چھت سے محروم دو لاکھ بچے

 وزیر اعظم نوازشریف ہیلی کاپٹر کے ذریعے اس علاقے کا فضائی نظارہ کر چکے ہیں ۔ ستمبر2014 میں دوبار اس علاقے سے ان کا گزر ہوا، ہوسکتا ہے انہیں پھر موقع ملے ۔آرٹ کے یہ شاہکار نمونے یقینا ان کی بھی نظروں سے گزرے ہوںگے۔ راولپنڈی اور راولاکوٹ کو ملانے والی شاہراہ غازی ملت پر سفر کرتے ہوئے ہر کوئی آرٹ کے ان شاہکار نمونوں کو ضرور دیکھتا ہے اور خاموشی کے ساتھ گزر جاتا ہے۔یہ نمونے8 اکتوبر 2005 کی تباہی کی یاد ضرور دلاتے ہیں مگر کسی کو کچھ کرنے کا حوصلہ نہیں دلاتے۔ شاہراہ غازی ملت پرراولا کوٹ شہر سے پانچ کلو میٹر دور راولپنڈی کی طرف آرٹ کا پہلا شاہکار نمونہ بوائز پرائمری سکول میرا کا ہے۔بنیادیں اور ادھوری دیواریں خود بتاتی ہیں کہ اس علاقے کے بچوں کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہوا ہے۔آٹھ کلو میٹر آگے گرلز پرائمری سکول میدان بھی ان شاہکار نمونوں میں سے ایک ہے ۔شاندار بنیاد،ادھوری دیواریں اور آدھا چھت بنے پانچ سال ہونے کو ہیں اس سے آگے کچھ ہوا اور نہ ہی کسی نے سوچنے کی کوشش کی۔یہی حال شاہراہ غازی ملت پر دس کلومیٹر آگے گرلز پرائمری سکول بن ناڑہ پھواڑی کا ہے۔تھوڑا سا آگے بڑھیں تو بوائز مڈل سکول ڈارگلہ کی عمارت بھی کچھ ایسی ہی تصویر پیش کرتی ہے۔یہ کہانی صرف ان چار سکولوں کی نہیں بلکہ مظفر آباد ،باغ اور راولا کوٹ کے ہزاروں سکولوں کی بھی ہے 8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کے نتیجہ میں ان چار سکولوں سمیت 2792 تعلیمی ادارے (یاست کے کل تعلیمی اداروں کا 35 فیصد حصہ) متاثر ہوئے تھے۔عالمی ادارے آئے پاکستان کے مالدار لوگوں نے اپنی دولت میں سے حصہ دیا جن کے پاس کچھ نہ تھا انہوں نے بھی اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی مگر صرف 1233 تعلیمی ادارے تعمیر نو کے نتیجہ میں قابل استعمال ہو سکے۔ان میں سے زیادہ تر عالمی اداروں نے غیر سرکاری اداروں کے تعاون سے از خود تعمیر کروائے۔جن چار سکولوں کا میں نے ذکر کیا ان کا کام شروع ہوا۔ٹھیکیدار کو پیسے ملے ،تعمیراتی سامان آیا۔آدھا کام ہوا اور پھر ٹھیکیدار عدم ادائیگی کے بہانے غائب ہو گئے۔میں جب بھی شاہراہ غازی ملت کے ذریعے راولپنڈی کے سفر پر ہوتا ہوں۔ان ادھوے تعلینی اداروں کے کھنڈرات میرا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں۔مقامی لوگ توجہ دلاتے ہیں،بات کرنا چاہتے ہیں۔اپنے بچوں کے لیے سکول ان کی ضرورت ہے۔اس سوال کا جواب کوئی نہیں دے رہا کہ ان سکولوں کے لیے جو رقم مختص ہوئی تھی وہ کہاں گئی اور اب ان سکولوں کا مستقبل کیا ہوگا؟۔دس سال ہونے کو ہیں 250 کلو واٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ سنبھل بانڈی مکمل نہیں ہو سکا۔حاجی یعقوب منصوبے کا افتتاح کرنے کے بعد اپنے نام والی تختی لگا کر شاید بھول گئے ہیں کہ چار مزدور آخر کیسے اس بڑے منصوبے کو مکمل کرسکیں گے۔