جوناگڑھ!جو کبھی پاکستان کا حصہ تھا

9 نومبر:یوم سقوط جونا گڑھ کے حوالے سے خصوصی تحریر
یہ بات بھی یقیناً بحث طلب ہے کہ نواب آف جوناگڑھ نواب مہابت خانجی سر پر ایک خطر ناک دشمن کے سوار ہوتے ہوئے کیوں خوش فہمی کا شکار رہے۔ یہ بات بھی جواب طلب ہے کہ انہوں نے یہ بات کیوں اپنی ذہن میں بٹھائی کہ ریاستی افواج کسی بھی بیرونی مداخلت کی بھر پورجواب دے سکتی ہے۔ وہ اتنے بھولے کیسے بنے بیٹھے رہے کہ انہوں نے ریاست کے ان ہتھیاروں کو دشمن کے مقابلے کے لیے کافی سمجھ لیا ، جو کہ قطعاً بیرونی مداخلت روکنے کے لیے موزوں نہ تھے اور سب سے بڑھ کر وہ پاکستانی اتھارٹیز کو سب ٹھیک اور سب خیر ہے کی داستان کیوں سناتے رہے۔ یقیناً یہ ایسے امور ہے کہ جن پر بحث ہونی چاہیے اور خوب ہونی چاہیے، لیکن کیا کسی دوسرے ملک کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ ایسے حالات میں جارحیت کامظاہرہ کرتے ہوئے دوسروں کے علاقے پر بزور قوت اپنا تسلط جمائے؟ تو اس کا جواب ہوگا کہ ہرگز نہیں۔ بلکہ ایسا جارحیت جس ملک کی طرف سے بھی ہوگا وہ بلاشبہ قابل نفرت اور قابل مذمت اقدام تصور کیا جائے گا۔ لیکن انڈیا جو کہ خود کو سیکولرزم اور جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار ملک تصور کرتا ہے اس کے آگے ان باتوں کی سرے سے کوئی اہمیت ہی نہیں۔ بلکہ وہ ہر لمحے تاک میں رہتا ہے کہ کب کوئی ’’شکار‘‘ نظر آئے اور وہ جھٹ سے اس پر جھپٹ پڑے اور یہی کچھ اس نے پاکستانی ریاست جونا گڑھ کے ساتھ بھی کیا۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب بزرگان تحریک پاکستان کی قربانیاں رنگ لارہی تھیں اور تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مختلف ریاستوں کا الحاق پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ ہورہاتھا۔ جوناگڑھ بھی ایک ایسی ہی ریاست تھی جس نے بخوشی و رضا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا تھا۔ الحاق کے بعدبانی پاکستان محمد علی جناح نے 19 ستمبر1947کو پاکستان کی قانون سازاسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد پیش کی جو متفقہ طور پر منظور ہوئی اور یوں ریاست جوناگڑھ ہمارے وجود یعنی پاکستان کا حصہ بن گیا۔ چونکہ جوناگڑھ جغرافیائی لحاظ سے اہم ، قدرتی وسائل سے مالامال ، تاریخی لحاظ سے مسلمانوں کا ایک اہم ریاست اور آزادی کے وقت ہندوستان کے 562 ریاستوں میں چھٹی بڑی اور امیر ترین ریاست تھی لہٰذا س اہمیت کے پیش نظر انڈیا کے منہ سے رال ٹپکنے لگی تھی اور وہ تاک میں بیٹھا انتظار کرتا رہا کہ کب موقع ملے اور وہ اس اہم ریاست پر جھپٹ پڑے۔ ادھر چونکہ نواب آف جوناگڑھ مطمئن تھے کہ ریاستی مشینری کسی بھی مداخلت کا مقابلہ کرسکتی ہے۔ لہٰذا جب نواب مہابت خانجی کچھ ضروری امور پر قائد سے بات کرنے پاکستان آئے تو ان کی غیر موجودگی میں ہندوستان نے 9نومبر 1947 کو اپنی افواج جوناگڑھ میں داخل کراکر زبردستی اس کے اوپر قابض ہوگیا۔ انڈیا کے غاصبانہ قبضے کو چھڑانے کے لیے پاکستان نے اس وقت اقوام متحدہ سے رجوع کرلیا لیکن جلد ہی قائد دنیا سے رحلت فرماگئے اور یوں یہ اہم ترین مسئلہ بھی حالات کے گرد کے نیچے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔

آج اس اہم ریاست پر ہندوستان کے قابض ہوئے 68سال پورے ہوجائیں گے۔ لیکن آفسوس کے دنیا کے تمام ممالک میں تصفیئے اور مظلوم کو ان کا حق دلانے کے لیے وجود میں آنے والا ادارہ اقوام متحدہ مجرمانہ حد تک خاموش اور اپنی ذمہ داریوں سے بے پرواہ نظر آتا ہے۔ دوسری طرف صورت حال اس سے بھی باعث شرم ہے کیونکہ آج وطن عزیز کی اکثریت کو یہ بات معلوم ہی نہیں کہ جونا گڑھ بھی کبھی پاکستان کا حصہ تھا۔ عوام اس حوالے سے بے خبر کیوں رہے ؟ تو اس کا جواب میں یہی دوں گا کہ میڈٖیا اور حکومتوں کی غفلت کی وجہ سے ۔آج اہل وطن کی اکثریت کو معلوم ہی نہیں جوناگڑھ بھی کبھی پاکستان کا حصہ تھا بلکہ حکومت نے یہ کافی سمجھ لیا ہے اس دن کے حوالے سے جوناگڑھ ہاؤس کراچی میں جس تقریب کا انعقاد کیا جاتا ہے اس میں کسی نمائندے کو بھیجا جائے جو وہاں پر ہمدردی کے دو بول ،بول یہ سمجھتا ہے کہ اس نے حق ادا کرلیاجبکہ میڈیا اس تقریب کا کسی نہ کسی درجے میں کوریج کرکے یہ سمجھتا ہے کہ فرض اس نے بھی ادا کرلیا۔ حالانکہ حقیقت کی نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ تاحال دونوں اپنے فرائض منصبی سے غفلت کے مرتکب نظر آتے ہیں۔ کیونکہ یہ فرض اسی وقت ادا ہوہوسکتا ہے جب میڈیا عوام کو درست نقشہ دکھائے جبکہ حکومت وقت اقوام متحدہ سے ایک بار پھر رجوع کرلیں جہاں یہ کیس پہلے سے بھی پڑا ہوا ہے اور مجھے امید ہے کہ ایک نہ ایک دن ایسا ہوگا ضرور کیونکہ امید پر زندگی قائم ہے جبکہ ناامیدی کفر ہے۔
Saeed ullah Saeed
About the Author: Saeed ullah Saeed Read More Articles by Saeed ullah Saeed: 112 Articles with 106246 views سعیداللہ سعید کا تعلق ضلع بٹگرام کے گاوں سکرگاہ بالا سے ہے۔ موصوف اردو کالم نگار ہے اور پشتو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ مختلف قومی اخبارات اور نیوز ویب س.. View More