ایک سوال کا جواب مل گیا

وہ رات بہت بھیانک رات تھی۔ بھیانک راتیں تو میرے دیس میں بسنے والے تقریباً تمام ہی باسیوں پر گزری ہوگی اور جو محفوظ ہیں اﷲ رب العزت انھیں ایسی راتوں سے محفوظ رکھے۔ میری بیٹی کو ایک رات شدید سانس کا مسئلہ ہوگیا۔ دوا تو ہم کافی عرصے سے لے رہے تھے، لیکن وہ اثر ہی نہیں کر رہی تھی۔ ہم اس پریشانی میں جاگ رہے تھے کہ میں نے محسوس کیا کہ اسے سانس لینے میں بہت دشواری ہورہی ہے۔ ہم پریشان ہو کر اسے اپنے گھر کے قریب موجود ایک پرائیویٹ ہسپتال میں لے گئے۔ میرا گھر کراچی کے ایک گنجان علاقے میں ہے، جہاں ضروریاتِ زندگی کی تقریباً تمام ہی سہولیات بہت قریب میسر ہیں۔ سو میں مطمئن تھی کہ فوری طور پر ٹریٹمنٹ ہوجائے گی اور میری بیٹی کو آرام آجائے گا، لیکن ایسا نہ ہوا۔ اُس روز یہ حقیقت سامنے آئی کہ شہر میں کُھلنے والے بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال فقط او پی ڈی میں فیس بٹورنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ رات کے وقت دو چار نرسیں اور وارڈ بوائے ہی ہسپتال میں ہوتے ہیں اور سارا ہسپتال رات بھر ان نرسز، آر ایم اوز اور وارڈ بوائے کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔

ہمارے شورمچانے پر ایک ڈیوٹی ڈاکٹر آنکھوں میں نیند لیے برآمد ہوا، جس کا رویہ انتہائی غیرذمہ دارنہ تھا۔ بچی کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی۔ سو ہم نے بچی کو دوسرے ہسپتال لے جانے کا ارادہ کیا اور قریب ہی موجود ایک بہت مشہور سرکاری ہسپتال کا رُخ کیا۔ سرکاری ہسپتال ایک الگ منظر لیے ہوئے تھا۔ ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی لاشیں اپنے ورثاء کے انتظار میں رکھی ہوئی تھیں۔ خون کی بو سے ماحول میں وحشت رچی ہوئی تھی۔ ہم اپنی بچی کو اٹھائے ایمرجینسی کی طرف بھاگے، جہاں ایک نہایت تجربہ کار ڈاکٹر ڈیوٹی پر موجود تھا۔ اس نے فوری طور پر اور بہت اچھی طرح بچی کا چیک اپ کیا اور علاج شروع کردیا۔ ساتھ ہی ہمیں ادویات کی ایک لمبی فہرست تھمادی گئی اور ہم دوائیں لینے کے لیے میڈیکل اسٹور کی طرف بھاگے۔ سرکاری ہسپتال کا عملہ بہت اچھے طریقے سے اس ایمرجینسی سے نمٹ رہا تھا۔ دوائیں منگوائی جاتی رہیں اور ہم لاتے رہے۔ ایک گھنٹے بعد ڈاکٹر نے بتایا کے اب بچی خطرے سے باہر ہے۔
اﷲ کا شکر ہے کہ بچی صحت یاب ہوکر گھر آگئی۔ اس وقت تو میں صرف ایک ماں تھی، جس کے دل ودماغ کو صرف اس کی بیٹی کی تکلیف نے گرفت میں لیا ہوا تھا، لہٰذا کچھ اور سوچنے کا امکان ہی نہیں تھا، لیکن اس کرب ناک رات کے گزرجانے کے بعد ایک سوال میرے ذہن میں کلبلاتا رہا، ’’آخر سرکاری ہسپتال میں دوائیں کیوں نہیں تھیں کہ ہم پریشان اور کرب سے گزرتے ماں باپ کو آدھی رات کے اوقات میں بار بار میڈیکل اسٹورز کے چکر کاٹنا پڑے۔‘‘ ساتھ ہی میں سوچ رہی تھی کہ ہماری طرح روزانہ خاص طور پر ویران راتوں میں سرکاری اسپتالوں کا رخ کرنے والے کتنے ہی لوگ اس اذیت سے گزرتے ہوں گے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہوں گے جن کے پاس دوا خریدنے کے لیے رقم بھی نہیں ہوتی ہوگی․․․․۔ ان ساری سوچوں کا محور وہی ایک سوال تھا کہ سرکاری اسپتال دواؤں سے محروم کیوں؟ کیا یہاں دوائیں آتی ہی نہیں؟ ضرورت سے بہت کم آتی ہیں؟ اور ضرورت کے مطابق آتی ہیں تو پھر کہاں جاتی ہیں۔ یہ سوال بھی معاشرے، حالات اور سماج کے متعلق ایسے بہت سے سوالوں کے ہجوم میں کہیں گم ہوگیا تھا کہ خبر پڑھتے ہی اس بھولے ہوئے سوال کا جواب مل گیا اور مجھے وہ اذیت سے بھری رات یاد آگئی۔