ایس کے کاشرکا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔ کئی دنوں سے بار بار مجھ سے رابطہ کرکے 250 کلو واٹ ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے اس منصوبے کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔9 سال پہلے 8 اکتوبر 2005 کو تباہ کن زلزلے کے نتیجہ میں مظفر آباد،باغ اور راولا کوٹ آزاد کشمیر کے تین بڑے شہر بری طرح متاثر ہوئے تھے اگرچہ ان شہروں میں زندگی کی رونقیں پھر سے بحال ہو گئی ہیں مگر ان تین شہروں کی تعمیرنو نہ ہو سکی۔کس قدر بدقسمتی ہے کہ عالمی ڈونر ایجنسیوں نے نئے سرے سے تین بڑے شہر تعمیر کرنے کے لیے رقم بھی فراہم کر دی مگر کچھ بھی نہ ہو سکا۔پاکستان کے صحت افزا مقامات پر سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے اب سیاحوں کی ایک بڑی تعداد آزاد کشمیر کا رخ کر رہی ہے گزشتہ ایک سال کے دوران سات لاکھ سیاحوں نے مظفر آباد کا رخ کیا۔ ان میں زیادہ تر مظفر آباد کے راستے وادی نیلم گئے۔ اسی طرح راولا کوٹ میں بھی سال بھر سیاحوں کا رش رہتا ہے تعمیر نو کے منصوبوں کے تحت نئی سڑکیں بھی بنی تھیں مگر سیاحوں کو ان سڑکوں پر دھول اور مٹی کے سوا کچھ نہیں مل رہا۔پاکستانی سیاحوں کی ایک بڑی تعدادقراقرم ہائی وے کے ذریعے سیاحتی مقامات کا رخ کرتی رہی ہے ۔سوات اور دوسرے علاقوں میں بد امنی ،قراقرم ہائی وے پر سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے یہ ٹریفک اگرچہ کشمیر کی طرف منتقل ہو گئی ہے مگر اس ٹریفک کے لیے مناسب سہولتیں موجود نہیں ہیں۔8 اکتوبر 2005 کے زلزلے کے بعد ریاستی شہریوں کو پہلے سے زیادہ اچھی زندگی گزارنے کے لیے سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا مگر تعمیر نو کے ادھورے منصوبوں نے شہریوں کے اس خواب کو چکناچور کر دیا ہے۔مظفر آباد کا نیا شہر بنا اور نہ ہی راولا کوٹ میں نیا راولا کوٹ جنم لے سکا۔مظفر آباد ،باغ اور راولا کوٹ شہر نئے سرے سے تعمیر کرنے کے لیے بین الاقوامی ڈونرز مدد کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے ۔چین کے EXIM بینک نے ان شہروں کی تعمیر نو کے لیے اس شرط پر تین سو ملین ڈالر کی رقم دینے کا وعدہ کیا تھا کہ حکومت پاکستان منصوبوں کے لیے 53 ملین ڈالر کا اپنا حصہ ڈالے گی۔چائینز کمپنیوں نے وعدے کے مطابق کام شروع کیا مگر وعدہ کے مطابق حکومت پاکستان ان منصوبوں میں اپنا حصہ ڈالنے میں ناکام رہی چنانچہ چائینز کمپنیاں کام جاری نہ رکھ سکیں۔چائینز کمپنیوں نے اب تقریبا کام روک دیا ہے معاہدے کے تحت تین سو ملین ڈالر کا قرضہ دسمبر 31 ،2015 تک مل سکتا ہے مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ اس معاہدے میں حکومت پاکستان کو کوئی دلچسپی باقی نہیںرہی۔ حکومت پاکستان نے اپنے طور پر 827 منصوبوں کے لیے رقم مختص کی تھی مگر ان میں زیادہ تر تاحال نامکمل ہیں659 شلٹر سکولزکی تعمیر شروع ہی نہیں ہوسکی۔زلزلے سے متاثر ہونے والے 2792 تعلیمی اداروں میں سے صرف 1233 اداروں کی عمارتیں مکمل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ابھی بھی دو لاکھ سے زائد طلبہ وطالبات شلٹر سے محروم ہیں۔بات صرف وفاقی حکومت کی مالی اعانت کی نہیں،بہت سارے انتظامی، احتسابی، کام کرنے کی صلاحیت کے مسائل بھی ہیں۔