زلزلہ کیا ہے ؟اور این ڈی ایم اے کا کردار

 قرآن پاک میں اﷲ پاک نے ارشاد فرمایا جب تھر تھرانے لگی گی زمین پوری شدت سے اور باہر پھینک دے گی زمین اپنے بوجھوں کو اور انسان کہے گا اسے کیا ہوگیا ؟ اس روز وہ بیان کر دے گی اپنے سارے حالات ( سورۃ الزلزال )۔قدرتی آفات کہیں بھی اور کسی بھی وقت میں آ سکتی ہیں اس پر انسان کچھ بھی کر لے اس کا کنٹرول ممکن نہیں10 سال پہلے ملک پاکستان میں تباہی لانے والے زلزلے کے اثرات اور اسکی افسردہ یادیں گزرے چند دن ہی ہوئے تھے کہ ایک بار پھر لوگوں پر سکتہ طاری تھا زلزلے ہوں یا سیلاب قدرتی آفات سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ لقمہ اجل بنتے رہے ہیں ۔زلزلہ کیا ہے ؟یہ سوال زبان زدعام ہے۔ زلزلہ زمین کی اوپر والی سطح کی شدیداورہنگامی حرکت ہے جو کہ اچانک اس کی ٹیکٹونک پلیٹ(Tectonic Plates ( کے ٹوٹنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے دنیا کی تاریخ ان قدرتی آفات سے بھری پڑی ہے جن میں زلزلہ انتہائی دہشت ناک آفت ہے جسکی وجہ سے لاکھو ں آبادیاں زمین بوس ہوگئیں اور انسانی آبادی کے بڑے بڑے حصے صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔ وجو ہات :۔ زلزلہ بغیر کوئی اطلاع دیے اچانک نازل ہوتا ہے یہ ایک ایسی قدرتی آفت ہے جو انسان کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیتی صدیوں پہلے لوگ زلزلے کے بارے میں عجیب و غریب اور دقیانوسی خیالا ت رکھتے تھے جاپانیوں کے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ایک طویل القامت چھپکلی زمین کو اپنی پشت پر اٹھائے ہوئے ہے جب یہ ہلتی ہے تو زلزلے آتے ہیں، عیسائیوں کا نظریہ تھا کہ خدا اپنے باغیوں کو تنبیہ کے طور پر زلزلے کی آفت نازل کرتا ہے ،ہندوؤں کا عقیدہ تھا کہ زمین ایک گائے کے سینگوں پر رکھی ہوتی ہے جب وہ سینگ تبدیل کرتی ہے تو زلزلے آتے ہیں اسی طرح ریاضی دان فیشا غورث کا خیال تھا کہ زمین کے اندر مردے آپس میں جھگڑتے ہیں جسکی وجہ سے زمین تھر تھر کانپتی ہے او ر زلزلے آتے ہیں جبکہ ارسطو کا نظریہ ان سب سے زیادہ پختہ اور سائنسی معلوم ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ جب زمین کے اندر موجو د ہوا گرم ہوکرباہر نکلنے کی کوشش کر تی ہے تو زلزلے آتے ہیں ،افلاطون کا نظریہ بھی کچھ اسی طرح سے تھا تقریباً70 سال پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ زمین مزیدٹھنڈی ہورہی ہے جس کی وجہ سے اس میں دراڑیں یا چٹاخ پڑرہے ہیں لیکن جدید نظریہ کے مطابق پلیٹ ٹیکٹو نکس کی خرابی ہے جس کو ماہر ارضیات نے بھی تسلیم کیا ہے اس نظریے کے مطابق زمین کی بالائی پرت اندرونی طورپر مختلف پلیٹوں پر مشتمل ہے اور جب اس کے اندرونی کرے میں مادہ پگھلتا ہے( جسے میگما کہتے ہیں ) تو زمین میں کرنٹ پیدا ہوتا ہے اور زمین کی پلیٹ متحرک ہوجاتی ہے شدید صورت میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار بھی ہوسکتی ہیں اور ان کا درمیانی فاصلہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ زلزلے اکثران علاقوں میں زیادہ ہوتے ہیں جو پلیٹ کے جوڑوں پر واقع ہوں یا ان کے قریب تر ہوں زمین کی پلیٹوں میں خلل کی وجہ سے دراڑیں اور گہری کھائیاں بن جاتی ہیں اور زلزلہ آتا ہے۔ جو علاقہ اس میگما پوائنٹ کے اوپر ہوگا وہ بہت جلد تباہی کا باعث بنے گا یعنی وہاں زلزلہ کی شدت زیادہ ہوگی زلزلے کے اس مرکز کو ایپی سنٹربھی کہتے ہیں اب تک سائنسدانوں نے ان وجوہات کو دو بڑی اقسام میں تقسیم کیا ہے ایک وجہ آتش فشاں پہاڑ ہیں جبکہ دوسری بڑی وجہ ٹیکٹو نک پلیٹس میں خرابی ہے یہ دونوں صورتیں میگما کے پھٹنے سے پیدا ہوتی ہیں اس میگما کے پھٹنے سے تین قسم کی شدید لہریں بھی پیدا ہوتی ہیں پہلی قسم کی لہروں کو پرائمری لہریں یا پی ویوز کہتے ہیں ان کی فریکوئنسی بہت زیادہ ہو تی ہے یہ لہریں زمین کے سالڈ اور لیکوئڈ حصے میں سے گز ر جاتی ہیں اور زمین کے اندر ونی تہہ کو متاثر کرتی ہیں دوسری قسم کی لہریں سیکنڈ ری ویوز ہیں یہ پرائمری لہروں سے آہستہ چلتی ہیں ان کی رفتار زمین میں موجود چٹانوں کی وجہ سے تبدیل ہوتی رہتی ہے ۔تیسری قسم کی لہریں ایل ویوز ہیں جو کہ زمین کو شدید ( Vibrate (کرتی ہیں یہ ایپی سنٹر کے نزدیک پیدا ہو تی ہیں ایہی آخرکار زلزلے کا باعث بنتی ہیں اگر سیکنڈری ویوز زمین کے لیکوئڈ میں داخل ہوتو غیر موثر ثابت ہوتی ہیں کیونکہ یہ لیکوئڈ میں سے نہیں گزرسکتی جبکہ چٹانوں میں سے گزر جاتی ہیں اور ایل ویوز بن کر شدید جھٹکوں کے ساتھ ایپی سنٹر کو متحر ک کرتی ہیں اور قیامت خیز زلزلے رونما ہوتے ہیں اس طرح کے کئی دہشت ناک زلزلے انسانی آبادیوں کو لقمہ اجل بنا چکے ہیں ۔ نیسپاک ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان کا دو تہائی رقبہ کسی نہ کسی فالٹ لائن پر واقع ہے ملک کا 45فیصد علاقہ یو ریشن اور40 فیصد انڈین ٹیکٹو نک پلیٹ پر ہے فالٹ لائنز کے حساب سے پاکستان کو19 زونز میں تقسیم کیا گیا ہے 7زون ایسے ہیں جہاں شدید زلزلوں کا خدشہ ہے سندھ میں گھوٹکی ، سکھر اور نواب شاہ زلزلے کی فالٹ لائنز پر واقع ہیں پنجاب میں چولستان ، بہاولپور خیبر پی کے میں جنوبی و شمالی وزیر ستان فالٹ لائنز پر واقع ہیں بلو چستان میں ڈیرہ بگٹی اور آزاد کشمیر کا سارا علاقہ زلز لے کی فالٹ لائنز پر ہے کراچی سے لے کر آواران تک ساحلی پٹی خطرناک ترین فالٹ لائنز پر ہے ساحلی علاقہ دو مرتبہ شدید زلزلے کے بعد سو نامی کی تباہ کاریوں سے دو چار ہوچکا ہے اسلام آباد نہایت خطرنا ک فالٹ لائن مین باؤنڈری تھرسٹ پر واقع ہے ۔ایوان صدر ، وزیراعظم ہاؤس ، سیکرٹریٹ بھی انتہائی خطرناک فالٹ لائن پر واقع ہیں۔ شدید ترین زلزلہ سے پورا پاکستان لرز اٹھا ملکی تاریخ کے اس قیامت خیز زلزلے سے چیرمین این ڈی ایم اے کے مطابق 248 جانیں لقمہ اجل بنیں اور 1620سے زائد افراد زخمی ہوگئے جبکہ 4392 مکانات بھی متاثر ہو گئے ۔وفاقی حکومت نے چاروں صوبوں میں ایمر جنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے زلزلے نے قریباپور ے جنوبی ایشیا کو لپیٹ میں لے لیا محکمہ موسمیات نے اسے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ قرار دیا ہے محکمہ موسمیات کے مطابق دوپہر دو بجکر نو منٹ پر شدید زلزلے آئے جس کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا ریکٹر سکیل پر زلزلے کی شدت8'1 ریکارڈ کی گئی جس کا مرکز کو ہ ہندوکش نارتھ ایسٹ آف افغانستان تھا جس کی گہرائی 193کلو میٹر ریکار ڈ کی گئی محکمہ موسمیات کے لاہو رمرکز کے مطابق2005 ء میں آنے والے زلزلے کی شدت ریکٹر سکیل پر4 7-ریکارڈ کی گئی تھی جس کامرکز بھی کوہ ہندو کش تھا جو ایک پہاڑی علاقہ ہے جوکہ افغانستان کے ضلع جرم کے جنوب مغرب میں45 کلومیٹر دور واقع ہے۔ پاکستان میں قدرتی آفات اکتوبر میں تیسری بار ہولناک زلزلہ آیا ہے8 اکتوبر2005 ء کو آنے والے زلزلے نے آزاد کشمیر اور خیبر پی کے میں 87ہزار افراد کو موت کی نیند سلا دیا تھا22 لاکھ افراد بے گھر ہوگئے تھے پاکستان میں آٰنے والے شدید زلزلوں کی تفصیل اس طرح ہے31 مئی1935 ء کو کوئٹہ سمیت بلو چستان کے مختلف علاقوں میں7 اعشاریہ7 شدت کا زلزلہ آیا تھا جس نے شدید تباہی مچائی زلزلے میں کوئٹہ شہر مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور تیس ہزار سے ساٹھ ہزار افراد جاں بحق ہوئے 28نومبر1945 ء کو بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں 8اعشاریہ ایک شدت کا زلزلہ آیا جس میں 8ہزا رافراد لقمہ اجل بنے 28دسمبر1974 ء کو شمالی علاقہ جات میں6 اعشاریہ 2 شدت کے زلزلے نے تباہی مچائی جس میں پانچ ہزار سے زائد افراد جاں بحق اور 17ہزار سے زائد زخمی ہوئے8 اکتوبر2005 ء کو پاکستان کے شمالی علاقوں اور آزاد کشمیر میں ملکی تاریخ کا خوفناک ترین زلزلہ آیا7ا عشاریہ 8شدت اس قیامت خیز زلزلے کے نتیجے میں73ہزار338 افراد جاں بحق ہوئے 29اکتوبر 2008ء کو بلوچستان کے ضلع زیارت میں آنے والے6 اعشاریہ 4شدت کے زلزلے سے215 افراد جاں بحق اور ایک لاکھ بیس ہزار افراد بے گھر ہوئے 24ستمبر 2013ء کو بلو چستان کے ضلع اواران میں7 اعشاریہ7 شدت کا زلزلہ آیا جس سے825 افرا د جاں بحق ہوئے اور سینکڑوں بے گھر ہوئے اس زلزلے کے چار دن بعد اسی علاقے میں 6اشاریہ8 شدت کے زلزلے نے مزید400 افراد کی جان لی اور مزید تباہی پھیلائی دنیا بھر میں قدرتی آفات کے حملے سے 26تاریخ سوالیہ نشان بن گئی ہے۔