باباے اردومولوی عبدالحق کا اسلوبِ نگارش

مولوی عبدالحق کے دل میں کام کرنے کی لگن، پابندیٔ وقت کا خیال، نفاست پسندی کا رجحان، اعلان حقِ میں بے باکی اور جرأت کی خُو، یہ سب سرسید ہی کی صحبت کا فیض تھا۔ مولوی عبدالحق نے جس ادبی فضامیں آنکھ کھولی اُس فضامیں سرسید احمدخاں، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی ذکاء اﷲدہلوی، ڈپٹی نذیر احمد، الطاف حسین حالی اورمولانا شبلی نعمانی ادب کے آسمان پر جگمگا رہے تھے۔
کسی بھی مصنف کا اسلوب اُس کے خیالات اور جذبات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔اسلوب ہی سے اُس کی شخصیت کاپتا چلتاہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اسلوب ہی شخصیت کا دوسرا رخ ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص کا ادبی اظہاراُس کے اسلوب کے ذریعے ہوتا ہے۔جس طرح انسان سوچتا، سمجھتا اور پسند ناپسند کا اظہار کرتا ہے،یہ اظہارکسی مصنف یا فن کارکی فنی،تحقیقی، تخلیقی مزاج میں اس کے تغیر، افکار اور انقلابات کا پتادیتا ہے جو اُس کے اسلوب سے عیاں ہوتاہے۔انسان کی تعمیری شخصیت میں فطری رجحان اور صلاحیت کی اہمیت سے کسی کو بھی انکار نہیں۔ اُن صلاحیتوں کو اجاگر کرنے میں ماحول اور تربیت کا بڑاحصّہ ہوتا ہے۔ زندگی کے ابتدائی تأثّرات انسانی مزاج میں رچے بسے ہوتے ہیں جو رفتہ رفتہ اس کی طبیعت اور مزاج کا جزو بن جاتے ہیں،یہ تأثّرات بھی شخصیت کی تعمیر میں بنیادی کردار اداکرتے ہیں۔

اگر ہم باباے اردو مولوی عبدالحق کی تصنیفات کا جائزہ لیں تواُن کے اسلوب سے اُن کی شخصیت کو سمجھنے میں بڑی مددملتی ہے ۔ مولوی عبدالحق نے جہاں سے تعلیم حاصل کی وہ سرسید احمد خاں جیسے بڑے آدمی کا ادارہ تھا۔باباے اردو مولوی عبدالحق نے سرسیدجیسے عظیم انسان کواُٹھتے بیٹھتے، لکھتے پڑھتے اور دل سوزی سے کام کرتے دیکھا تھا۔ کس طرح ممکن تھاکہ مولوی عبدالحق سرسیدکے کردار کا اثر نہ لیتے۔ نوجوان عبدالحق کے دل میں کام کرنے کی لگن، پابندیٔ وقت کا خیال، نفاست پسندی کا رجحان، اعلان حقِ میں بے باکی اور جرأت کی خُو، یہ سب سرسید ہی کی صحبت کا فیض تھا۔ مولوی عبدالحق نے جس ادبی فضامیں آنکھ کھولی اُس فضامیں سرسید احمدخاں، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی ذکاء اﷲدہلوی، ڈپٹی نذیر احمد، الطاف حسین حالی اورمولانا شبلی نعمانی ادب کے آسمان پر جگمگا رہے تھے۔

مولوی عبدالحق نہایت سادہ مزاج، صاف باطن اور بلند اخلاق انسان تھے۔ اُن کی سیرت وکردار میں سرسید اور حالی کے فکروعمل کی گہری چھاپ موجودہے۔اس کے لیے کسی خارجی ثبوت کی ضرورت نہیں ، مولوی عبدالحق نے خود اپنی تحریروں میں بار بار اِس بات کا برملا اعتراف کیا ہے کہ وہ سرسید اور حالی سے بے حد متاثر ہیں اور اُن کے سامنے یہ دونوں شخصیتیں مثالی کردار کی حامل ہیں اوراِن میں غیرمعمولی کشش اور دلچسپی کا سامان موجودہے۔ مولوی عبدالحق نے اپنی زندگی اور فکروعمل کی جہت اِنھیں شخصیتوں کے مشنری جذبے سے متاثر ہوکر متعین کی اور بقولِ ڈاکٹر عبادت بریلوی:
اردو ان کی دنیا ہے، اردو ان کی زندگی ہے، اردو ان کا نصب العین ہے اور ان کا نظریۂ حیات ہے اور یہ جذبہ اور لگن، ناقابلِ شکست عزم اور بے پایاں خلوص اور زبردست ریاض اُنھیں سرسید اور حالی کے جوشِ عمل سے حاصل ہوا، جسے اُنھوں نے اِن دونوں صاحبوں کے قریب رہ کے دیکھا تھا۔

