حکیم محمد سعیدشہید۔تحقیق کے آئینے میں(قسط ۔ ۱)

شہید حکیم محمد سعید کی شخصیت اور ان کی علم، ادبی، سماجی خدمات سے کون واقف نہیں۔ 17اکتوبر2015ء کو انہیں ہم سے رخصت ہوئے17برس بیت گئے۔ حکیم سعید کی شخصیت کئی پہلو لیے ہوئے ہے۔ ان کا اپنا علمی کام معیاراور تعداد کے اعتبار سے قابل ذکر ہے۔حکیم صاحب کی شخصیت و خدمات کے حوالے سے مختلف جامعات و دیگر تعلیمی اداروں میں تحقیقی کام ہوئے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ذیل میں ذیل میں دیا گیا مضمون مصنف کے پی ایچ ڈی مقالے سے ماخوذ ہے۔ مصنف شہید حکیم محمد سعید پر پر پی ایچ ڈی کرنے والوں میں سر ِ فہرست ہیں۔ حکیم صاحب کی کتاب اور کتب خانوں کے حوالہ سے پی ایچ ڈی کی سطح پر یہ اولین تحقیق ہے جسے جامعہ ہمدرد سے 2009میں پی ایچ ڈی کی سند عطا کی گئی۔ مقالہ بعنوان ’’پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی تر قی میں شہید حکیم محمد سعید کا کردار‘‘ہے۔ مضمون میں صرف حکیم محمد سعید کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر اختصار سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ مضمون روزنامہ ’جناح‘‘اسلام آباد ، لاہور ، کرچی نے اپنی اشاعت 17،18اکتوبر 2015کو شائع کیا۔ اس موضوع پر مصنف کے متعدد مضامین دیگر اخبارات و رسائل میں ہو چکے ہیں۔

شہید حکیم محمد سعید

شہید حکیم محمد سعید کی 17ابرسی کے موقع پر
(روزنامہ ’جناح‘‘اسلام آباد ، لاہور ، کرچی نے اپنی اشاعت 17،18اکتوبر 2015کو شائع کیا)

شہیدحکیم محمد سعید جنہیں آج سے ۱۷ سال قبل ۱۷ اکتوبر ۱۹۹۸ء کو روزہ کی حالت میں شہید کردیا گیا تھا۔آپ دنیائے اسلام کی ایک نامور ،قابل احترام اور کثیر الجہات شخصیت تھے جن کی خدمات کا دائرہ بے شمار شعبہ ہائے زندگی تک پھیلا ہوا ہے، خاص طور پر معاشرہ کی بہبود اور عالم اسلام کی فلاح، علم و حکمت، طب و سائنس، تہذیب و ثقافت، تعلیم و تربیت، صحافت، رسائل و جرائد اور اشاعت کتب، عربی زبان کی ترویج و ترقی، کردارو اخلاق کی تعمیر، نونہالوں کی تعلیم و تربیت، تعمیر و استحکام وطن کے علاوہ پاکستان میں لائبریری تحریک اور کتب خانوں کی ترقی و فروغ میں آپ کی خدما ت نمایاں، فقید المثال اور دور رس اثرات کی حامل ہیں۔بقول اسلم لودھی’آپ کا شمار ان عظیم المرتبت افراد میں ہوتا ہے جن کی زندگی کا بنیادی مقصد خدمت اور تعمیر و ترقی وطن رہا،آپ نے اپنی زندگی میں قومی سطح پر خلوص و شفقت، علم و فضل اور ایثار و قربانی کے انمٹ نقوش چھوڑے‘‘۔ چیف جسٹس (ر) انوار الحق کے بقول ’حکیم محمد سعید ایک ایسے انسا ن تھے جن کے کمالات کے دائرے کا احاطہ کرنے بیٹھیں تو آدمی دنگ رہ جاتا ہے کہ کوئی اکیلا آدمی اتنے مفید کام بھی کر سکتا ہے، اس وسیع پیمانہ پر‘ ۔

