اقبال۔ ؔ تیری عظمت کو سلام

شاعر مشرق علامہ اقبال ؔ 9نومبر1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، اقبالؔ جنہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا، مسلمانوں میں بیداری پیدا کی، انہیں مسلم اتحاد کی اہمیت سے روشناس کرایا۔ اقبال کی شخصیت کے بے شمار پہلو ہیں، وہ شاعر ہیں، فلسفی ہیں، سیاسی رہبر ہیں، استاد ، نثر نگار، ماہر قانون الغرض بے شمار جہتیں ہیں ان کی شخصیت کی۔ ذیل میں اقبال کی شخصیت، نظریات و خیالات، شاعری و فلسفہ کے حوالے سے مختصر تحریر کیاگیا ہے۔ یہ مضمون علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے یوم پیدائش 9نومبر2015ء پر اقبال کو خراج تحسین پیش کرنے کی غرض سے تحریر کیا گیا۔

علامہ ڈاکٹر محمد اقبال

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
(9نومبر1877۔21اپریل 1938ء )

اقبال ؔ دنیائے عالم کی قدآور ، بلند و بالا اور عظیم شخصیت کا نام ہے۔ اقبال ؔ کی شاعری، نثر نگاری، سیاسی بصیرت، ریاست کا فلسفہ، نوجوانوں میں بیداری کا تصور، اسلام کے بہترین شارح ان کی ایسی منفرد خصوصیات ہیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ یہی صفات و امتیازی وصف انہیں دیگر سے ممتازکرتا ہے۔ شا عر مشرق نے پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں 9نومبر1877ء میں آنکھ کھولی ۔ ان کے والد شیخ نور محمد مذہبی انسان تھے معمولی تعلیم تھی، والدہ محترمہ امام بی بی خامو ش طبع اور نرم دل خاتون تھیں۔ ان کا انتقال 9نومبر 1914ء کو ہوا۔ان کے والد کا انتقال 1930ء میں ہوا۔ اقبالؔ نے اپنی ماں کے لیے اپنے احساساس اور جذبات کا اظہار اس طرح کیا ؂
یاد سے تیری دلِ درد آشنا معمور ہے
جیسے کعبہ میں دعاؤں سے فضا معمور ہے
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فروزاں ہو ترا!
نُور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو ترا !
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!
سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے !

اقبال کی تعلیم کا نقطہ آغاز دینی مدرسہ تھا، مولانا ابو عبداﷲ غلام حسن اور شیخ نور محمد سے کلام مجید پڑھا، پھر اقبال ؔ جدید تعلیم کے حصول کے لیے مولانا میر حسن کے سپرد کردیے گئے۔ مولانا میر حسن کے مکتب میں اقبالؔ نے اردو، فارسی اورعربی ادب پڑھنا شروع کیا۔ اب اقبال کو ’اسکاچ مِشن اسکول‘ میں داخل کر دیا گیا جہاں پر باقاعدہ جدید تعلیم کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اقبال ؔ کی تعلیم و تربیت میں میرحسن کی تربیت کا بہت بڑا دخل ہے جو سرسید احمد خان کے علم و عمل تعلیم کے حوالے سے جدید نظریات کے حامی بھی تھے۔استاد کے دل میں سرسید اور علی گڑھ تحریک کی جو قدر و عظمت تھی وہ شاگرد کے دل میں بھی پیدا ہوگئی ۔ سرسید کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت کا جذبہ بھی اقبال ؔ میں پیدا ہوچکا تھا۔ اقبالؔ نے 16برس کی عمر میں میٹرک پاس کرلیا،ساتھ ہی وہ خاندانی رسم و رواج کے مطابق دولھا بھی بن گئے اور ان کی شادی کریم بی بی سے انجام پائی، ان سے اقبال کے دو بچے ہوئے بیٹی معراج بی بی اور آفتاب اقبال۔انٹر گورنمنٹ مرے کالج سے کیا اور بی اے لاہور کے گورنمنٹ ڈگری کالج سے 1897ء میں کیا۔ اب اقبال شاعری کی جانب باقاعدہ راغب ہوچکے تھے۔ ان کے استاد میر حسن نے اقبال میں شعر و شاعری کا ذوق بھی پیدا کردیا تھا۔ فلسفہ میں ماسٹرز کیا ، یہاں سر تھامس آرنلڈ ان کے استاد تھے۔ماسٹرز کرنے کے بعد اقبال نے تدریس کا پیشہ اختیار کیا پہلے اورینٹل کالج لاہور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی اور فلسفہ کے استاد رہے۔ 1905ء تک اقبال ؔ تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ پھر ٹرینٹی کالج کیمرج میں تعلیم حاصل کی، جہاں پر انہیں پروفیسر براؤن اور سارلی کی سرپرستی ملی اور انہوں نے ان دونوں اساتذہ سے فیض حاصل کیا، اسی دوران اقبال ؔ جرمنی چلے گئے وہاں انہوں نے میونخ یونیورسٹی اپنے تحقیقی مقالے’’ایران میں مابعد از طبعیات کا ارتقاء‘‘ کے موضوع پر مقابلہ لکھا جس پر وہ پی ایچ ڈی کی ڈگری سے فیض یاب ہوئے۔1908ء میں برطانیہ کے کالج’ لنکز اِن‘ سے بیرسٹری کا امتحان پاس کیا ۔ لندن یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر ہوگئے ، جہاں ان کے سینئر پروفیسر ڈاکٹر آرنلڈ تھے۔لندن میں قیام مختصر رہا جلد ووطن واپس آگئے اور وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔

