پچھتاوا

Mostly shadi ky baf larkiyan bs apny hsbnd ky sth hi loyal hoti hein... apny susraali man baap ko achoot samjhny lg jayi hn..lekin wo bhool jati hn k esa kr k wo apni jannat ko apny hathon se aag me jhonk rahi hn... phr pachtawa maqadder ho jata he.
"پتر شیشه کدهر رکها هے....؟؟" ابا جی سیدها اس کے کمرے میں چلے آۓ تهے ,,,ایک تو ان سے چلنا بهی مشکل هوگیا تها,لااٹهی پکڑ کر چلا کرتے تهے,,,,,اوپر سے جان لیوا گرمی نے ساری جان هی نکال دی تهی....لیکن اسماره کو ان کا زرا بهی احساس نه تها... "ابا جی کتنا اونچا بولتے هیں آپ........لے کے ساری نیند خراب کر چهوڑی......................" اسماره پتر شیشه دے دو چهوٹا,,,,سوچ رها هوں آج داڑهی خود هی تراش لوں,,,,,, حذیفه پتر کو تو اپنے کاموں سے فرصت نهیں,,,,,, "اتنی سی بات پوری کر که وه هانپنے لگے.... "اوهو ابا جی .....دیوار سے بڑا شیشه اتار لیں..."تیکهے لھجے میں کھا گیا جمله اباجی کے دل میں چبھ سا گیا...... "بڑا کیوں... بڑے سے کام نهیں چلتا..... چهوٹا ادهر میز پر پڑا رهتا تها ناں,,,,,,,هم .... پتا نهیں,,مییرے استعمال کرنے سے گهس نه جاۓ کھیں....." وه افسوس اور دکھ سے بهرے پرسوچ لھجے میں بولتے هوۓ باهر آگۓ................... "ماما جی ڈریسنگ ٹیبل پر هے ناں شیشه,,,,,کیوں نهیں دیا آپ نے؟" ننهے زارون کو بهی یه منظر شاید اچها نه لگا تها "وه گندا کر دیتے هیں ناں بیٹا بال هی بال لگا دیتے هیں شیشے پر" اسماره ناگواری اور تنفر سے بولی "تو ماما آپ صاف کر لیتی ناں ......کیا هوتا آپ ان کو دے دیتی " "تم نے دیکها نهیں ان کے بال کتنے گندے هوتے هیں؟ اور ویسے بهی تمهارا کیا کام هے بڑوں کی باتوں میں بولنے کا؟".ا س نے جهڑکی لگائ تو ننها زارون اپنا سا منه لیکر ره گیا......

"سنو اسماره....! ابا جی کو ٹائم پر کهانا دے دیا کرو...تمهیں پتا هے ناں ان سے بهوک برداشت نهیں هوتی"آج حذیفه نے محسوس کیا که ابا جی کا کهانا لیٹ هو جاتا هے روز,,,تو اس نے اسماره کو سمجهاتے هوۓ کھا.

"کھنے کی کیا ضرورت هے حذیفه.. مجهے پتا هے,,آج هی لیٹ هو گیا ورنه روز تو ٹاءم پر هی دیتی هوں,.........اور ویسے بهی وه میرے پاپا هی جیسے هیں میرے لیۓ.....میں خیال نهیں رکهوں گی ان کا تو کون رکهے گا..." حذیفه کا جی خوش هوگیا,,,,بیگم کی خدمت گذاری پر........

دوسرے دن کی بات هے که زارون اپنا هوم ورک کر رها تها,,,,,,,اسماره اپنے روم میں ٹی وی آن کیۓ اپنا فیورٹ شو دیکھنے میں مصروف تهی که ابا جی کی چیخ کی آواز بلند هوئ,,,,, "الله خیر" کهتے هوۓ اسماره دوڑتی هوئ ان کے کمرے میں آئ تو وه فرش پر اوندهے منه گر پڑے تهے. .. "ابا جی" اس نے ان کندهے سے پکڑ کر سیدها کیا .....ان کا چھره آنسوؤں سے تر تها...... لگتا تها کافی دیر سے روتے رهے هوں گے. اسماره کا دل ایکدم اداس هو گیا.....اس نے ابا جی کو پکڑ کر اٹهایا اور بیڈ پر لٹا دیا.....کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر ان کا سر دباتی رهی ,,,اور ساتھ ساتھ باتیں,,,,,جلد هی وه سو گۓ تو وه اٹھ کر واپس اپنے کمرے میں آگئ . یه نه تها که اسے ابا جی سے نفرت تهی...لیکن کبهی کبهار جب اس کا موڈ خراب هوتا تو اس وقت وه همیشه ان کو جهڑک دیا کرتی تهی.... اپنے جھیز کی کوئ چیز استعال کے لیۓ انهیں نه دیتی تهی .......... ایک اچهی عادت اس کی یه تهی که وه سچے دل ابا جی کی خدمت کرتی تهی... لیکن اس اچهائ کے باوجود اس نے جانتے بوجهتے کئ بار ابا جی کا دل دکهایا تها.

