ممتاز مفتی۔ شخصیت نگار ،کہانی و افسانہ نگار

ممتاز مفتی

ممتاز مفتی کہانی ، افسانہ اور شخصیت نگاری کا خوبصورت حوالہ ہیں ۔انہوں نے جس شخصیت کو بھی اپنا موضوع بنایااسے اِس خوبصورتی اور اچھوتے پن کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا کہ وہ شخصیت اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ ابھر کر سامنے آگئی۔ممتاز مفتی نے شخصیت نگاری، خاکہ نویسی کو ایک نئی ہیٔت دی، انداز دیا، ایک نیا اسلوب دیا۔ مَیں ممتاز مفتی کا پَیرو کار اس اعتبار سے ہوں کہ ممتاز مفتی شخصیت نگار ی کے فن کے استاد ہیں اور میں بھی اس شعبے میں گزشتہ تین دہائیوں سے ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہوں، شخصیت نگاری ، خاکہ نگاری کا ایک طالب علم ہوں، میں نے ممتاز مفتی کو پڑھا اور ان سے بہت کچھ سیکھا،اگر میں یہ کہوں کہ وہ میرے روحانی استاد ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ آج میرا موضوع ممتاز مفتی ہیں ۔ ان پر لکھنے کی ابتدا ان ہی کی کہی ہوئی بات سے ہی شروع کرونگا، ممتاز مفتی کا کہنا تھا کہ’ آپ کو صرف اس شخصیت پر لکھنے کا حق حاصل ہے جس کے لیے آپ کے دل میں جذبہ ٔ احترام ہے‘۔ میں ممتاز مفتی کی اس بات کی سو فیصد تائید کرتا ہوں ، میری اپنی رائے بھی یہی ہے اور میں نے اپنے تجربے سے یہ سیکھا ہے کہ شخصیات کو اپنا موضوع بنانے والوں کو انہی لوگوں پر قلم اٹھانا چاہیے جن کے لیے ان کے دل میں محبت، اِحتِرام، عزت، توقیر اور حُرمت کا جذبہ پایا جاتا ہو۔ الحمد اﷲ مَیں نے اب تک بے شمار احباب کی شخصیت کو اپنا موضوع بنایا ، ان میں شاعر ، ادیب، مصنفین، سماجی شخصیات، سیاسی شخصیات، اپنی ماں اور اپنے باپ کے علاوہ بعض عزیز و رشتہ داروں پر لکھ میرے دل میں ان کے لیے یہی جذبہ تھا۔ اردوکا یہ مایۂ ناز افسانہ نگار ، خاکہ نگار اور سفر نامے لکھنے والا ادیب و قلم کار 27اکتوبر 1995 ء میں ہم سے جدا ہوا لیکن اس کی تحریریں آج بھی ادب کی دنیا میں روشن اور تازہ ہیں۔ میرے دل میں ممتاز مفتی کے لیے جذبہ احترام ہے، اسی جذبے نے مجھے آج ممتاز مفتی کو اپنا موضوع بنانے کا حوصلہ دیا۔و یسے بھی میری سوچ یہ ہے کہ جن بھلے لوگوں کو میں نے دیکھا ہے، ان سے کچھ سیکھا ہے، انہیں پڑھا اور ان کی شخصیت اوران کی تحریر سے کچھ حاصل کیا ہے ،انہیں اپنی زندگی کی کتاب میں شامل کرلینا ادب اور ادیب کی خدمت میں اپنا حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اسی حوالے سے مَیں نے کبھی کہا تھا ؂ ؂
جن کو کبھی دیکھا ہے اپنی حیات میں
قلم بند انہیں کررہا ہوں زندگی کی کتاب میں

