لسانیت زندہ باد اور پاکستانیت

سرحدی گاندھی کہلانے پر جنہیں فخر تھا۔ اور قائداعظم محمد علی جناح سے اتنی محبت تھی کہ نہرو کو سرحد لے آئے۔ یہ تو اس وقت کی غیور عوام تھی۔ جنہوں نے نہرو کو مار بھگایا۔ اور حب الوطنی اتنی تھی کہ افغانستان کے شہر جلال آباد میں دفن ہوئے۔ ان کے پوتے اسفند یار ولی کی پارٹی اے این پی نے دیگر جماعتوں کو ملا کر بالآخر سرحد کو پختونخوا بنا لیا۔ صرف دکھانے کیلئے نواز لیگ نے خیبر کا شوشا بھی لگوا لیا۔ مگر اس پر ہم صرف قوم پرست جماعتوں کو ہی کیا دوش دیں۔ ہماری مذہبی جماعتیں بھی تو اس کھیل میں برابر کی شریک ہیں۔ ویسے تو لسانیت کیخلاف بڑے بڑے دلائل لے کر آ جائیں گی۔ مگر ان کے اعمال سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ جب وقت آیا تو پہلے پختون اور پھر خود کو مسلمان کہلانا، انہوں نے پسند کیا۔

قربان جائیں مولانا فضل الرحمان پر جب سیاسی جماعتوں میں اٹھارویں ترمیم پر اتفاق ہوگیا تو مولانا فرمانے لگے جناب ہم تو کسی بھی متفقہ نام پر رضامند تھے"۔ مگر کیا ہزارہ، چترال، کوہستان اور ڈی آئی خان کی عوام اتنی بے وقوف ہیں وہ بھول گئے ہیں کہ سرحد اسمبلی میں صوبہ کا نام بدلنے کی قرارداد کس نے پیش کی تھی کوئی بھی نہیں بھولا۔ اور سابق وزیراعلیٰ اکرم درانی کو کون بھول سکتا ہے جو اپنی وزارت اعلیٰ کے دور میں بھی پختونخوا کے معاملے میں سرگرم رہے ہیں۔

مہمند ایجنسی کے رہائشی اور صافی قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی نے بھی اس معاملے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بلکہ یوں کہا جائے کہ موصوف نے ایک میڈیا گروپ کو استعمال کرتے ہوئے پختونخواہ کیلئے مہم چلائی تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ موصوف سرحد کیلئے صرف خیبر نام رکھے جانے کے خلاف پر زور دلائل دیتے رہے۔ جب جانچ کی گئی تو معلوم ہوا کہ موصوف کے خیال میں قبائلی علاقے کو مستقبل میں علیحدہ صوبہ بنایا جائے گا۔ جس کا نام خیبر ہوسکتا ہے۔ واہ ۔۔۔۔۔۔۔قبائلی علاقے کو صوبہ سرحد سے ملحق کرنے کی بجائے علیحدہ صوبہ بنانے کے خواہاں ہیں۔ خود کو قبائلی کم اور صوبہ سرحد کا رہائشی قرار دینے والے ان صاحب سے کوئی پوچھے کہ جناب آپ اگر قبائلی علاقے فاٹا کو علیحدہ صوبہ بنانا چاہتے ہیں تو اس پر ہی اصرار کریں۔

پختون خوا کے معاملے پر ریفرنڈم ایک صحیح اقدام تھا مگر کسی نے اس پر توجہ ہی نہیں دی۔ کیونکہ اس سے پختونخوا کا بخار اتر جاتا۔ اور لسانی بنیاد پر صوبائی نام رکھنے کا خواب چکنا چور ہو جاتا۔ مگر کیا کیا جائے بقول شاعر
باغبان نے آگ دی جب آشیانے کو میرے
جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے

میں نے ابتدا میں خیبر کے نام کو شوشا اس لئے کہا کہ صرف دکھانے کیلئے نواز لیگ بھی اس پر راضی ہوگئی۔ مسلم لیگ ن کی قیادت نے اپنی صوبائی قیادت تک کو مایوس کیا۔ اس معاملے پر کسی نے سنی تو وہ مسلم لیگ ق تھی۔ جو لسانیت کے خلاف ڈٹی رہی۔ پختونخوا کے نام کے ساتھ نواز لیگ نے خیبر کا لاحقہ لگا کر عوام کو جھوٹی تسلی تو دیدی مگر ہم دیکھتے ہیں سرحد کے وزیراعلیٰ ہوں یا وزیراطلاعات بلکہ پوری سرکاری مشینری صرف جشن اس بات کا منارہی ہے کہ سرحد کا نام پختونخوا ہوگیا ہے۔ تقاریر میں بھی پختونخوا نام ہی لیا جارہا ہے۔

پختونخوا کے نام کے دفاع میں ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ جناب ہم اکثریت میں ہیں بھائی اکثریت بن کر مسلط ہی ہونا ہے تو پھر شروع کردیجئے یہ کھیل۔ گھونٹ دیجئے سب کا گلہ۔ بلوچستان کا نام بھی تو آسانی سے تبدیل ہوسکتا ہے۔ اس وقت وہاں بلوچ قبائل سے زائد پختون اور افغان آباد ہیں۔ وہاں بھی اکثریت کی بنیاد پر ایک پختونستان بن سکتا ہے۔ ویسے بھی پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ان کا بس چلے تو وہ جہلم تک کے علاقے کو پختونستان میں شامل کرلیں۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہزارہ، چترال، کوہستان اور ڈی آئی خان میں جو قبائل آباد ہیں۔ ان کی بھی ماضی میں مادری زبان پشتو رہی ہے۔ اور وہ بھی پہلے پختون تھے۔ جناب ماضی کی بات کی جائے گی تو قصہ حضرت آدم علیہ السلام تک چلا جائے گا۔ بات آج کی ہورہی ہے اور دلیل کا جواب بھی آج کے حالات میں ہی دینا چاہئے۔

سازش کے تحت غیر پشتون علاقوں میں شناخت کا مسئلہ تو پیدا کر ہی دیا گیا ہے۔ اب مختلف مقامات احتجاج اور ہڑتالیں جاری ہیں۔ حتیٰ کہ ہزارہ میں علیحدہ صوبہ بنانے کی تحریک میں تیزی آگئی ہے۔ اب لگتا یہی ہے کہ وحدت وطن کے خلاف سازش میں سرگرم عناصر اکثریتی زبان کو اسکولوں میں لازمی کرنے کا شوشا چھوڑیں گے۔ کیونکہ ان سے یہی امید کی جاسکتی ہے۔
Qazi Muhammad Yasir
About the Author: Qazi Muhammad Yasir Read More Articles by Qazi Muhammad Yasir: 2 Articles with 1189 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.