کتاب اور کتب خانہ حکیم محمد سعید کی شناخت ہے جو تاابد آپ کو زندہ وجاوید رکھے گی، اپنی اس شناخت سے آپ کو بے حد عقیدت اور لگاؤ تھا جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ جب آپ نے شہر علم مدینتہ الحکمہ کے بارے میں اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کا منصوبہ تیار کیا تو اس قطعہ اراضی پر کہ جس پر شہر علم بسایا گیا ہے سب سے پہلے پائے تکمیل کو پہنچنے والی عالی شان عمارت لائبریری کی تھی جو بیت الحکمہ کے نام سے معرض وجود میں آئی۔ اس لائبریری کو بجا طور پر دنیا کی ایک منفرد، مثالی اور ایشیاء کی بڑی لائبریری ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ نے اس کتب خانے کا نام بیت الحکمہ رکھا تو آپ کے ذہن میں اسلامی دور کا وہ تاریخی ادارہ بیت الحکمت کا تصور جاگزیں تھا جسے عباسی خلیفہ جعفر المنصور (المتوفی 135ھ۔158 ھ) نے بغداد میں قائم کیا تھابعد میں خلیفہ ہارون الرشید (المتوفی 170ھ۔ 391ھ) نے اسے تر قی دی۔ گویا آپ کسی بھی تعلیمی ادارے کی اصل روح کا ادراک رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ شہر علم (مدینتہ الحکمہ) کی اصل روح (بیت الحکمہ) کی تخلیق کو اولیت دی گئی اوربیت الحکمہ کی تعمیر کے بعد دیگر تعلیمی اداروں جن میں اسکول، کالج،یونیورسٹی اور انسٹی ٹیوٹس شامل تھے کا قیام عمل میں لایا گیا۔

حکیم محمد سعید ان صاحب فضل و کمال شخصیات میں سے تھے کہ جن کی ضیاء علم و دانش نے بیسویں صدی کو منور اور تابناک بنا دیا۔ آپ کا نقطہ نظر واضح، رائے دو ٹوک اور مصلحت سے پاک تھی، آپ انسان دوست، درد مند معالج، محقق اوردانش ور، تاریخ دان، فروغ تعلیم کے داعی، مدیر مولف و مصنف، اعلیٰ منتظم، اسلامی علوم پر ماہرانہ نظر رکھنے والے، ملکی سیاست کے نباض، حقیقت پر مبنی سوچ و فکر کے حامل اور ایک وضع دارانسان تھے۔ بقول ایس ایم ظفر’حکیم محمد سعید خون کے آخری قطرہ تک محب وطن تھے‘۔ درحقیقت آپ کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت ہے ۔ رحیم بخش شاہین کے مطابق ’عام طور پر لوگ سانسوں کی گنتی اور شب و روز کے شمار کو زندگی سمجھتے ہیں جب کہ حکیم محمد سعید کے نزدیک زندگی سعی پیہم اور جہد مسلسل کا نام ہے ‘۔

حکیم محمد سعید کے آباؤ اجداد کا تعلق چین کے شہر سنکیانگ سے تھا جہاں سے یہ خاندان سترھویں صدی کے آغاز میں ہجرت کر کے پشاور منتقل ہوا، تقریباً 80 سال بعد اس خاندان نے پشاور سے ملتان ہجرت کی اور 135 برس پنجاب کی سرزمین کو اپنا مسکن بنائے رکھا۔ اٹھارویں صدی کے دوسرے عشر ہ میں آپ کے خاندان کے افراد نے پنجاب کی سرزمین کو الوداع کہتے ہوئے دہلی ہجرت کی اور حوض قاضی کو اپنا مسکن بنایا۔ 1856ء میں حکیم محمد سعید کے پردادا دہلی چھوڑ کر پانی پت چلے گئے آپ کے دادا حافظ شیخ رحیم بخش1864ء اور نانا کریم بخش1861 ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کے دادا مزاجاً مہم جو واقع ہوئے تھے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد پیلی بھیت منتقل ہو گئے، وہیں پر حافظ شیخ رحیم بخش کی شادی ہوئی، 1883ء میں حکیم محمد سعید کے والد حافظ حکیم عبدالمجید کی پیدائش ہوئی، 1886 ء میں آپ کے چچا حافظ عبدالرشید پیدا ہوئے۔ آٹھ برس پیلی بھیت میں رہنے کے بعد آپ کے دادا دوبارہ دہلی چلے گئے اور حوض قاضی کو ازسر نو آباد کیا۔

