پانی ایک عظیم نعمت

لکھنے کے لیے قلم اور کاغذ کا ہونا جیسے ضروری ہیں ا یسے ہی ان تینوں چیزوں کا رشتہ جوڑنے کے لیے کسی موضوع کا ہونا ضروری ہے میرے ذہن میں ویسے تو بہت موضوع آئے لیکن مجھ نا چیز کو کوئی فیصلہ کرتے وقت دل ودماغ دونوں کی سننی پڑتی ہیں میرے دل و دماغ نے موضوع ــ ـــــــؒؒــــ
ـــ’’نعمت‘‘ کو منتخب کیا آج یہ خیال وقت کی اہم ضرورت ہے اور اس تحریر کو پڑھنے والے خود سمجھ جائے گے کہ میرے دل و دماغ کی آواز کیا ہے ہمارا موضوع چونکہ’’ نعمت ‘‘ تھا تو لہذا نعمتوں کی طرف آتے ہے ویسے تو اﷲ تعالی نے امت محمدیہ کو کئی نعمتیں عطا کی ہمارا کھانا ـ،پینا ،اُوڑھنا یہ سب اﷲ تعالی کی نعمتوں میں سے ہے اس کریم ذات نے ہمیں کروڑوں نعمتیں عطا کی لیکن ہم قدر نہ کرنے والے لوگ ہمیشہ ان عظیم نعمتوں کو ضائع کرتے آ رہے ہے کئی ایسے بھی لوگ دیکھنے کو ملے جن کے پاس اﷲ کا دیا سب کچھ ہے لیکن نا شکرے بہت ہے اور کئی ایسے بھی دیکھے جن کے نصیب میں سو کھی روٹی کا ٹکڑا بمشکل ہوتا ہے لیکن وہ شکر ضرور کرتے ہیں چونکہ ہمارا موضوع نعمت تھا تو میرے دل و دماغ نے اﷲ تعالی کی بیشمار نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت ــ’’پانی‘‘ کو منتخب کیا آپ شش و پنج میں پڑ گئے ہو گے کہ بندہ نا چیز نے ڈھیر ساری نعمتوں میں سے پانی کو منتخب کیوں کیا ؟؟ آپ کے خیال کے مطابق پانی تو عام چیز ہے اور آپ نے کبھی پانی کی قدر بارے سو چا ہی نہیں ،،،، بلکہ قدر تو وہ لوگ کرتے ہیں جن کے لیئے پانی کا ایک ایک قطرہ قیمتی ہیں اس تحریر کا عنوان میرے دل و دماغ نے ’’پانی‘‘ اس لیئے رکھا کہ گزشتہ دنوں شہر ڈیرہ اسمعٰیل خان سے قریباً چالیس، پچاس کلو میٹر کی مسافت پر واقع تحصیل کلاچی میں جانا ہوا چونکہ کلاچی میں پہلی بار جانے کا موقع ملا تو بندہ نا چیز کی تفشیشی آنکھوں نے کئی انمول عکس محفوظ کیے ،، عصر کی نماز کا وقت ہو چکا تھا تفشیشی آنکھیں اس دوران مسجد کی تلاش میں تھی بلیک ٹاپ روڈ سے کچھ ہی فاصلے سے دور واقع ایک پٹرول پمپ پر مسجد دکھائی دی تو ہم نے رخ مسجد کی جانب کر لیا جیسے ہی مسجد میں داخل ہوئے تو معلوم ہوا کہ یہاں پانی کا بندوبست نہیں ہے دماغ میں کئی خیالات آنے لگے کہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے یا فنی خرابی کی وجہ سے پانی کا مسلۂ ہو ہم نے ہمت کی اور تھوڑا آگے بڑھ کر پٹرول پمپ عملے سے پانی کے نہ ہونے بارے سوال کیا تو معلوم ہوا صرف اس مسجد میں نہیں ، بلکہ آس پاس کے اکثر گاؤں پانی جیسی قدرتی نعمت سے محروم ہے یہ سنتے ہی ہمیں جھٹکہ سا محسوس ہوا ۔۔۔ اس دوران پمپ عملے کے ساتھ کافی گھل مل سے گئے جب کے ابھی بھی ہماری تفشیشی آنکھیں پانی کی تلاش میں تھی ہمارے دریافت کرنے پر اُن کا کہنا تھا کہ ہم پندرہ سے بیس دن بعد ہم پانی کا ٹینکر پیسوں کے عوض خریدتے ہیں کھانے، پینے، ودیگر ضرورتوں کے ساتھ ہمارا ایک ٹینکر سے بمشکل ہی گزارہ ہوتا ہے ہماری منت سماجت کے بعد عملہ کے فرد نے ایک سٹورروم کا اشارہ کیا کہ وہاں چلے جاؤ آپ کو پانی مل جائے گا اندر ٹینکی ہے اُ س میں سے کچھ پانی لے لو اندر جانے پر معلوم ہوا یہ سٹور روم نہیں بلکہ ڈرائنگ روم ہے حیرانی تو مجھے تب ہوئی جب ڈرائنگ روم کے کونے میں کھڑی غلاف سے لپٹی اس ٹینکی کو دیکھا بہرحال ہم نے وضو کر کے نماز پڑھی نماز سے فارغ ہو کر حیرت بھری نگاہوں سے آس پاس کے علاقوں کا جائزہ لیا چہل قدمی کے دوران کئی ایسے مناظر دیکھنے کو ملے جن کو دیکھ کر آنکھیں پھٹی رہ گئی ایک ہی تالاب میں سے جانوروں اور انسانوں کو پانی پیتا دیکھ کر آنکھیں نم سی ہو گئی کچھ لمحوں کے لیے آنکھیں بند کی تو ذہن میں کئی خیالات آنے لگے ،،،، حکومتیں کہاں گئی؟؟؟؟؟ کروڑوں کے فنڈ کہاں جاتے ہے ؟؟؟؟؟ تبدیلی کے بلندوبانگ دعوے کرنے والے کہاں گئے ؟؟؟؟؟ انہی خیالوں میں ایک خیال اپنی شہری زندگی پر آکر رک ہی گیا سوچ کی دنیا میں موجودگی کے دوران بندہ ناچیز نے یہ سوچا ہم لوگوں کو پانی مفت ملتا ہے اور ہم پانی کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں ،،،، کتنی حفاظت کرتے ہیں اس پانی کی ․․․ جب کہ ان کو پانی پیسوں کے عوض ملتا ہیں اور یہ لوگ پانی کے ایک ایک قطرہ کو قیمتی سمجھتے ہیں ․․․․․․ قارئین سے گزارش ہے کہ پانی جیسی عظیم نعمت کی قدر کریں جو کہ اس دور میں بھی کہیں مفت ملتا ہے توکہیں اس پانی کو محنت مزدوری کر کے حاصل کرنا پڑتا ہے (زندگی باقی ملاقات باقی)
Muhammad Muaaz
About the Author: Muhammad Muaaz Read More Articles by Muhammad Muaaz: 19 Articles with 15444 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.