ڈرلگ رہا ہے

شایدکسی کواندازہ نہیں لیکن جن کووہ نظر عطاہوئی ہے جس کے بارے میں سیدالانبیاء ۖ نے فرمایا''مومن کی فراست سے ڈرو،اس لئے کہ وہ اللہ کے نورسے دیکھ رہاہوتاہے'' ان کے دن بے چین اورراتیں روروکرگزررہی ہیں۔ دعاکے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں تو ہچکی بندھ جاتی ہے،آنسو رکنے کانام نہیں لیتے لیکن ایک ہی دعا ان کے لبوں پرہے کہ ہمیں اپنے غیض وغضب سے بچا ہماری سالوں کی خاموشی پرہماری گرفت مت کرنا۔ہمیں ہمارے حکمرانوں کی مصلحتوں اورمجبوریوں کی مزاحمت دینا۔ ایک ایسے ہی صاحب نظر کی دعامیں شریک ہوا۔ آنسوؤں اور ہچکیوں سے ان کا برا حال تھا، ذراحالت سنبھلی توپوچھاہم سے ایسا کیاقصور ہوگیا۔فرمایا اس قوم نے تواپنے قصور کی تلافی کی کوشش کرلی تھی۔ اس مالک کائنات کوبتادیاتھاکہ اے اللہ!ہم اپنی حالت بدلناچاہتے ہیں اورجب کوئی قوم اپنی حالت بدلنے کے لئے بے تاب ہوجائے اللہ کافرمان ہے کہ وہ ان کی حالت ضروربدلتا ہے۔ اب اگران کی اس بے تابی،بے چینی اوراضطراب کے ساتھ ،ان کے جذبے اورامید کے ساتھ کھیل کھیلاجانے لگے توپھراس کاغیض وغضب امڈ آتاہے۔ پھر ان کاچہرہ متغیر ہوگیا۔

کہنے لگے یوں لگتاہے بہت سے سروں میں غرورکی فصلیں پک چکی ہیں، بہت سے دلوں میں ناسورپھیل چکاہے۔ فصلیں کٹتی ہیں توسب زمین پرآگرتا ہے۔ گیہوں کے ساتھ گھن بھی ۔ ناسورکاٹ کرپھینکنا ہوتوکتنے صحیح سالم جسم کے حصے بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ اللہ ان لوگوں کوہدایت دے ۔ورنہ خلق خدا کابہت نقصان ہو جائے گا۔ پریشانی میں ایک اورصاحب نظر کی خدمت میں جا نکلا کہ تسلی کے دوبول میسر آجائیں لیکن یہ کیا … کہنے لگے جنگ ہے،صف بندی ہورہی ہے۔ میں نے پوچھاجنگ توجاری ہے۔ کہاابھی توفساد ہے۔جنگ ہوئی توایک ایک محلے میں تین تین گروہ آپس میں لڑیں گے۔ میں نے پوچھا آپ نے کہاتھا الیکشن کے بعددل کوسکون آگیاتھالیکن لفظ بھیانک ذہن سے نہیں نکل رہا ۔ کہنے لگے ہاں جنگ ہے۔ خوف کے عالم میں صرف رحمن ورحیم کی بارگاہ نظر آئی،سربسجود ہوا لیکن سکون میسرنہ ہو سکا۔ایسے لگتاہے جیسے آپریشن ٹھہرگیاہے۔ مریض اب دوائیوں سے سنبھل نہیں پارہا۔اس کی زندگی بچاناہے تو … پھراس کے بعدسوچنے کی تاب تھی نہ بات کرنے کاحوصلہ۔ قوموں کی تاریخیں آنکھوں کے سامنے گھوم رہی تھیں۔ کوفہ کی مسجد میں حجاج بن یوسف کی آواز میں دیکھ رہاہوں کہ سروں کی فصلیں پک چکی ہیں اورکٹنے کے لئے تیارہیں۔ گردنوں اورعماموں کے درمیان خون کی ندیاں دیکھ رہاہوں۔

