معاشرئے میں جھوٹ کی وبا

 جھوٹ ایک ایسا لفظ ہے۔ جسے لوگوں نے اپنی سیڑھی بنا لیا ہے۔کسی نے کوئی بھی کام کرنا ہو تو جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔اور حلال روزی کو خود ہی حرام روزی میں بدل دیتا ہے۔وہ رشوت لینا شروع کر دیتا ہے۔جھوٹ بولنا آج کے زمانے میں بہت عام ہو چکا ہے۔ہر کوئی جھوٹ کا سہارا لیتا ہے۔ کیا قائدِاعظم نے جھوٹ کی بنا پر پاکستان آزاد کروایا تھا۔کیا جھوٹ کی بنا پر اسلام پھیلایا گیا تھا ۔اور بے شک خدا سچائی کے ساتھ ہے۔اور جھوٹ بولنے والے پر خدا کی لعنت ہوتی ہے۔جھوٹ سے فساد پیدا ہوتا ہے ۔اور بے شک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔جو صبر کا ساتھ نہیں لیتا وہ پھر جھوٹ کو اپناتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امیر امیر تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔جھوٹ کا سہاارا لے کر اور پیسہ لگا کر ڈگریاں حاصل کر لیتا ہے۔اور غریب کا بچہ تعلیم حاصل کر کے بھی بے روزگار رہتا ہے۔کیونکہ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں وہاں ڈگری دیکھنے سے پہلے اِس کی سماجی حثیت کو دیکھا جاتا ہے۔ لوگ جھوٹ کے سہارے ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں ۔اور جھوٹ ایک فساد کی طرح پھیلتا چلا جا رہا ہے۔ایک جھوٹ کے پیچھے انسان نہ جانے کتنے جھوٹ اور بولنا پڑتے ہیں۔ہمارے پیارے رسول ﷺ اﷲ کے آخری نبی جھوٹ کو سخت نا پسند کرتے تھے۔اور اُن کے اُمتی ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم جھوٹ جیسی لعنت کو اپنے دلوں میں سے نکال باہرپھینکیں۔پھر ہی ہماری پہچان مومنوں میں ہو گی۔کافر کی تو پہچان ہی یہی ہے کہ وہ بات بات پر جھوٹ بولتا ہے ۔اور انسان کسی سے جھوٹ بولنے سے پہلے اپنے آپ سے جھوٹ بولتا ہے۔سب سے پہلے اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے۔اور وہ اپنے آپ سے ہی غافل ہوتا چلا جاتا ہے۔ حضرت اقبالؒ نے فرمایا تھا کہ غافل نہ ہو خودی سے کر اپنی پاسبانی ۔شاید کسی حرم کا تو بھی ہے آستانہ، اے لا الہ کے وارث باقی نہیں ہے تجھ میں گفتارِ دل برانہ کردارِ قا ہِرانہ ۔تاریخ بھی یہ بتاتی ہے۔کہ جب ایک شخص اپنی بُرائی والی زندگی سے پریشان ہو گیا تو وہ حضورﷺ کے پاس اپنی پریشانی لے کر گیا تو آپﷺ نے صرف اتنا ہی فرمایا تھا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو۔تو اس بات سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ جتنی بھی پریشانیاں ہو جتنے بھی دکھ ہوں انہیں صرف دو چیزیں ہی ختم کر سکتی ہیں ۔جھوٹ بولنا چھوڑ دیا جائے۔ اِسی سے انسان برائیوں سے بچا رہتا ہے۔جھوٹ بولنا ایسی بُری عادت ہے۔جس کو ہمیشہ سے گناہ سمجھا گیا ہے۔اور ہر معاشرے میں اسے ایک بہت بڑا اخلاقی جرم بھی کہا گیا مگر پھر بھی لوگ جھوٹ بولتے ہیں ۔بعض اوقات پڑھے لکھے لوگ بھی اس جرم کے مرتکب ہو جاتے ہیں ۔اور ایسے بات کہہ دیتے ہیں جو حقیقت پر مبنی نہ ہو۔لوگ اپنی کسی کمزوری کو چھپانے کے لیے یا سزا سے بچنے کے لیے جھوٹ بول دیتے ہیں۔جھوٹ انسان کی شحصیت پر ایک بد نما داغ ہے۔حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا کہ سچ بولنا نیکی ہے۔اور نیکی جنت میں لے کر جاتی ہے۔اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے۔اور فسق و فجور دوزخ میں لے کر جاتا ہے۔یہ بات سچ ہے کہ جھوٹ بول کر جیت جانے سے بہتر ہے کہ سچ بول کر ہار جاؤ۔حضرت عبداﷲ ؓبن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے۔یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ کہ یکم اپریل کو ہم لوگ جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہے۔ اپرے فول مناتے ہیں۔اور اُس پر خوشی بھی مناتے ہیں ۔آج کے دور میں ہر کام جھوٹ کے سہارے کیا جا رہا ہے۔جھوٹ ہماری خوراک کی طرح بن چکا ہے۔کہ جھوٹ نہ بولا جائے تو دن نہیں گزرتا ۔جب بچوں کہ سامنے کوئی جھوٹ بولتا ہے تو بچوں پر بُرا اثر پڑتا ہے۔جس کی وجہ سے وہ بھی اس لعنت کا شکار ہو جاتے ہیں ۔اور ایک وقت آتا ہے وہ بھی جھوٹ کو ہر کام کرنے کی سیڑھی بنا لیتے ہیں ۔اور ان کے گناہوں کے پلڑے بھاری ہوتے جاتے ہیں ۔ اس جھوٹ کی لعنت کو ہمیں مٹانا ہو گا پھر ہی ہم اس فخر کہ قابل ہو سکے گے کہ ہم حضور ﷺ کے امتی ہیں ۔
 
Huzaifa Ashraf
About the Author: Huzaifa Ashraf Read More Articles by Huzaifa Ashraf: 28 Articles with 38626 views صاحبزادہ حزیفہ اشرف کا تعلق لاہور کے ایک علمی وروحانی حاندان سے ہے۔ حزیفہ اشرف14اکتوبر1999کو پیدا ہوئے۔حزیفہ اشرف کے والد قانون دان میاں محمد اشرف عاص.. View More