروڑ سے زاید آبادی والے اور گھنٹوں کی مسافت پر پھیلے اس شہر کو باسیوں کو ٹرانسپورٹ کی سرکاری سہولت دینے کو تیار نہیں۔ منصوبوں کے اعلان ہوتے ہیں، مگر ان پر عمل درآمد کا آغاز بھی نظر نہیں آتا۔ صاف لگتا ہے کہ مخصوص مافیا کے مفادات کے لیے شہریوں کو اچھی ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنے سے جان بوجھ کر اجتناب کیا جارہا ہے۔ چلیے صاحب! جس کے مفادات پورے کرنا ہوں کیجیے، مگر کم ازکم اتنا آپ کر ہی سکتے ہیں کہ شہر میں چلنے والی بسوں، ٹیکسیوں اور رکشوں کے لیے کوئی سسٹم بنادیں، بس مالکان کو مسافروں کے مفاد میں کچھ قواعد وضوابط کا پابند کردیں، ٹیکسیوں اور رکشوں کے لیے فاصلوں کے اعتبار سے کرائے مقرر کرکے ان پر عمل کروائیں۔ شہریوں کو کچھ تو احساس ہو کہ وہ بالکل ہی لاوارث نہیں، ان کے ملک اور صوبے میں کوئی حکومت بھی ہے جو ان کا تھوڑا بہت خیال رکھتی ہی ہے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283135 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.