ممتاز مفتی نے 90 برس عمر پائی۔ انہوں نے ایک بھر پور زندگی گزاری، اتار چڑھاؤ ، غریبی امیری ،اچھا برا ہر انسان کی زندگی میں آتاہے سو ممتاز مفتی نے مشکل وقت بھی دیکھا اور خوش باش بھی بہت رہے۔ قلم کی مزدوری نے انہیں عزت دی اور مالی خوش حالی سے بھی نوازا۔ میرے لیے یہ لمحات خوشی کے ہیں کہ میں ممتاز مفتی جیسی علمی و ادبی شخصیت کو اپنی زندگی کی کتاب میں شامل کر رہا ہوں۔ڈاکٹر انورسدید کے مطابق ممتاز مفتی اُردو دنیا کے ان معدودے چند ادیبوں میں سے ہیں جو بحث کو محبت کی نہیں ادب کی قینچی شمار کرتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو صاحب نظر بھی نہیں کہتے بلکہ ان کا کہنا تو یہ ہے کہ ان کا علم خام ہے‘۔ چنانچہ میں نے اپنے خام علم کی بنیاد پر اپنے اس روحانی استاد کو خراج تحسین پیش کرنے کی سعٔی کی ہے۔مفتی کا کہنا تھا کہ ’وہ ان لوگوں میں سے نہیں جو زندگی گزارتے ہیں بلکہ وہ ان میں سے ہیں جن پر زندگی گزرتی ہے‘۔ ان کا کہنا ہے کہ راستے آتے گئے اور وہ انہیں ناپتے گئے ۔ حتیٰ کہ ادب کی دہلیز پر بھی وہ اَن جانے میں آپہنچے۔ اور پھر ایسے جوہر دکھائے کہ اپنا ایک الگ نام پیدا کیا۔

ممتاز مفتی کو میں نے دیکھا اور اس کی کہانیاں، افسانے، شخصی خاکے اور مضامین پڑے اور انہیں حقیقت کے قریب پایا۔ ممتاز مفتی کا انداز اچھوتا ہے، نرالا ہے ، پڑھنے والوں کو وہ بور نہیں کرتا۔ اگر کسی شخصیت کو متعارف کراتا ہے تو وہ پورے مضمون میں سایہ کی طرح اس کے ساتھ ساتھ دکھا ئی دیتا ہے۔ ممتاز مفتی کاکہنا درست ہے کہ’ وہ جو کچھ بھی لکھتا ہے اس میں اس کی نگاہ شامل ہوتی ہے۔ اسے جو کچھ نظر آتا ہے وہ وہی لکھتا ہے، نیز اس نے کبھی حتمی سچائی پیش کرنے کا دعویٰ نہیں کیا بس اس نے تو اپنا سچ لکھا ہے‘۔ڈاکٹر اسلم فرخی کا خیال ہے کہ ’ سچا فنکار نثر لکھے یا شعر کہے ۔ لفط لفظ سے روشنی پھوٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘۔ممتاز مفتی کے خاکوں میں لفظوں کی مدھر مدھر جھنکار پڑھنے والے کو مسرور کر دیتی ہے۔ان کا صاف ستھرا، نکھرا نکھرا لہجہ شخصیت کے حسن کو دوبالا کردیتا ہے۔ مفتی کا کہنا ہے کہ کسی بھی ادیب میں تین خصوصیات نمایاں ہوتی ہیں حس، شدت اور تضاد۔ ممتاز مفتی نے اپنے ایک مجموعے میں زیادہ تر ادیبوں کو اپنا موضوع بنا یا ، چنانچہ اس نے اس مجموعے کانام ہی ــ’’اوراوکھے لوگ‘‘ رکھا۔ ان میں انور سدید، احمد بشیر، مسعود قریشی، آذرذوبی، مظہر الا سلام ، اشفاق احمد ، ثاقبہ رحیم الدین، الطاف توہر، ابن انشاء، الطاف گوہر، بانو قدسیہ، بشریٰ رحمٰن ، ادا جعفری، عزیز ملک، پروین عاطف، پرروہیلہ، حسام الدین راشدی، سرفراز اقبال، روشن سبطین، سجاد حیدر، فکر تونسوی، قدرت اﷲ شہاب اور وہ خود ممتاز مفتی شامل ہے۔ شخصیات کی اس فہرست سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ممتاز مفتی کو ادبی شخصیات سے کس قدر انس اور لگاؤ تھا۔ وہ ان کا کتنا احترام اور ادب کیا کرتا تھا۔ باوجود اس کے کہ بعض قد و کاٹ میں اس سے کہیں کم ہیں لیکن ممتاز مفتی نے انہیں بھی عزت دی، توقیر دی، احترام دیا۔

ممتاز مفتی کا اصل نام ’ممتاز حسین ‘ ہے لکھاری کی حیثیت سے وہ ممتاز مفتی ہیں۔ مشرقی پنجاب کے ضلع گورداس پور کے شہر بٹالہ میں 12ستمبر1905ء کو پیدا ہوئے 90سال بعد 27 اکتوبر1995 ء کو دائے اجل کو لبیک کہا ۔ ان کے اجداد مغلوں کے دربار میں میرمنشی تھے، یہ وہ دور تھا جب میر منشی ہونا اعزاز و توقیر کی بات ہوا کرتی تھی۔ ان لوگوں کا شمار پڑھے لکھے لوگوں میں ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے میں ان کے اجداد کو مفتی کا لقب ملا۔ اسی مناسبت سے ان کا خاندان اپنے نام کے ساتھ مفتی لگانے لگا۔ ممتاز حسین نے بھی انہی کی پیروی کی اور وہ ممتاز حسین سے ممتازمفتی ہوگئے۔ان کے والد اسکول ٹیچر تھے بعد میں صدر مدرس بنے۔ ممتاز مفتی نے میٹرک وہیں سے کیا، بی ڈی پی کالج انبالہ ، ہندو سبھا کالج امرتسر وار پھر اسلامیہ کالج لاہور سے وابستہ رہے 1929ء میں بی اے پاس کیا۔ ابتدا میں اسٹینو گرافر رہے لیکن کا مزاج دفترانا نہ تھا ،والد استاد تھے یقینا ان سے متاثر ہوں گے تب ہی تو ملازمت کے دوران فن معلمی سیکھنے کی فکر میں رہے اور سینٹرل ٹریننگ کالج سے بی ٹی کر لیا اور اسی کی بنیاد پر اسکول ٹیچر بن گئے۔استاد کی حُرمَت، عظمت ،مرتبہ ، عزت و احترام اور بڑائی اپنی جگہ ساتھ ہی یہ عمل استاد کو متیع و فرمانبرداری کے بجائے حکمرانی کی عادت ڈال دیتا ہے ۔مغل حکمراں اورنگ زیب نے جب اپنے باپ شاہ جہاں کو قید میں ڈالا دیا تو باپ نے اپنے حاکم بیٹے اورنگ زیب سے التجا کی کہ اُسے قیدی کی حیثیت سے بچوں کو پڑھانے کی اجازت بخشی جائے تو اورنگ زیب نے اپنے قیدی بیٹے شاہ جہاں سے کہا تھا ’ابا جان ابھی طبیعت سے حکومت کی بو نہیں گئی‘۔ممتاز مفتی بھی احکامات پر عمل کرنے کے بجائے احکامت دینے کی طبیعت کے مالک تھے۔ وہ بھلا دفتری کی نوکری کیوں جاری رکھ سکتے تھے۔استاد ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز مفتی میں مطالعے کا شوق پیدا ہوچکا تھا۔ اور وہ لکھنے کی جانب بھی مائل ہوچکے تھے۔ ان کے ایک ساتھی میاں حفیظ الرحمٰن کی صحبت نے انہیں آکسفورڈ ڈکشنری پڑھنے کی لت ڈالی ۔ یہی وہ زمانہ تھا جب وہ اپنے والد سے ملاقات کے لیے ملتان جاتے ہیں جہاں ان کی ملاقات ادب کی معروف شخصیت ن م راشد سے ہوتی ہے۔ ممتاز مفتی کا کہنا ہے کہ’ اس وقت ن م راشد ’نذر محمد تھے اور میں ممتاز حسین تھا‘۔ راشد اور مفتی کے والد محکمہ تعلیم میں تھے۔ دونوں کے والد کا تعلق ان دونوں کی قربت کا باعث بنا اب مفتی کی ادبی صلاحیتوں کو آگے بڑھنے کا موقع ملا ۔ راشد اردو جریدے ’نخلستان‘ کے مدیر ہوگئے اور انہوں نے مفتی کو’ نخلستان ‘میں لکھنے کی جانب مائل کیا ۔صلاحیت تو تھی ہی صحبت نے اسے چار چاند لگا دیے۔ مفتی تو پہلے ہی لکھاری ذہن رکھتے تھے، انہوں نے ایک اردو فلم ’ہٹیلی دلھن‘ پر طنزیہ مضمون لکھا ۔ یہاں سے مفتی کے لکھنے کی باقاعدہ شروعات ہوئی، اس کے بعد ایک اور مضمون ’الجھاؤ‘ لکھا، ادبی جریدہ ’ادبی دنیا‘ کے سالنامے میں مفتی کا پہلا افسانہ 1936ء میں ’جھکی جھکی آنکھیں‘ شائع ہوا ۔ اب مفتی باقاعدہ افسانہ نگاری کی جانب مائل ہوئے ۔ دلی سے شائع ہونے والے جریدے ’ساقی‘ میں کہانیاں شائع ہونے لگیں۔لکھنے کے ساتھ ساتھ اس دور کی ادبی شخصیات سے بھی راہ و رسم خوب بڑھ چکی تھی، ان میں عاشق بٹالوی، صلاح الدین ، میرا جی، شاہد احمد دہلوی اور دیگر شامل تھے۔ یہ وہ دور تھا جب کرشن چندر، عصمت، فیاض محمود ، بیدی، منٹو اور غلام عباس کی تحریریں مختلف ادبی رسائل کی ذینت بن رہی تھیں۔ایسے میں ممتاز مفتی بھی کہانی نویسوں اور افسانہ نگاروں میں اپنا نام شامل کرانے میں کامیاب ہوئے۔اسی زمانے میں ترقی پسند تحریک شروع ہوئی فیض اور احمد ندیم قاسمی بھی میدان میں آگئے۔ اب مفتی کی مقبولیت عام ہوچکی تھی۔ ان کی کہانیوں ااور افسانوں کو پسند کیا جانے لگا تھا۔ ممتاز مفتی نے اسکول کی ملازمت کو خیر باد کہا اور ریڈیو میں ملازم ہوگئے۔ممتازمفتی کا پہلا مجموعہ ’ان کہی‘ شائع ہوا۔ 1947ء میں اپنی فلم ’سلطانہ رضیہ‘ فلمانے بمبئی چلے گئے۔ لیکن ان کا دل وہاں نہ لگا اور وہ واپس پاکستان چلے آئے۔ اشفاق احمد اور بانوقدسیہ نے انہیں صحیح سمت دکھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ جس کے لیے ممتاز مفتی کا کہنا ہے کہ’ـ اشفاق اور قدسیہ نے میر دامن خوشی سے بھر دیا‘۔وہ ہفتہ وار’ استقلال ‘ہوائی فوج اور آزاد کشمیر ریڈیو اور اس کے بعد شعبہ اطلاعات سے وابستہ ہوگئے۔ اس وقت تک ان کی کئی کہانیوں کے مجموعے چھپ چکے تھے ان میں گہما گہمی، غبارے، چپ، اسمارائیں، نظام سقہ شامل تھے۔ 1961ء میں ان کی ایک دھماکہ خیز تصنیف سامنے آئی جس نے ممتاز مفتی کو دنیائے ادب میں ایک منجھے ہوئے لکھاری کے طور پر پیش کیا وہ تھی ’علی پور کا ایلی‘، یہ ایک ضخیم کتاب تھی جسے معروف ادیب اشفاق احمد نے شائع کیا تھا۔ ان کی ایک اور کتاب ’گڑیا گھر ‘ بھی شائع ہوا۔