حکیم محمد سعید9 جنوری1920 ء (16 ربیع الثانی 1338ھ) کو صبح چار بج کر سترہ منٹ پر ہندوستان کے شہر دہلی کے کوچہ کاشغری، بازار سیتارام میں پیدا ہوئے۔ برصغیر کے معروف عالم دین حضرت مولانا احمد سعید نے آپ کا نام’’محمد سعید‘‘ رکھا۔ سعید کے معنی ہیں’ سعادت، مبارک، بابرکت، نیک، خوبیوں والا، خیر و عافیت والا‘۔ آپ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ابھی آپ صرف ڈھائی برس کے تھے کہ آپ اپنے والد حکیم عبدالمجید (ولادت22 جون 1883ء، بمقام پیلی بھیت۔ وفات 22جون 1922ء) کے سایہ سے محروم ہوگئے آپ کے والد حافظ قرآن تھے اور ان کا روحانی تعلق حضرت خواجہ باقی باﷲؒ سے تھا۔

1900ء میں حکیم حافظ حاجی عبدالمجید بانی دواخانہ ہمدرد کا نکاح رابعہ بیگم سے ہوا ۔ آپ انتہائی نیک، اطاعت اور خدمت گزار، نماز و روزہ کی پابند، پردہ کی پابند، محنتی، وفاشعاراور معاملہ فہم خاتون تھیں۔ خواجہ حسن نظامیؒ نے آپ کومادر ہمدرد کا خطاب دیا تھا۔ محترمہ رابعہ بیگم کے انتقال کے بعد خواجہ حسن نظامیؒ نے ان کے احترام میں ایک کتاب بعنوان ’مادر ہمدرد‘‘ لکھی ا پنی والدہ کے بارے میں حکیم محمد سعید نے لکھا’ میری والدہ نہایت نرم مزاج خاتون تھیں، مگر ساتھ ہی گرم مزاج بھی تھیں۔ ساری زندگی اصول کے خلاف کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھیں۔ ان کی تربیت کا سارا زور اخلاق پر تھا ۔ بداخلاقی پر سخت سزا دیتی تھیں‘ ‘۔ آپ لکھتے ہیں کہ ’’اگر ان میں یہ عظمتیں نہ ہوتیں تو ا با جان کے انتقال کے بعد ہمدرد باقی کہاں رہ سکتا تھا‘ ۔

حکیم محمد سعید کے والد حکیم عبدالمجید ایک مستقل مزاج شخص تھے۔ آپ کو ادویات کے خواص میں خاص دلچسپی تھی۔ شوق اور مہارت کے باعث انھوں نے مسیح الملک حکیم اجمل خاں کے قائم کردہ ہندوستانی دواخانے میں ملازمت کرلی۔ اس عرصے میں طب کامطالعہ بڑی گہرائی اور طب کی متعدد کتابوں کا مطالعہ بڑی باریک بینی سے کیا۔ آپ کو جڑی بوٹیوں سے گہرا شغف تھا اور ان کی پہچان کا ملکہ حاصل تھا آخر کار انہوں نے نباتات کے میدان میں اترنے کا نہ صرف فیصلہ کیا بلکہ بیماریوں کی شفاء کے لیے ہندوستان بھر سے جڑی بوٹیاں حاصل کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔ بقول حکیم محمد سعید ’آپ ایک بلند پایہ نبض شناس تھے۔ یعنی جڑی بوٹیوں کے ماہر‘۔ حکیم عبدالمجید بڑی محنت سے حکیم اجمل خان کے ساتھ کام کر رہے تھے کہ انھیں احساس ہوا کہ حکیم اجمل صاحب ان کی دیانت پر شک کرنے لگے ہیں۔ غیرت فطرت نے یہ شبہ برداشت نہ کیا اور اس عظیم انسان نے ایک تاریخ ساز فیصلہ کیا۔ ۱۹۰۶ء میں اپنے سسر رحیم بخش صاحب سے کچھ پیسے لے کر ہمدرد کی بنیاد ڈالی اور اس کے ساتھ ساتھ جڑی بوٹیوں کی تجارت بھی شروع کی۔ ہمدرد دکان کو چلانے کے لیے حکیم عبدالمجید نے نباتات سے دوائیں بنانا شروع کیں اور ان کی اہلیہ رابعہ بیگم نے ہر مرحلے پر اپنے شوہر کا ہاتھ بٹایا۔