جہاں تک اسلوب نگارش کا تعلق ہے یہ بات محتاجِ ثبوت نہیں کہ مولوی عبدالحق کے اسلوب میں دبستانِ سرسید کے رنگِ تحریر کا حسین ترین روپ نظر آتا ہے۔ اُنھوں نے سرسید کے نظریۂ اسلوب کی سب سے زیادہ پیروی کی ہے اور اِس میں سب سے زیادہ کامیاب بھی ہوئے۔ مولوی عبدالحق کے کردار اور ذہنی ساخت کی تشکیل میں سرسید کے قول و فعل نے سب سے زیادہ حصّہ لیا اور ان کو اس قابل بنایا کہ وہ اس خواب کی تعبیر کرسکیں جو سرسید نے معیاری انشاپردازی کے متعلق دیکھا تھا۔

مولوی عبدالحق نے زندگی میں بڑے بڑے کام کیے۔ علمی، تعلیمی، ادبی ہر قسم کی خدمات سے ان کے کارناموں کی فہرست مزیّن ہے۔ ان میں سے ہر کارنامہ قابلِ توجہ اور قابلِ ذکر ہے اور ہر ادبی خدمت اپنی جگہ لائقِ صدہزار ستائش، مگربہت کم لوگوں نے یہ سوچا ہوگا کہ ان کا اہم ترین ادبی کارنامہ ان کا وہ صاف ستھرا اور نکھرا ہوا اسلوبِ بیاں ہے جس میں عام، مگر فصیح بول چال اور تجربات یوں شیروشکرہیں کہ ہم ان کی تحریروں کو حقیقی سادگی اور فطرت کا پیکر کہہ سکتے ہیں اور یہ ایسی سادگی ہے کہ جو دبستانِ سرسید کے کسی دوسرے فرد کے یہاں نہیں ملتی۔

مولوی عبدالحق نے سادگی کو ایک آرٹ بنایا اور یہ آرٹ کسی دوسرے انشاپرداز کے یہاں نہیں ملتا۔ یہ آرٹ ان کے ہاں ہر موضوع کی تحریروں میں نمایاں ہے۔کانفرنسوں کے خطبات، ریڈیو کی تقاریر، اخباروں کے مضامین، کتابوں کے مقدّمات اور تحقیقی مضامین سب میں یکساں شان کے ساتھ ان کا یہ آرٹ دلوں کو لبھاتا اور روحوں کو تازگی اور شگفتگی بخشتا ہے۔

مولوی عبدالحق کی تحریر کا خوش گوار سکون ان کی عبارتوں کا لطف انگیز عنصر ہے، کیوں کہ یہ سکون ضعف وبے دلی کا نتیجہ نہیں۔ ان کے ہاں تو بڑی توانائی اور غیرمعمولی قوت ہے جو ان کی توانا شخصیت اور پُرزور منطق سے ابھرتی ہے۔یہ حقیقت ہے کہ عبدالحق کی عقلی گرفت ان کی جذباتی گرفت سے کم مضبوط نہیں۔ ان کی منطق ہر جگہ بڑی زوردار اور قوی ہوتی ہے اور ان کی سب تحریریں تعقل کے مربوط سلسلے کی پابند ہیں۔ وہ خیالات مرتّب کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ وہ مرتّب خیالات کے ڈھانچے تیار کرکے اس عمدگی سے مجموعی مضمون میں کھپادیتے ہیں کہ پورا مضمون ایک ڈھلی ڈھلائی شے معلوم ہوتا ہے، ساتھ ہی سادگی اور دل چسپی بھی حسن افزا ثابت ہوتی ہے۔ منطق اور سہولت کا یہ امتزاج جو مولوی عبدالحق کے یہاں ہے، دوسرے کسی ادیب کے ہاں اس کی مثالیں کم ہی نظر آتی ہیں۔