1910ء میں علامہ ا قبال کا عقد ثانی سردار بیگم سے ہوا ان کے بطن سے جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال 5 اکتوبر 1924ء کوپید ہوئے۔ جسٹس جاوید اقبال شاعر مشرق کی بڑھاپے کی اولاد تھے، ساتھ ہی مرادوں اور منتوں کے نتیجے میں انہیں ملے تھے۔ اولادِ نرینہ کی خواہش لیے علامہ اقبال سرہند تشریف لے گئے اور شیخ احمد (حضرت مجدد الف ثانی) کے مزار پرمنت مانی، یہ بھی التجا کی اگر ان کی مراد پوری ہوئی اور اﷲ پاک نے انہیں بیٹا عطا کیا تو وہ اسے لے کر اسی جگہ حاضر ہوں گے۔کہتے ہیں انسان کی زندگی میں بعض گھڑیاں قبولیت کی ہوتی ہیں۔ اﷲ نے ان کی دعا قبول کی اورجاوید اقبال کی صورت میں بیٹا عطا کردیا تو علامہ اپنے اس بیٹے کو سرہند مجدد الف ثانی کے مزار پر لے کر گئے، اس واقعہ کا ذکر جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی کتاب’زندہ رُود‘ میں کیا ہے۔ یہ کتاب علامہ اقبال کے حالات زندگی پر ایک مستند تحقیقی تصنیف تصور کی جاتی ہے۔ شاید اسی وجہ سے جاوید علامہ اقبال کے چھیتے اور لاڈلے بھی تھے۔علامہ اقبال کا انتقال ہوا تو جاوید اقبال 13برس کے تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹے قمر الا سلام کو ’جاویداقبال ‘ بنا دیا اوروہ ہمیشہ کے لیے زندہ و جاوید کر دیا۔اپنے چہیتے بیٹے کے لیے علا مہ اقبالؔ نے ایسی نظم کہی جو بظاہر توخطاب جاوید اقبال سے تھا لیکن یہ خطاب محض جاوید اقبال سے نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کے نوجوانوں سے ہے۔ علامہ نے اپنے فرزند جاوید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا ؂
دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر
مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