ہمدرد دواخانے کی پہلی دوائی ’حب مقوی معدہ‘ تھی۔ رابعہ بیگم اور ان کی بہن فاطمہ بیگم دونوں عبدالمجید صاحب کا ہاتھ بٹاتی تھیں اور سل بٹے سے نباتات پیس کر ہاتھ سے گولیاں بناتی تھیں۔ حوض قاضی سے ہمدرد کی منتقلی لال کنویں کی ایک دکان میں ہوئی اور جب اس کاروبار میں وسعت پیدا ہوئی تو اس کو لال کنویں سے اس کی ابتدائی جگہ منتقل کرنا پڑا۔ ۲۱ مارچ ۱۹۲۲ء کو اس جگہ سے ہمدرد کے نئے دور کا آغاز ہوا حکیم عبدالمجید کی انتھک محنت اورمستقل مزاجی نے ہمدرد کو ناقابل تسخیر بنا دیا۔ ۲۳ مارچ ۱۹۲۲ء کو ہمدرد کا نیا دور شروع ہوا، لیکن افسوس اس نئے دور کی افتتاحی تقریب کے دوران حکیم عبدالمجید علیل تھے اور اس عظیم الشان تقریب میں شرکت نہ کر سکے۔ ۲۲ جون ۱۹۲۲ء کو ۳۹ سال کی عمر میں آپ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہونے کے لیے ہمدرد کا ایک باب کھلا چھوڑ گئے۔ اس وقت حکیم محمد سعید کی عمر ڈھائی برس تھی، آپ کی پرورش آپ کی والدہ رابعہ بیگم اور آپ کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے کی۔

شہید حکیم محمد سعید کی رسم بسم اﷲ ۱۹۲۲ء میں تین برس کی عمر میں ادا ہوئی۔ ہندوستان کے معروف عالم مولانا احمد سعید نے قرآن مجید کی سورۃ خلق کی پہلی آیت پڑھائی۔ اس موقع پر بچوں کی نماز با جماعت کا بھی اہتمام ہوا۔ تقریب کے دولھا نے امامت کے فرائض سر انجام دیے اس طرح آپ بچوں کی جماعت کے امام ہوئے اور نماز عصر پڑھائی۔ تین برس کے حکیم محمد سعید نے جگت چچی کے گھر قرآن مجید پڑھنا شروع کیا اور صرف پانچ برس کی عمر میں قرآن مجید ختم کر لیا۔ ’’رسم آمین‘‘ کی تقریب کا اہتمام بھی بڑے پروقار طریقے سے ہوا۔ ناظرہ قرآن مجید پڑھنے کی سعادت حاصل ہو جانے کے بعد آپ کی والدہ نے فیصلہ کیا کہ اب ان کا بیٹا اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے قرآن مجید حفظ کرنے کی سعادت حاصل کرے گا۔ اس عظیم مقصد کے حصول کے لیے آپ کوحوض قاضی، اجمیری دروازہ، دہلی کی اونچی مسجد’ مسجد گاڑی بان‘ میں قائم مدرسہ تعلیم القرآن میں داخل کرا دیا گیا۔ مسجد کے پیش امام حافظ عمر دراز علی نے آپ کو قرآن مجید حفظ کر ایا۔ اس وقت حکیم محمد سعید کی عمر نو برس تھی۔ ۱۹۲۷ء میں آپ نے اپنی والدہ کے ہمراہ پہلی بار حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کی۔ اس سے قبل آپ چھ برس کی عمر میں پہلا روزہ بھی رکھ چکے تھے۔