ابا جی کو آجکل بخار رهنے لگا تها,,,,بھت کمزور هو گۓ تهے,,,,اب تو چلنے پهرنے سے بهی قاصر هو گۓ,,,,اپنے کمرے میں هی پڑے رهتے,,,کهانا پانی وقت پر پھنچ جاتا ان کے پاس.....حذیفه بهی روزانه ان کو پاس بیٹهتا,... کبهی اپنے بچپن کے قصے چهیڑتا کبهی ابا جی سے ان کے نوجوانی کے قصے سننے کے لیۓ فرمائش کرتا....اسماره اور زارون بهی ساتھ هوتے,,,,,,,,,هنسنے کی بات پر ساتھ هنستے اور دکھ والی بات پر دکھی هو جاتے........ایسے میں اسماره نے کئ بار غور کیا که ابا جی اس وقت میں بھت خوش رهتے,,ان کا چھره چمک سا اٹهتا تها جب وه تینوں ابا جی کے روم میں رھتے........اسماره نے دل میں طے کر لیا ابا کے ٹهیک هونے کے بعد انهیں اپنے کمرے کے برابر والا کمره دے گی تا که وه دن بهر کی سرگرمیاں دیکھ کر اپنی دلجوئ کرتے رهیں....وه هفتے میں ایک بار ان کے پاؤں دهلاتی,ناخن تراشتی, ان کو صاف ستهرا رکهتی تهی,,,,,,,ابا جی بهی اپنی بھو سے اب خوش رھنے لگے تهے...

لیکن ایک دن وه هو گیا جو اس نے سوچا نه تها......انسان کو اپنی غلطیوں کی اصلاح کے لیۓ همیشه دوسرا چانس نهیں ملا کرتا,................ابا جی اسی مرض میں اس دنیا سے کوچ کر گۓ.......بے پناه درد سا رهنے لگا تها اس کے دل میں......جب ان کے خالی کمرے پر نظر جاتی تو رونے لگتی,,,,,,,اور جب کمره بند کر کے روتی تو گهنٹوں روتی جاتی.............حذیفه سے زیاده اسماره نے آنسو بھاۓ تهے ,,,,,,,وه شیشه آج بهی اس کے ڈریسنگ ٹیبل پر پڑ رهتا تها.......اس کا دل نهیں کرتا تها شیشے کو هاتھ لگانے کا......ابا جی کو گزرے ایک سال پورا هو گیا تها ..آج بهی جب اس کی نظر چهوٹے شیشے پر پڑتی هے تو اس کے دل پر زوردار گهونسا سا لگتا ........اسکی نظروں میں سال بهر پھلے کا منظر گهوم جاتا هے................احساس ندامت اور پچھتاوے نے اس کو آج بهی بے قرار کر رکها هے..

اهمیت چیزوں کی نهیں رشتوں کی هوتی هے...کھاوت تو یه هے که چیزیں آنی جانی شے هیں,,,آج هے تو کل نهیں,,,لیکن حقیقت اس کے برعکس هے,,, چیزیں تو برسوں تک ویسی کی ویسی رهتی هیں..انسان نهیں رهتے ...زندگی کا کوئ بهروسه نهیں,,کوئ گارنٹی نهیں... کاش اسماره بهی یه بات وقت رھتے سمجھ جاتی ,.... کاش کوئ بھو کبهی بهی اپنے ساس سسر کو جهڑکی نه دے.....کاش ............!!
Arshiya Hashmi
About the Author: Arshiya Hashmi Read More Articles by Arshiya Hashmi: 5 Articles with 5340 views میری چپ کو میری ہار مت سمجھنا...
میں اپنے فیصلے خدا پہ چھوڑ دیتی ہوں
.. View More