آزاد کشمیر حکومت کا مالی انحصار وفاقی حکومت پر ہے مگر وفاقی حکومت کی مالی مدد بڑھنے کی بجائے کم ہوتی جا رہی ہے۔ آزاد کشمیر کا ترقیاتی بجٹ 2009-10 میں 10 ارب 80 کروڑ روپے تھا جبکہ 2013-14 میں ترقیاتی بجٹ کم ہو کر 10 ارب 50 کروڑ ارب روپے رہ گیا ہے،ہو سکتا ہے کہ آنے والے مالی سال میں یہ رقم اور کم ہو جائے۔ وفاقی حکومت ساتویں مالیاتی ایوارڈ کمیشن کے تحت آزاد کشمیر حکومت کی مدد کرنے سے انکاری ہے وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ آئینی طور پر آزاد کشمیر پاکستان کا حصہ نہیں ہے ۔18ویں ترمیم کے تحت پاکستان کی صوبائی حکومتوں کو مزید حقوق ملے ان کا مالیاتی نظام مزید مستحکم ہوا مگر آزاد کشمیر ان ثمرات سے محروم رہا چونکہ 18ویں ترمیم کا اطلاق آزاد کشمیر پر نہیں ہوتا۔اہم بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر میں اپنے طور پر وسائل پیدا کرنے کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے مگر اپنے طور پر وسائل پیدا کرنے کی بجائے ریاستی حکومت کا ہاتھ مدد کے لیے وفاق کی طرف ہی بڑھتا ہے۔ایک اندازے کے مطابق آزاد کشمیر میں 9 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کے لیے منصوبوں کی نشاندہی ہو چکی ہے مگر صرف 1142 میگا واٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے۔ صرف نیلم جہلم سے 969 میگا واٹ بجلی پیدا ہو گی۔ یہ منصوبہ تکمیل کے آخری مرحلے میں ہے ۔ بے شمار پرائیویٹ اور پبلک سیکٹر منصوبے رکے ہوئے ہیں۔ آزاد کشمیر حکومت میں حکومت پاکستان سے بہتر معاملات طے کرنے اور آزاد کشمیر میں مالیاتی معاملات شفاف رکھنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی طرح آزاد کشمیر حکومت کو منگلا ڈیم کی مناسب رائلٹی حاصل نہ ہو سکی۔آزاد کشمیر حکومت ہر معاملے کو سیاستی نکتہ نگاہ سے دیکھ رہی ہے۔مسلم لیگ(ن) ہو یا پیپلز پارٹی ان جماعتوں کی وفاق کے بارے میں پالیسی کئی طرح کے تضادات کا شکار ہے۔میاں محمد نواز شریف کی ہدایت پر چوہدری عبدالمجید کی حکومت کو عدم استحکام کا شکار کرنے یا اسے ختم کرنے کی پالیسی ختم ہوئی تو اسے نئی آکسیجن مل گئی۔ وفاقی حکومت کی آکسیجن سے زندہ رہنے والی حکومت وفاق سے حقوق کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔ چنانچہ چوہدری مجید وفاقی حکومت کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ ریاست کی تعمیر نو سے عدم دلچسپی سے حکومت کی کوئی ساکھ ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ لگتا ہے اس کی ریاست میں کوئی زمہ داری نہیں ذمہ داری صرف بلاول کے جلسے کرانا ، ہے ۔ایسے میں مالیاتی ایوارڈ میں آزاد کشمیر کی نمائندگی اور صوبوں کی طرح حقوق ملنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر بھی وفاقی حکومت سے ریاست سے لین دین میں پارٹی مفادات کو آگے رکھ کر ریاستی مفادات کونظر انداز کر رہی ہے ۔ان حالات میں شاہراہ غازی ملت پر یہ آرٹ کے نمونے بدلنے کا کوئی امکان باقی نہیں رہا ہے۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 50874 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More