مولوی عبدالحق کی آواز میں مردانہ بے خوفی اور صاف گوئی شامل ہے۔مولوی عبدالحق میں خلوص اور سچائی کی ایسی تاثیر ہے جو ان کی سخت بات کو بھی بھلی بنادیتی ہے۔ ان کی تحریر کو پڑھ کر دل کو خوشی اور دماغ کو اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ مولوی عبدالحق نے ایک لفظ بھی تفریحِ طبع کے لیے نہیں لکھا۔ ان کی ہر تحریر کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد اور جذبہ کارفرما ہے۔ ان کی زندگی ایک مشن رہی ہے، اس لیے ان کا اسلوبِ بیاں ان کے رجحانات کے مطابق ڈھلتاچلاگیاہے۔ مولوی عبدالحق کی نثرکی سب سے بڑی خصوصیت دوٹوک بیان اور قطعیت ہے۔’’ خطباتِ عبدالحق‘‘ ان کا بڑا مقبول مجموعۂ نثر ہے۔اِن خطبات میں مولوی عبدالحق کی نثر کی اصلی شان ظاہر ہوتی ہے، کیوں کہ ان خطبات میں جہاں مولوی صاحب کے ذہن اور دماغ کو منطق و استدلال اور دلائل وبراہین کا زور صَرف کرنا پڑا۔ وہاں ان کے دلی جذبات اور شخصی تمکنت کو بھی بروے کار آنے کا پورا پورا موقع ملا۔ گویا اِن خطبات میں مولوی عبدالحق کی پوری شخصیت جلوہ فگن ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر نقّادخطباتِ عبدالحق کو مولوی صاحب کی نثرکاصحیح نمائندہ گردانتے ہیں۔ اِن خطبات میں کمالِ سادگی بھی ہے اور وسعتِ نظر اور ہمہ گیری بھی۔ خطبات کے علاوہ مولوی عبدالحق کا ایک وہ رنگ بھی ہے جو ان کے تحقیقی مقدّمات میں ہمیں نظرآتا ہے ۔

مولوی عبدالحق نے سرسید اور حالی کی آنکھیں دیکھی تھیں، ان کے دلوں کی دھڑکنیں سنی تھیں اوراپنے عظیم مشن میں ان کا استغراق اور لگن دیکھی تھی اور اس مشن کی تکمیل کے لیے ان کے درد اور تڑپ کو محسوس کیا تھا۔انھی وجوہ سے مولوی عبدالحق ان دونوں شخصیتوں کے گرویدہ و مدّاح تھے۔ سرسید اور الطاف حسین حالی کے دیگر فیوض کے علاوہ ان کے نثری اسلوب کا اثر بھی فطری طور پر عبدالحق نے قبول کیا۔اُن کی شخصیت میں جذبات واحساسات کا جو شعلہ بھڑک اٹھنے کے لیے بے تاب تھا وہ ذوقِ نمو کے ہاتھوں ان کی تحریر کی سادگی، سلاست، روانی اور صفائی میں رنگِ آتش بکھیر کر رہا اورمولوی عبدالحق کی شخصیت کے عناصر ترکیبی ان کے اسلوبِ نگارش کے بھی عناصرِ ترکیبی بن گئے۔ ان کی نثر میں ایک دل موہ لینے والی کیفیت پیداہوتی ہے جواُنھیں ایک زندہ اور فعال شخصیت بنا دیتی ہے۔ مولوی عبدالحق کا اسلوبِ نثر ان کا اپنا اسلوب ہے جس میں ان کی شخصیت اپنی تمام ترخصوصیات کے ساتھ سموئی ہوئی نظر آتی ہے۔ بلاشبہہ مولوی عبدالحق ایک صاحبِ طرز انشا پرداز تھے۔ وہ اس طرح لکھتے ہیں کہ ان کے اسلوب کے سامنے موضوع کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ صحیح، صاف، سادہ، دل نشین اور سنجیدہ نثر لکھنے کا جو انداز مولوی عبدالحق نے ایجاد کیا، وہ اردو کی معیاری تحقیق، تاریخ، سیرت نگاری، تمام اصنافِ نثر کے مزاج سے ہم آہنگ ہے۔