اقبال کی شاعری محض انسانی عمل نہیں بلکہ اس میں ان کے اندر موجود شاعر کی آواز محسوس ہوتی ہے وہ بنیادی طور پر ایک شاعر اور فلسفی پیدا ہوئے ۔ ’مخزن‘ کے سابق مدیر شیخ عبدالقادر نے لکھا کہ ’غالبؔ اور اقبالؔ میں بہت سی باتیں مشترک ہیں ۔ اگر میں تناسخ کا قائل ہوتا تو ضرور کہتا کہ مرزا اسد اﷲ خان غالبؔ کو اُردو اور فارسی کی شاعری سے جو عشق تھا ، اس نے اُن کی روح کو عدم میں جاکر بھی چین نہ لینے دیا اور مجبور کیا کہ وہ پھر کسی جسد خاکی میں جلووہ افروز ہوکر شاعری کے چمن کی آبیاری کرے‘ اور اُس نے پنجاب کے ایک گوشے میں جسے سیالکوٹ کہتے ہیں‘ دوبارہ جنم لیا اور محمد اقبال نام پایا‘۔اقبال ؔ نے غالبؔ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے غالبؔ کو جرمن شاعر ’گوئٹے‘کا ہم منصب قرار دیا۔ بانگِ درا میں اقبال ؔ نے’ مرزا غالب ‘ؔ کے عنوان سے نظم کہی جو غالب ؔ کو خراج تحسین بھی ہے اور اسی نظم کے ایک شعر میں اقبالؔ نے غالبؔ کو جرمن شاعر ’گوئٹے‘ کا ہم نوا قرار دیا اور جرمنی کے اس شہر کا ذکر کیا جہاں گوئٹے دفن ہے۔ اقبال ؔ کی اس نظم کے چند اشعار ؂
فکرِ انسان پر تری ہستی سے یہ روشن ہوا
ہے پر ِ مرغِ تخیل کی رسائی تا کُجا
تھا سراپا روح تُو ، بزم سخن پیکر ترا
زیبِ محفل بھی رہا ، محفل سے پنہا بھی رہا
آہ ! تُو اُجڑی ہوئی دلی میں آرامیدہ ہے
گلشنِ ویمرمیں تیرا ہم نوا خوابیدہ ہے
دفن تجھ میں کوئی فخرِ روزگار ایسا بھی ہے
تجھ میں پنہا کوئی موتی آب دار ایسا بھی ہے

’ویمر‘ جرمنی کا وہ شہر ہے جس میں معروف جرمن شاعر ’گوئٹے ‘مدفن ہے۔ اردو زبان کو غالبؔ کے ساتھ ساتھ شاعر مشرق علامہ اقبالؔ پر بھی فخر ہے۔ اقبال ؔان شاعروں میں سے ہیں کہ جنہوں نے شاعری برائے شاعری نہیں کی بلکہ ان کی شاعری میں فلسفہ و حکمت کے مشکل و پیچیدہ اور خشک مسائل کو اشعار کا جامہ پہنا یا گیا ہے۔ اقبال کا اردو کلام بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ پہلے شروع ہوتا ہے۔ اقبال ؔ کی شاعری محض شعر و سخن کا شاہکا ر ہی نہیں بلکہ یہ انسانی زندگی کو درست سمت لے جانے، اسے جھنجوڑ نے کا خوبصورت ذریعہ ہے۔ اقبالؔ نے قدیم و مشکل اصطلاحات و تلمیحات کے لب و لہجہ کو صحیح رخ میں ڈھالا۔ اقبال کی بعض بعض نظمیں اقبال ؔ کے فلسفہ حیات کی آئینہ دار ہیں ان میں ’ساقی نامہ‘ اور’ مسجد قرطبہ‘ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کے بقول ’اقبالؔشاعری میں موضوعات کے اعتبار سے تنوع، وسعت اور ہمہ گیری ہے لیکن وہ بنیادی طور پر عظمت انسانی اورانسانیت کے شاعر ہیں۔ ان کے تمام افکار و خیالات اسی انسان اور انسانیت کے مختلف انفرادی اور اجتماعی معاملات و مسائل کے گرد گھومتے ہیں‘۔ برصغیر پاک و ہند کا کوئی شاعر ، ادیب، فلسفی، دانشور،علم و حکمت رکھنے والا کوئی شخص ایسا ہوگا جس نے اقبالؔ کو خوبصورت الفاظ میں خراج عقیدت پیش نہ کیا ہو۔ اقبال ؔ کے بے شمار اشعار ضرب المثال ہیں۔

بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبد الحق کا کہنا تھا کہ’’علامہ اقبال کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین شُعراء اور مفکرین میں کیا جاتا ہے ۔ اُن کی حیات ہی میں انہیں ’شاعر مشرق‘ کہا جانے لگا‘‘۔ای ایم فاسٹر کا کہنا ہے کہ’’یہ بھی ہمارے شہنشاہانہ طرزِ حکومت کا ایک کرشمہ ہے کہ اقبال جیسا شاعرِ جس کا نام گزشتہ دس برس سے اُس کے ہم وطن مسلمانانِ ہند میں بچے بچے کی زبان پرہے، اُس کے کلام کا ترجمہ اس قدر عرصے کے بعد جاکر ہماری زبان میں ہوسکے ۔ ہندُؤوں میں جو مرتبہ ٹیگور کو حاصل ہے‘ وہی مسلمانوں میں اقبالؔ کو ہے اور زیادہ صحیح طور پر ہے‘ اس لیے کہ ٹیگور کو بنگال سے باہر اس وقت تک کسی نے نہ پوچھا جب تک وہ یورپ جاکر نوبل پرائز نہ حاصل کر لائے۔بر خلاف اس کے اقبال ؔ ؔکی شہرت یورپ کی اِعانت سے بالکل مُسَتثنیٰ ہے‘‘۔مصر کے ڈاکٹر عبد لوہاب عزام نے اقبال کو رومی قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ ’’اگر جلال الدین رومی ؒ اس زمانے میں جی اُٹھیں تو وہ محمد اقبال ہی ہوں گے۔ ساتویں صدی کے جلا ل اور چودھویں صدی کے اقبال کو ایک ہی سمجھنا چاہیے‘‘۔