26 اکتوبر2015 ء کو پاکستان میں شدید زلزلہ آیا ہے26 جون کو انڈونیشیا میں 26دسمبر کو ایران میں 26جنوری کو گجرات میں اس طرح مختلف 26تاریخ کے ہندسے میں زلزلے ، سونامی اور قدرتی آفات آئی ہیں ۔اکتو بر زلزلوں کے حوالے سے پاکستان میں خوف کی علامت سمجھا جانے لگا چو نکہ پاکستا ن میں تاریخ کے چار بڑے زلزلے اکتوبر میں ہی آئے10 اکتوبر 1956ء ،19 اکتوبر1956 ء،8 اکتوبر2005 ء ،26 اکتوبر2015 ء دس سال قبل 8اکتوبر2005 ء کو آنے والے زلزلہ میں تقریباایک لاکھ افراد لقمہ اجل بنے تھے آٹھ اکتوبر 2005ء کو شمالی علاقہ جات و کشمیر میں آنے والے شدید زلزلے نے تباہی کے ریکار ڈ قائم کیے تھے26 اکتوبر کے زلزلہ کے دوران لوگوں کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکل رہے تھے کہ دس سال قبل بھی اسی مہینے میں تباہ کن زلزلہ آیا تھا۔قارئین کرام نت نئی سائنسی ایجادات کے باوجود تاحال زلزلے کی پیشگی اطلاع کا کوئی طریقہ کارمعلوم نہیں ہو سکا چینی ماہرین کے مطابق زلزلہ سے قبل مرغیوں کا خلاف معمول اڑنا ، مینڈکو ں کا قطار بنا کر چلنا ، مچھلیوں کا پانی سے باہر چھلانگیں لگانا علامات میں شامل ہیں۔ دس سال بیت گئے ہولناک زلزلے کی تباہی کاریوں کو اور پانچ سال تقریبا سیلاب کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات کو سوال یہ ہے کہ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ ادارہ کی کیا کاردگی ہے جس کا قیام 2005 کے زلزلے کی تباہی کاری کے بعد عمل میں لایا گیا تھا جبکہ زلزلوں کی تباہی کاریوں سے بچاؤ اور بحالی کیلئے مر کز میں ایرا اور صوبوں کی سطح تک سیرا کے نام سے ادارے بنائے گئے تھے۔ دس سالوں میں ان اداروں نے کیا کچھ کھویا اور کیا پایا کوئی اعداد و شمار قوم بتائے جا سکتے ہیں کہ اس ادارہ نے کتنے لوگوں کو قدرتی آفات سے نبھٹنے کی تربیت دی کتنے نوجوان تیار کیئے جو قدرتی آفات میں ہماری قوم مدد کر سکیں گے اور کتنے سنٹرز قائم کیئے گئے جہاں یہ تربیتی سلسلہ جاری ہے جبکہ اطلاعات ہیں کہ دس سال گزرنے کے باوجود 2005 کے زلزلہ متاثرین کی ایک بڑی تعداد ابھی تک در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہے۔خدا را ضرورت اس امر کی ہے کہ کم از کم اس ادارہ کو تومخلص انداز میں خوف خدا دل میں رکھنے والے لوگوں کے سپرد کر دیجئے کیونکہ آج اگر مالا کنڈ ڈویثرن میں ایک چرواہا یا کسی بھی علاقے کا غریب اس حادثہ کا شکار ہوسکتا ہے تو گارنٹی ہم میں سے بھی( بشمول وزیر اعظم ،صدر پاکستان ، وزرا ،مشیران کا تمام جتھا ) الغرض کسی کے پاس نہیں کہ وہ یا اس کا پورا قبیلہ ہمیشہ کسی بھی قدرتی آفت سے بچا رہے گا۔
Hafiz Ishaq Jilani
About the Author: Hafiz Ishaq Jilani Read More Articles by Hafiz Ishaq Jilani: 19 Articles with 17609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.