مولوی عبدالحق بے مثل نثرنگار تھے۔ انھوں نے مروّجہ علوم وفنون کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا، ان کا قلم سیاسیات، تاریخ، سوانح، تنقید، تحقیق، تبصرہ نگاری، لسانیات، مقدمات، تعارف، غرض ہرمیدان میں اپنا جوہر دکھاتا رہا۔ ان کی نثرمیں محاورات کا استعمال برمحل ہوتاہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے ابلاغِ مطالب و مفہوم کی نرالی شان لیے ہوئے ہیں۔ روزمرّہ کی صفائی وشانِ دل رُبائی سے مزیّن، بھاشا کے عمدہ الفاظ نگینے کی طرح جڑے ہوئے، عربی،فارسی اور انگریزی الفاظ کا بے جااستعمال مفقود، کوئی سا بھی موضوع ہو، قلم کی روش متوازن ومعتدل ہوتی ہے۔ سادگی کے متعلق مولوی عبدالحق کا بیان ملاحظہ ہو:
جس کا علم ادھورا ہوتا ہے وہ کبھی اپنے خیالات صفائی اور خوبی سے ادا نہیں کرسکتا۔ تحریر اور تقریر کا مقصد ہوتا ہے کہ لوگ اُسے سمجھیں اُس کے اثر کو قبول کریں اور لطف اُٹھائیں۔ اگر یہ نہیں تو تحریر یا تقریر محض بے کار ہے، تضیعِ اوقات ہے۔ اثر رنگین عبارت، مقفیٰ ومسجع جملوں، تشبیہوں اور استعاروں کے ایچ پیچ سے نہیں پیدا ہوتا۔

مولوی عبدالحق نے ہمیشہ اسی اصول کو پیشِ نظر رکھا۔ڈاکٹر ثمینہ شوکت مولوی عبدالحق کے اسلوب کے بارے میں لکھتی ہیں:
مولوی صاحب کے اسلوب کا جب ہم تجزیہ کرتے ہیں تو جو چیز سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے وہ عربی فارسی کے ادق الفاظ سے حتیّ الامکان احتراز ہے اس کے مقابلے میں عام بول چال کی زبان کے عناصر ان کے یہاں زیادہ ہوتے ہیں۔ خوبی دراصل ان کے استعمالِ الفاظ، جملوں کے دروبست اور کہیں کہیں شگفتہ ترکیبوں کے استعمال سے پیدا ہوتی ہے... ان کا جمالِ ذوق جب بلند ہوتا ہے تو وہ الفاظ اور ترکیبوں کو بڑے شاطرانہ انداز میں برت جاتے ہیں۔ اس طرح ان کی سادگی میں پُرکاری اور پُرکاری میں سلاست، سلاست میں رنگینی و بے تکلفّی اور بے تکلفّی میں ایک رکھ رکھاو پیدا ہوجاتا ہے۔ دراصل یہی مواقع ہوتے ہیں جب قلم پر اُن کا قابو، بیان پر اُن کی دست رس اور خوش گفتاری میں ان کی طبیعت کا رچاو نمایاں ہوجاتا ہے، یہی درحقیقت مولوی عبدالحق صاحب کی تحریر کا جادو ہے۔

مولوی عبدالحق نے جس موضوع پر قلم اُٹھایا اس کے لیے ان کی معلومات کا خزانہ وسیع ہوتا تھا۔ ان کے مقدمات ہوں یا خطبات، تنقیدات ہوں یا انشایئے کسی بھی میدان میں ان کے قلم کی روانی سست نہیں ہوئی اور ان کی طبیعت کی جولانی میں فرق نہیں آیا۔ وہ اپنے مسائل کا واضح شعوررکھتے تھے، یہی دراصل مولوی عبدالحق کے اسلوب کی انفرادی خاصیت ہے۔اُن کے لکھے ہوئے مقدّمات کو دیکھ کر ان کے نکتہ رس دماغ اور اُن کی باریک بیں نظر کا قائل ہونا پڑتا ہے۔مولوی عبدالحق کے مقدمات ان کی ساری ادبی تصانیف میں نمایاں ہیں، مولوی صاحب کی تحریر کے ایک ایک خم اور ایک ایک خط سے اردو زبان وادب کے لیے ان کا خلوص نمایاں ہے۔ زبان و ادب کے پائیدار اقدار کی حفاظت اور نگہداری میں بے قرار ہوکربے اختیار لکھتے ہیں، چناں چہ پارینہ تذکروں کے ڈھیرسارے اوراقِ پریشاں کی شیرازہ بندی اردو کے سلسلے میں ان کے اسی احساسِ نگہداری کو ظاہر کرتی ہے۔