کیمبرج یونیورسٹی میں اقبال کے استاد پروفیسر نکلسن جنہوں نے اقبالؔ کی مشہور زمانہ فارسی نظم’’اسرارِ خودی‘‘ کا انگریزی ترجمہ کر کے اور اس پر دیباچہ و حواشی لکھ کر یورپ اور امریکہ کو اقبالؔ سے رُوشناس کرایا ۔ نکلسن کا کہنا ہے کہ ’’اقبالؔ کی شاعری نے نوجوان مسلمانوں میں بیداری پیدا کردی ہے اور بعض نے یہاں تک کہہ گیا کہ جس مسیحا کا انتظار تھا وہ آگیا ہے‘‘۔

اقبالؔ وہ نابغۂ روزگار تھے جن کی علمی و ادبی و ساسی فکر نے برصغیر کے مسلمانوں میں زندگی کی ایک نئی روح پھونکی، ان میں ملی خودداری کو اجاگر کیا،مسلمانوں کو خود شناسی کا سبق سکھانے کے لیے فکری جہاد کیا۔ تصور پاکستان کا خواب دیکھا اس کا اظہار آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس الہٰ آباد منعقدہ 29دسمبر 1930ء کے صدارتی خطبہ میں کیا۔ اقبالؔ کا یہ خطبۂ الہٰ آباد‘ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ خطبہ اقبالؔ کا فکری اور ادبی شاہکار ہے ۔ اس خطبہ میں ملی تشخص کی عالمانہ تشریح ملتی ہے ۔ اس خطبہ کو تحریک پاکستان کی تاریخ میں سنگِ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ علامہ کی اس سوچ نے مسلمانوں کے لیے ایک مسلم ریاست کے قیام کی سمت کا تعین کردیا۔ مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کا خواب دیکھنے والے علامہ اقبالؔ تھے اور اس خواب کی عملی تعبیر پیش کرنے والے ، اسے حقیت کا روپ دینے والے قائد اعظم محمد علی جناح تھے۔جناح کا اقبالؔ کے بارے میں کہنا تھا کہ ’’اقبالؔ کی ادبی شخصیت عالمگیر ہے۔ وہ بڑے ادیب ‘ بلند پایہ شاعر اور مفکرِ اعظم تھے، لیکن اس حقیقت کو میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک بہت بڑے سیاستدان بھی تھے۔۔مرحوم دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اس زمانے میں اقبال ؒ سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا ۔ مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ ان کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا مجھے موقع مل چکا ہے۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا‘‘۔قراردادِ پاکستان منطور ہونے پر بانی پاکستان قائد اعظم نے کہا ’آج اقبال زندہ ہوتے تو کتنے خوش ہوتے‘۔ پاکستان معرضِ وجود میں نہیں آیا تھا اس کی جدوجہد جاری تھی۔ اقبال ؔ اس دنیا سے رخصت ہوچکے تھے تو قائد اعظم نے کہا ’’میرے پاس سلطنت نہیں ہے ، لیکن اگر سلطنت مل جائے اور اقبال اور سلطنت میں سے کسی ایک کو منتخب کرنے کی نوبت آئے تو میں اقبال کو منتخب کروں گا‘‘۔اقبالؔ کا کردار عملی سیاست میں بھی دکھا ئی دیتا ہے وہ 1926ء میں پنجا ب اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ 1930ء میں خطبہ الہٰ آباد تاریخی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے جو انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے 21 ویں سالانہ اجلاس کے موقعے پر صدر کی حیثیت سے دیا اور پاکستان کے نظریہ کی وضاحت زیادہ واضح الفاظ میں پیش کی۔

