پاکستان کی مشکلات کی وجہ کشمیر

ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کی دوسری ریاستوں سے ممتاز حیثیت دلانے والی دفعہ370 خطرے میں ہے ۔ بی جے پی حکومت دفعہ370 کا خاتمہ چاہتی ہے ۔ اس سلسلے میں بھارتی سپریم کورٹ سے بھی مدد لی گئی تاہم 31اکتوبر 2015 کو اپنے فیصلے میں عدالت نے بھی ریاست کے خصوصی درجے سے متعلق دفعہ370 بارے کسی بھی قسم کی مداخلت سے انکار کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عدالت دفعہ کی منسوخی کی مجاز نہیں ہے اور نہ ہی وہ بھارتی پارلیمنٹ کو ایسا کرنے کی ہدایت دے سکتی ہے بلکہ پارلیمان کو ہی از خود اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا۔ بھارتی آئین کی دفعہ370 کی طرح پاکستان کے آئین کا آرٹیکل 257 کشمیریوں کو بااختیار بناتا ہے اس قانون کے تحت کشمیری ہی فیصلہ کریں گے کہ وہ پاکستان سے کس طرح کا تعلق قائم رکھنا چاہتے ہیں ۔پاکستان میں ایسی سوچ موجود ہے کہ کشمیر کے بکھیڑے سے جان چھڑائی جائے مگر جان چھرانے کا یہ معاملہ اتنا آسان نہیں اس لیے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ معاملہ زمین کے ایک ٹکڑے اور پانی کے ذخائر کی ملکیت کا بھی ہے ۔ جناب حامد میر سے میں نے پوچھا کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 257 ختم کرانے کے درپے ہیں ۔ ان قوتوں کے مفادات کیا ہیں ؟۔ حامد میر کہنے لگے کہ اس سازش کے تانے بانے بیرونی دنیا میں ہیں ۔ پاکستانیوں کا ایک طبقہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان کشمیر سے لاتعلق ہو جائے ۔ اس طبقے کے خیال میں پاکستان کی مشکلات کی وجہ کشمیر ہے ۔ اگر مسلہ کشمیر نہ ہو تو پڑوسی ملک بھارت سے اچھے تعلقات ہو سکتے ہیں ۔ اسلام آباد میں گزشتہ دنوں ایک تقریب میں صدر آزاد کشمیر سردار محمد یعقوب خان بھی اس بحث میں دلچسپی لے رہے تھے۔ ان کا بھی خیال تھا کہ پاکستان میں ایسی سوچ موجود ہے تاہم ایسا کرنا ممکن نہیں ۔ جناب حامد میر نے تقریب سے خطاب کے دوران دعوی کیا تھا کہ آرٹیکل 257 کے خاتمے کے لیے بین الاقوامی سازش تیار ہوگئی ہے ۔ حامد میر نے سازش بارے مذید وضاحت نہیں کی ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی آئین کا آرٹیکل 257 ریاست جموں و کشمیر کو متنازعہ خطہ قرار دیتا ہے ۔ یہ آرٹیکل دراصل اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی تو ثیق کرتا ہے۔ آئین پاکستان کی رو سے حکومت پاکستان کو آزاد جموں وکشمیر پر حکمرانی کا اختیار نہیں ۔ آرٹیکل 257 میں لکھا ہے کہ ساری ریاست کے الحاق کے بعد ریاست جموں و کشمیر کے مابین تعلقات کے بعد نوعیت کا تعین ریاست کے لوگوں کے منشا کے مطابق ہو گا ۔ 257 کے مطابق جب ریاست جموں و کشمیر اور کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ الحاق کا فیصلہ کر لیں گے تو پھر پاکستان اور ریاست کے مابین تعلقات کا فیصلہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق کیا جائے گا ۔ مسئلہ کشمیر کے آئوٹ آف باکس حل یا اقوام متحدہ کے فارمولے کے تحت بتائے گئے طریقے کو نظر انداز کرنے کی صورت میں دفعہ 257 ایک بڑی رکاوٹ ہے ۔ چنانچہ مسئلہ کشمیر کے غیر روایتی حل کے لئے آرٹیکل 257 کا خاتمہ ضروری ہے ۔ آرٹیکل 257 کی بنیاد پر ہی پاکستان کشمیریوں کا وکیل ہے اور بین الاقوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے اقدامات کر سکتا ہے اگر اس آرٹیکل کو ختم کر دیا جائے تو آزاد کشمیر میں پاکستان کی موجودگی مشکل ہو جائے گی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کشمیر کا کیس پیش نہیں کر سکے گا ۔ پاکستان کے آرٹیکل 257 کی طرح بھارتی آئین کا آرٹیکل 370 ہے۔ بھارتی آئین کی یہ دفعہ ریاست جموں وکشمیر کو بھارت کی دوسری ریاستوں سے ممتاز حیثیت دلاتی ہے ۔ جموں و کشمیر کے لوگوں کی الگ سے شناخت اسی شق کی وجہ سے ہے قابل ذکر امر یہ ہے کہ بھارتی آئین میں کشمیر کو بھارت کا اٹوٹ انگ قرار دیا گیا ہے جبکہ پاکستان کے آئین میں کشمیر کو متنازعہ خطہ قرار دیا گیا ہے ۔ چنانچہ مسئلہ کشمیر کے کسی ایسے حل کی راہ میں بھارت رکاوٹ ہو گا جو بھارتی آئین سے مطابقت نہ رکھتا ہو ۔ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینے کے علاوہ کسی بھی حل کے لیے بھارتی آئین میں تبدیلیاں کرنا ہوں گی ۔ جبکہ پاکستان میں ایسی کوئی مشکل موجود نہیں ہے ۔ کشمیر کے بکھیڑے سے جان چھڑانے کی سوچ کے حامل ایک دانشور جناب عرفان حسین بھی ہیں۔ عرفان حسین A cracked record کے عنوان سے 8 نومبر 2014 کو اخبار ڈان میں لکھتے ہیں کہ مسلہ کشمیر کی قانونی حیثیت اور کشمیریوں کی خواہش سے ہٹ کر دیکھا جائے، تو حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کے پاس (اس مسئلے پر) کسی بھی حلقے سے کوئی حمایت نہیں ہے۔ ہندوستان کی فوجی اور سفارتی طاقت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ پاکستان توازن اپنے حق میں کر سکتا ہے۔ دنیا میں کوئی بھی ریاست عوامی سطح پر کشمیر پر پاکستانی دعوے کو تسلیم نہیں کرتی۔ عرفان نے سوال اٹھایا ہے کہ آخر کب تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان مسائل کی ایک طویل فہرست کا ایجنڈا کشمیر کے ذریعے طے ہوگا؟ آخر کب تک جنوبی ایشیا کے تقریبا ڈیڑھ ارب افراد مسئلہ کشمیر کے مغوی بنے رہیں گے؟ہر بار جب تشدد کی لہر مسئلہ کشمیر کو صفحہ اول میں واپس لے آتی ہے، سیاسی پنڈت اور دیگر لوگ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد 47، جو 1948 میں منظور ہوئی، کے تحت کشمیر میں ریفرنڈم کا مطالبہ کرنے لگتے ہیں، مگر جس چیز کا وہ ذکر نہیں کرتے، وہ یہ ہے کہ قرارداد میں پاکستان کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ تمام قبائی جنگجوں اور(پاکستانی) شہریوں کو واپس بلائے گا جبکہ ہندوستان امن و امان کی ضروریات کے مطابق کم سے کم تعداد میں فوج وہاں تعینات کرے گا۔پاکستان نے آج تک اس قرارداد کی ہدایت پر عمل نہیں کیا۔ ممکنہ طور پر اسے ڈر ہے کہ ہندوستان فوری طور پر خالی کیے گئے علاقے کا کنٹرول سنبھال لے گا۔ جب پاکستان نے امریکا کے ساتھ 1954 میں ایک فوجی معاہدہ کیا تھا تو نہرو نے اعلان کیا کہ جنوبی ایشیا میں ایک سپرپاور کی آمد کے بعد جیو پولیٹیکل صورتحال میں تبدیلی آئی ہے اور ان حالات میں اقوام متحدہ کی قرارداد غیرمتعلق ہوچکی ہے۔ جناب عرفان حسین کی اقوام متحدہ کی قراردادوں کے حوالے سے معلومات درست ہیں۔ اسٹریلوی مصنف کرسٹو فر سڈن کا ا پنی کتاب میں دعوی ہے کہ کشمیر میں قبائیلیوں کی آمد سے قائد اعظم، آگاہ نہیں تھے یعنی قبائلی حکومت پاکستان کی پالیسی کے تحت کشمیر نہیں گئے تھے ۔ اقوام متحدہ کے کمشن براے پاکستان بھارت (UNCIP ) نے 13 ِ اگست 1948 کی قراداد میں قرار دیا تھا کہ آزاد جموں کشمیر کے علاقے کا انتظام و انصرام مقامی حکومت کے تحت کمیشن کی نگرانی میں ہو گا۔ جب تک پاکستان کے آئین میں دفعہ257 موجود ہے تو اقوام متحدہ کی قرار دادوں سے ہٹ کر مسئلہ کشمیر کے کسی حل کی کوئی گنجائش موجود نہیں، اگر کسی کومسئلہ کشمیر کے کسی غیر روایتی حل کی تلاش ہے تو اسے سب سے پہلے پاکستان کے آئین کی دفعہ257 کو تبدیل کرنا ہوگا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور اقتدار میں مسئلہ کشمیر کاآئوٹ آف دی باکس حل کی کوششیں ہوئیں۔ یہ کوششیں دراصل آئین کی دفعہ257 کی صریحا خلاف ورزی تھی۔ میری ذاتی رائے یہ ہے پاکستان میں دفعہ257 بارے کوئی بھی سوچ موجود ہو یہ طے ہے کہ پاکستان مقدمہ کشمیر سے دستبردار نہیں ہوگا اس لیے کہ کشمیر کا معاملہ پاکستان کے لیے ایک خطہ زمین اور پانی کے ذخائر کی ملکیت کا بھی ہے ۔ پاکستان کیسے پابی کے ذخائر سے کیسے دستبردار ہوسکتا ہے ؟ جناب حامد میر کی معلومات درست ہوسکتی ہیں مگر آئین کے آرٹیکل 257 کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 51114 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More