ممتاز مفتی کی شخصیت کی تصویر احمد بشیر نے کچھ اس طرح کھینچی ہے ’ممتاز مفتی بچپن اور سنجیدگی کا امتزاج ہے، چھوٹے قد کا منحنی چہرہ، گدلی گدلی بے جان آنکھیں اور بڑا سا سر‘۔ شخصیت کے بارے میں ممتاز مفتی کہ کہنا ہے انسان کی شخصیت ایک گورکھ دھندہ ہے۔ ایک ایسا الجھاؤ جس کا سر ا نہیں ملتا۔ میری دانست میں انسانی شخصیت کو پیاز سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، فرد کی حیثیت چھلکے کی ہے۔ چھلکے ہی چھلکے ، چھلکے ہی چھلکے یہ ایک دوسرے سے نہیں ملتے ، ایک دوسرے کی شکل قطعی طور پر مختلف اگرچہ بظاہر سب ایک سے نظر آتے ہیں۔ فکر تونسی پر لکھے گئے اپنے خاکے کا عنوان ہی مفتی نے پیاز کا’چھلکا ‘ رکھا ہے اور اپنے شخصی مضامین کے مجموعے کا نام’پیاز کے چھلکے‘ رکھا۔ انسان کی شخصیت کی دوسری مثال ممتاز مفتی انسانی شخصیت کو جادو گر کے ڈبے سے دیتے ہیں۔ ایک ڈبہ کھولو تو اندر سے دوسرا ڈبہ نکل آتا ہے۔ دوسرا کھولو تو تیسرا نکل آتا ہے تیسرا کھولوتو چھوتا ۔ ڈبے میں ڈبہ ، ڈبے میں ڈبہ‘۔ واقعی انسان شخصیت کی مثال کچھ ایسی ہی ہے جو ممتاز مفتی نے بیان کی ہے اورجب میں نے ممتاز مفتی کو بہ حیثیت ایک شخصیت کے مطالعہ کرنے کی کوشش کی تو مجھے بھی اس کی شخصیت پیاز کے چھلکے کی مانند ہی لگی، ایک چھلکے پر دوسرا اور دوسرے پر تیسرا ، آخرمیں سفید خوبصورت لکیریں گول دائرے ہی گول دائرے لیکن ممتاز مفتی کی شخصیت بھی کچھ اسی قسم کی ہے۔ اس کی بعض باتوں سے اختلاف بھی کیا گیا ، یہاں انہیں بیان کرنا مناسب نہیں، جو ادب تخلیق ہوا وہ کیا ہے، ذاتی زندگی میں اگر کسی نے کوئی ایسی بات کی جو قبال گرفت ہوسکتی ہے تو اس کی گرفت ضرور کی گئی۔مثلا قدرت اﷲ شہاب کا ممتاز مفتی کے بارے میں کہنا تھا کہ ’مفتی کی دوستی ایک لاعلاج پھوڑا ہے، اس کی ٹیسوں میں لذت ہے‘۔مفتی کو کبھی موسیقی کا بھی سوق چڑھا رہا، اس کی تحریر کے کئی رنگ ہیں۔ گلاب کے پھول کی طرح حسین، چنبیلی کی طرح بھینی بھینی،موسم ِسرما کی سرد ہواؤں کی طرح سرد برف کے گالوں کی طرح سفید اور حسین۔مفتی کی تحریر اپنے قاری کو مصنوعی ہنسانے کی کوشش بھی نہیں کرتی ، بلکہ عام سے بات، عام زبان میں جو پڑھنے والے کو سوچنے کی جانب مائل کرتی ہے۔ ان کی معروف تخلیقات میں علی پور کا ایلی، انکھ نگری،اوکھے اولڑے ،اور اوکھے لوگ،پیاز کے چھلکے، مہندی والا ہاتھ، چُپ، رام دین ، غبارے، لبیک، ان کہی، تلاش اور مفتیانے (شخصیت نگاری۔مضامین)شامل ہے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1288070 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More