کیاہم اس موسم عذاب سے نکل پائیں گے۔ کیاوہ لوگ جن کے ہاتھوں میں ہم نے تبدیلی کے فیصلے کی لگام دے دی ہے وہ درست فیصلہ کرکے ہمیں اس آنے والے عذاب سے نجات دلاسکیں گے۔ اب جوسب پارساہیں،دھلے دھلائے ہوئے، جرم سے پاک۔ ان کی گفتگو میں مظلومیت ہے، وہ جنہوں نے ابتلا کاموسم بھی ایسے گزارا کہ ہسپتالوں کے پورے کے پورے فلوران کے لئے آراستہ کئے گئے۔انہیں کیاپتہ اورکیاخبر کہ اس مملکت خدادادپاکستان کی جیلوں میں کسمپرسی کے عالم میں کتنے لوگ ہیں جوگرمی،حبس،گندگی اورتعفن میں سالوں گزار دیتے ہیں۔جن کو نہ کوئی ملاقاتی میسر آتاہے اورنہ وکیل وہ اپنے سامنے ایک مزین،سہولتوں سے آراستہ علاقہ اسی جیل میں دیکھتے،اسے اپنے نصیب کالکھا سمجھ کرچپ ہو جاتے ہیں۔کوئی ٹیلی ویژن کاکمپیئر ان تک نہیں پہنچتا،ان کادکھ لوگوں تک نہیں پہنچاتا۔ اگر ان بے سروسامان اور مدتوں مقدمے کے بغیر جیل کاٹنے والوں کاایک انٹرویو بھی ہمارے ٹیلی ویژن سے نشرہوجاتا توآج آسائش اورکسمپرسی کافرق واضح ہوچکا ہوتا۔

یہ سن٢٠٠٠ء کی ایک صبح تھی۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس نے تنگ وتاریک جیل وارڈ جوسول ہسپتال کوئٹہ میں تھااس کامعائنہ کیا۔ کتنے ایسے تھے جودرد سے کراہ رہے تھے انہیں دواتک میسرنہ تھی۔ کئی تھے جوانصاف نہ ملنے کی وجہ سے نفسیاتی مریض ہوچکے تھے۔ معائنہ ختم ہوا جس قیدی کو بے وجہ قیدکیاگیا تھا اسے رہاکردیاگیااورجسے دواکی ضرورت تھی اس کے احکامات جاری ہوگئے۔ سب مطمئن تھے آج ڈانٹ سے بچ گئے۔لیکن یہ کیا چیف جسٹس گاڑی میں نہیں بیٹھا۔ پیدل چلتا ہوا ہسپتال کے مین بلاک جاپہنچا۔ سیڑھیاں چڑھ کراوپرپہنچا جہاں وی آئی پی روم تھے۔ دروازے کھولے۔ تین کمرے ایسے تھے جن میں آرام دہ بستر،ٹی وی، کیبل،فریج کے علاوہ ملاقاتیوں کاکمرہ اور آسائش کادیگرسامان بھی تھا۔ان کمروں میں تین اہم ''وی آئی پی'' مجرم اپنی سزا کاٹ رہے تھے۔ گھن گرج،آئی جی جیل خانہ جات اورسیکرٹری صحت کے ماتھے پرپسینہ اورحکم ہواکہ ایک گھنٹے میں انہیں جیل وارڈ میں شفٹ کرو، اگربیمارنہیں ہیں توجیل میں۔ دفترپہنچنے تک حکم نافذ ہوچکاتھا۔