اقبال ؔ،داغ ؔ دہلوی کے برائے راست شاگرد نہیں تھے لیکن خط و کتابت کے ذریعہ اقبالؔ نے داغؔ سے رہنمائی لی جس کی وہ دل سے قدر کیا کرتے تھے۔داغؔ کا کہناتھا کہ ’’کلامِ اقبال میں اصلاح کی گنجائش بہت کم ہے ‘‘۔ داغؔ کو اس بات پر فخر تھا کہ’’ اقبالؔ بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے کلام کی انہوں نے اصلاح کی‘‘۔داغؔ اور اقبالؔ کے مابین سلسلہ تلمذبہت دیر قائم نہیں رہا۔ لیکن اقبال ؔ کے دل میں داغؔ سے مختصر اور غائبانہ تعلق کی بھی قدر تھی۔ اور داغؔ نے بھی اقبال ؔ کے کلام میں اصلاح کی گنجائش نہ سمجھا۔بھارت کے رابندر ناتھ ٹیگورنے اقبال کے انتقال پر کہا ’’ڈاکٹر اقبال اپنی وفات سے ہمارے ادَب میں ایسی جگہ خالی کرگئے ہیں‘ جس کا گھاؤ مُدتِ مدِید میں بھی بھر نہیں ہوسکتا۔ ہندوستا کا رُتبہ آج دُنیا میں اِتنا کم پایہ ہے کہ ہم کِسی حالت میں اَیسے شاعر کی کمی برداشت نہیں کر سکتے ، جِن کے کلام نے عالمگیر مقبوُلیت حاصل کر لی ہو‘‘۔

علامہ اقبال کی پہلی اردو میں کتاب ’علم الا قتصاد‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔ان کے شعری مجموعوں میں بانگِ درا، بالِ جبریل، ضرب کلیم، ارمغانِ حجاز، زبور عجم، جاوید نامہ، اسلام اور جمہوریت، تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ قابل ذکر ہیں۔فارسی میں اقبال کی تین کتابیں ’اسرار خودی‘، ’رموزِ بے خودی‘ اور ’پیام مشرق‘ شامل ہیں۔اقبال کو1922 ء میں برطانیہ کی جانب سے ’سر ‘ کا خطاب ملا، انہیں ’’ترجمانِ حقیقت‘‘ کا لقب بھی سے بھی نوازا گیا۔ اقبالؔ کی تمام تر کتب فارسی، اردو اور انگریزی ایسی ہیں کہ ہر ایک پر طویل لکھا جاسکتا ہے، یہی نہیں بلکہ اقبالؔکی بعض بعض نظموں میں ایک ایک شعر اور ایک ایک مصرع ایسا ہے کہ اس پر ایک مستقل مضمون تحریر کیا جاسکتا ہے۔ بچوں کے لیے اقبال ؔ کی لکھی گئیں نظمیں اپنی مثال آپ ہیں، اس قدر آسان الفاظ، عام فہم ، بہ معنی، دلچسپ کے بچے بہت دلچسپی سے انہیں پڑھا کرتے ہیں۔ دعا ’لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری، زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری‘ ایک ایسی دعا ہے کی جس کی مثال نہیں ملتی۔

علامہ اقبال کو اپنی طویل علالت کے باعث احساس ہوچلا تھا کہ اب وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں گے۔ اس وقت آپ کو سب سے زیادہ فکر اپنی لائبریری کی ہوئی جس میں نایاب و نادر کتب بڑی تعداد میں محفوظ تھیں۔ چنانچہ آپ نے 13اکتوبر 1935ء میں اپنا وصیت نامہ تحریر کرایا۔ اس وصیت نامہ کے مطابق اپنی ذاتی لائبریری کی تمام کتابیں انجمن حمایت اسلام کے کالج ’اسلامیہ کالج‘ لاہور کی لائبریری کو بطور تحفہ دینے کی وصیت کی۔ علامہ کی وصیت کے مطابق آپ کی ذاتی لائبریری کا ذخیرہ کتب اسلامیہ کالج کی لائبریری کو دیا گیا ۔ اس ذخیرہ کو لائبریری میں ’اقبال کلیکشن ‘ کے نام سے علیحدہ رکھا گیا۔ شاعر مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال 21اپریل 1938ء کو رضائے الٰہی سے مالک حقیقی سے جا ملے، لاہور کی بادشاہی مسجد کے اساسی دروازے کے باہر دائیں جانب مدفن ہوئے۔ اقبالؔ کے شعر پر اختتام کرتا ہوں ؂
لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1284454 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More