خبر کے مطابق کمشنر کراچی کی ٹاسک فورس نے ادویات کی مارکیٹ میں چھاپا مار کر جناح ہسپتال سمیت دیگر سرکاری اسپتالوں کی دوائیں برآمد کرلیں، جن پر سرکاری مہر لگی ہوئی تھی۔ یہ دوائیں غریب مریضوں کو مفت دی جانی تھیں۔ چھاپے کے دوران ایک گودام کے مالک کو گرفتار کرلیا گیا اور زائدالمیعاد دوائیں قبضے میں لے لی گئیں۔ کئی دکانیں اور گودام سربہ مہر کردیے گئے۔

کمشنر کراچی کی ٹاسک فورس کی یہ کارروائی یقیناً قابل داد ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ صوبائی محکمۂ صحت کہاں سو رہا ہے۔ کیا یہ سب صورت حال اس کے حکام کے علم میں نہیں؟ یہ کارروائی معاملے کے صرف ایک فریق کے خلاف کی گئی ہے۔ اس حوالے سے تحقیقات ہونی چاہییں کہ سرکاری اسپتالوں کی ادویات اور صحت سے متعلق دیگر سامان مارکیٹ میں بکنے کے لیے کن ذرائع سے پہنچتا ہے۔ محکمۂ صحت اور سرکاری اسپتالوں میں موجود ان افسران اور اہل کاروں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے جو اس کالے دھندے میں ملوث ہیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔

سرکاری اسپتالوں کو دی جانے والی دواؤں کی مارکیٹ میں فروخت کا کالا بیوپار ایک ایسے ملک میں ہورہا ہے جہاں غریب افراد نجی اسپتالوں کا رخ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، ان اسپتالوں اور پرائیویٹ کلینکس چلانے والے ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں، مختلف نوعیت کے ٹیسٹوں کے اخراجات ادا کرکے اپنا اور اپنے اہل خانہ کا علاج کروانا کم آمدنی والے طبقے کے بس کی بات نہیں۔ لے دے کر غریب افراد کے لیے سرکاری اسپتال ہیں، جہاں انھیں دھکے کھاکر اپنا اور اپنے پیاروں کا علاج کروانا پڑتا ہے، لیکن ان اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ یہ خود بدعنوانی اور بدنظمی کے سرطان میں مبتلا ہوچکے ہیں، ایسے میں غریب طبقہ جائے تو کہاں جائے۔

موت تو خیر ہر ایک کا مقدر ہے لیکن کاش بیماریاں آمدنی اور جیب دیکھ کر جسموں میں سرایت کیا کرتیں تو پاکستان کا کوئی غریب بیمار نہ پڑتا۔ سرکار نے تو گویا ہر سہولت کی عملاً نجکاری کردی ہے، جس میں صحت کی سہولت کا شہریوں کے لیے اہم ترین شعبہ بھی شامل ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی تعداد اتنی کم ہے کہ بڑے سرکاری اسپتال مریضوں اور ان کے تیمارداروں سے ابلے پڑ رہے ہیں۔ وہاں کبھی کوئی مشین خراب ہے تو کبھی کوئی مشین ناکارہ، بیڈز کی کمی سے لے کر صفائی کے فقدان تک یہ ہسپتال کتنے ہی مسائل کا شکار ہیں۔ مگر اس سب کے باوجود غریب افراد کی صحت کا واحد وسیلہ یہی ادارے ہیں۔ ایسے میں انھیں اور ان کے توسط سے غریب مریضوں کو جو کچھ مل رہا ہے اسے تو نہ چھینا جائے۔ لیکن بے ضمیر افراد کے سینے میں دل کہاں ہوتا ہے۔ انھیں تو بس اپنے مفاد اور مال سے غرض ہے۔ سو ان کا اصول بس یہ ہے کہ جو ہاتھ آئے ’’بیچ دے۔‘‘

اس معاملے میں اب تک صرف دواؤں کے خریداروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے، ان کے گودام سیل کیے گئے ہیں اور ایک گودام کے مالک کو گرفتار کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سرکاری اسپتالوں کی دوائیں بیچنے والوں کے خلاف کارروائی کب ہوگی، اس دھندے کا دروازہ تو محکمہ صحت اور اسپتالوں میں کھلا ہے، یہ دروازہ بند نہ کیا گیا تو دوائیں خریدنے ہول سیلرز کے خلاف کسی کارروائی کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283148 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.