پتانہیں کیوں دل میں یہ خیال آتاہے،ایک خواہش ابھرتی ہے کہ شاید ایسابل آجائے جس میں کسی صاحب حیثیت کی جیل اس کے گھرکی آسائش کی طرح نہ ہو۔اس کی مرضی کے باتھ روم وہاں نہ بنیں اور اگرنہیں توخیراکمہار، نتھو لوہار اوراس جیسے عام آدمی کے بیٹے بھی ویسی ہی سہولت میں رہ سکیں۔لیکن ہم نہیں کرسکیں گے۔ کیا ہم ایسا بل لاسکتے ہیں جس میں ایک مجسٹریٹ،ایک عام جج بھی ویسے ہی سول ہسپتال کے وی آئی پی وارڈ میں جائے اوروہاں رہتے ہوئے، جیل کاٹتے ہوئے،مظلوم کہلواتے ہوئے شخص کوعام آدمی کے ساتھ بیرک میں بندکردے۔یہ خواب ہے اور خواب نہیںدیکھے جاتے لیکن سید الانبیاء جن کاایک نام نذیریعنی ڈرانے والابھی ہے، ایک خاتون فاطمہ کوچوری کی سزامیں ہاتھ کاٹنے کی سزاپر سفارش آنے پرغصے میں کہا تھا۔ اللہ کی قسم اگراس کی جگہ فاطؓمہ بنت محمدۖ بھی ہوتی تومیں اس کاہاتھ کاٹ دیتا۔ تم سے پہلی قوموں پرعذاب اس لئے نازل ہواکہ وہ عام لوگوں کوجرم پرسزادیتی تھیں اوربڑوں کے قصور معاف کردیا کرتی تھیں۔

اس بدنصیب قوم کوجہاں صاحبِ اقتدارنئے نئے بل متعارف کروانے کے بعد عوام کولوٹنے کافن جانتے ہیں وہاں پارلیمنٹ میں جب بھی ان کے اپنے مفادات اورمراعات کابل آتاہے توحکومت اوراپوزیشن کااتفاق مثالی نظرآتاہے۔ افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقے،بلوچستان اورکراچی کے دگرگوں حالات نے ملکی سلامتی کو داؤپرلگادیاتھااور’’دشمن ٹرائیکا‘‘نے ا پنی کامیابیوں کی اس رفتارپر باقاعدہ تاریخ کااعلان بھی کردیا لیکن دردِ دل رکھنے والوں نے آگے بڑھ کراس عطیہ خداوندی اورمعجزاتی ریاست کوبچانے کیلئے ضربِ عضب جیسا نام منتخب کرکے اس بدی کاقلعہ قمع کرنے کا سرفروشی کامشن شروع کیا ۔قوم نے اس کی کامیابی پرسکھ کا سانس لیاہی تھاکہ کچھ سیاسی قائدین نے اپنی کرپشن،ملک دشمن اورمجرمانہ کاروائیوں کا پردہ فاش ہونے پر دہائی دیناشروع کردی اور بالآخرگٹھ جوڑکے مشترکہ بل سامنے آناشروع ہوگئے ہیں۔رہی سہی کسر مضاربہ سکینڈل نے پوری کر دی جہاں مذہبی علماء نے مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے حلال کاروبارکاچکمہ دیکراربوں روپے لوٹ لئے۔خبریہ ہے کہ اب تک ایک ارب ٧٣کروڑروپے کی رقم برآمدکرلی گئی ہے اوراس میں ملوث ٣٤/ افرادکوگرفتاربھی کرلیاگیاہے جن میں مفتی ادریس اورمفتی عبدالمالک باجوڑی بھی شامل ہیں۔

کیاہم ایسا بل لاسکیں گے جس میں کوئی قصور معاف کرنے،کیس ختم کرنے کا اختیار نہ رکھتاہو۔ صاحبان نظرکویقین ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکیں گے۔ ہم اس بیماری کاشکار ہوچکے ہیں کہ جس میں چھوٹوں کوجرم کی سزا دی جائے اور بڑوں کومعاف کردیاجائے۔ اسی لئے ان کی راتیں رورو کرگزررہی ہیں اوردن بے چین۔ انہیں اللہ کے غیض وغضب سے ڈرلگ رہاہے اوراللہ کے غیض و غضب اورعذاب کا ایک خاصہ ہے کہ یہ اقتدار کے نشے اورطاقت کے غرور میں مست شخص کووقت سے پہلے نظر ہی نہیں آتا۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351476 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.