انھیں مقدمات میں ان کا وہ تنقیدی شعور بھی نہایت واضح ہوتا ہے جس سے ان کی تحریر کا رنگ چوکھا ہوگیا ہے۔ شروع سے آخر تک ایسا سیدھا،سادہ اور رواں اسلوب اختیار کیا ہے جو کبھی اصطلاحات کے پیچ وخم میں نہیں اُلجھتا، بے تکلفی اور بے ساختگی میں وہ کبھی انگریزی استعمال کرجاتے ہیں، مثلاً سوشیل ریفارم، سلف ہلپ، ہیئرکٹنگ سیلونوں، بیوٹی کلچر وغیرہ۔ بعض وقت ان کی تحریروں کے خدوخال پر سرسید اور حالی کا دھوکا ہوتا ہے، ان کے قلم کی کرشمہ سازیاں یہیں ختم نہیں ہوتیں وہ بول چال کے بعض مخصوص الفاظ کو بھی ادبی معیار بخش دیتے ہیں، مثال کے طور پر چھچھورے، کٹ حجت اور بہرا پتھر وغیرہ جیسے الفاظ جو اُن کے بعد سے اب تک ادبی اغراض کے لیے کبھی استعمال نہیں ہوئے اور شایدآئندہ بھی استعمال نہ ہوں، مولوی عبدالحق کی تحریروں میں بندھنے کے بعد ایک مزہ دیتے ہیں۔

مولوی عبدالحق نے زبان وادب کے مسائل کے متعلق بڑے غوروفکر کے بعد اپنے مطالعے کی روشنی میں خلوصِ دل سے لکھا ہے۔ مختلف موضوعات پر ان کی تحریروں میں ان کی قدآور شخصیت کا جمال، جلال، ذہانت، انسانی عظمت، قابلیت، مطالعے کی وسعت، علم کی تڑپ، عمیق مشاہدہ اور اردو ادب و زبان کی ترویج و ترقی کے عزائم جیسے عناصرخلوص اور صداقت کے ساتھ تشکیل پاکر ان کے اسلوب کو منفرد بناتے ہیں۔

ان کی ساری زندگی اس صدی کی لسانی، ادبی اور تحقیقی جدوجہد سے عبارت ہے، اردو کی بقا کے لیے جہاد اور اسے دنیا کی ترقی یافتہ زبانوں کے ہم پلّہ بنانے اور اسے نقطۂ عروج تک پہنچانے کا عزم اُن کی زندگی کا محور رہا ہے۔ وہ بڑے انہماک اور والہانہ انداز سے اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے کوشاں رہے۔ وہ اپنی منزل کے حصول کے لیے تنِ تنہا بھی مصروفِ کار رہے اور اپنے ہم عصروں کو بھی قدم سے قدم ملا کر چلنے کا حوصلہ دیتے رہے، انھوں نے اردو کی ترویج و ترقی کے لیے اپنی ذات کو وقف کردیاتھا۔

وہ صحیح معنوں میں اعلیٰ درجے کے قلم کار تھے، انھوں نے کبھی صاحبِ طرزانشاپرداز بننے کی شعوری کوشش نہیں کی بلکہ اپنے احساسات، جذبات اور تاثرات کو زبان کے مادّی پیکر میں ظاہر کرنے کی کوشش اس انداز میں کرتے رہے کہ ان کی تحریروں میں انشاپردازی کا حسن خودبہ خود چھلکنے لگا، انھوں نے ایک ایسے اسلوبِ نگارش کو پروان چڑھایا جس کے وہ خود موجد تھے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مولوی عبدالحق کا اسلوبِ نثر بہت آگے کی چیز ہے۔ اُنھوں نے اِس اسلوبِ نگارش کو اپنی معراج تک پہنچایا۔

کتابیات
(۱)باباے اردومولوی عبدالحق حیات اور اسلوب۔ محمد رضی راہی، ادارۂ مجلسِ ادبیاتِ پاکستان، کراچی، ۱۹۹۹ء
(۲) اردو میں جدیدنثرنگاری کا ارتقا۔ پروفیسر محمد ارشدکیانی، علمی کتب خانہ، لاہور
(۳) مطالعہ عبدالحق۔ سیّد قدرت نقوی، انجمن ترقّی اردو پاکستان، بار اوّل ۱۹۹۷ء
(۴) نقدِ عبدالحق۔ سید معین الرحمن، نذر سنز، لاہور، بار اوّل ۱۹۶۸ء
(۵) فرموداتِ عبدالحق۔ سیّد معین الرحمن، نذر سنز، لاہور، بار اوّل ۱۹۷۸ء
(۶) ذکرِ عبدالحق۔ سیّدمعین الرحمن، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور، بار اوّل ۱۹۷۵ء
(۷) باباے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق فن اور شخصیت۔ ڈاکٹر سیّد معراج نیر، ابلاغ، لاہور، بار اوّل ۱۹۹۵ء
(۸)ماہ نامہ ’’قومی زبان‘‘۔کراچی، ’’باباے اردو نمبر‘‘، اگست ۱۹۶۸ء
 
صابر عدنانی
About the Author: صابر عدنانی Read More Articles by صابر عدنانی: 34 Articles with 79633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.