حکیم محمد سعید حصول علم سے کبھی غافل نہ ہوئے، دینی تعلیم مکمل ہو جانے کے بعد آپ کی باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔ ابتدائی تعلیم آپ نے ماسٹر ممتازحسین اور ماسٹر اقبال حسین سے حاصل کی جب کہ عربی و فارسی کے استاد قاضی سجاد حسین تھے ۔ قاضی سجاد حسین کا شمار اس وقت ہندوستان کے عربی اور فارسی کے نامور علماء اور اساتذہ میں ہوتا تھا۔ اپنے بڑے بھائی کی ہدایت پر آپ نے طب کا خاندانی پیشہ اختیار کرنے اور طب کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا، ۱۹۳۶ء میں جب کہ آپ کی عمر ۱۴ برس تھی آپ مسیح الملک حکیم محمد اجمل خاں کے قائم کردہ آیور ویدک اور یونانی طبیہ کالج دہلی میں طب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخل ہوئے یہاں پر آپ کے اساتذہ حکیم عبدالحفیظ، میجر ظفر یاب حسین اور ڈاکٹر اے جی قریشی تھے۔ پاکستان ہجرت کے بعد جب آپ طبیب کی حیثیت سے خدمات سر انجام دے رہے تھے اور ہمدرد کے فروغ و ترقی کے لیے کوشاں تھے آپ نے محسوس کیا کہ آپ کو انگریزی زبان میں گفتگو کے دوران مشکلات پیش آرہی ہیں تو آپ نے بلا جھجک انگریزی میں مہارت حاصل کرنے کا فیصلہ کیا اور اس مقصد کے لیے باقاعدہ انگریزی کے ماہر کی خدمات حاصل کیں۔ آپ نے لکھا کہ ’انگریزی زبان میں گٹ پٹ کرنے کی مشق کراچی میں کی۔ میری استاد شفیقہ ائرمارشل میکڈانلڈ، کمانڈر انچیف پاکستان ائر فورس کی اہلیہ تھیں‘ ۔ اس عمل سے آپ نے ثابت کیا کہ حصول علم میں وقت اور عمر کی قید نہیں۔ انسان عمر کے کسی بھی حصہ میں باقاعدہ علم حاصل کر سکتا ہے۔حکیم محمد سعید کی شادی ان کی خالہ زاد محترمہ نعمت بیگم سے ۱۹۴۳ء میں دہلی میں ہوئی۔ نعمت بیگم ایک مثالی وفادار صابر و شاکر اور خدمت گزارخاتون تھیں۔ حکیم محمد سعید کے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید نے انھیں ایک ایثار پیشہ خاتون قرار دیا۔ حکیم محمد سعید نے اپنی زندگی کی کہانی میں اپنی شریک حیات کے بارے میں تحریر فر مایا کہ’اگر ایسی معصوم شریک حیات مجھے نہ ملتیں تو شاید میں وہ سارے کام نہ کرسکتا کہ جو میں نے کر لیے ہیں۔ انھوں نے ہر تکلیف برداشت کرکے میری راحت کو ہر راحت پرمقدم رکھا۔ جب غربت کا دور دورہ تھا تو بھی وہ ثابت قدم رہیں۔ ہم دونوں نے خاموشی سے فاقے بھی کر لیے۔ پھر جب کراچی میں ہمدرد کے قیام کا وقت آیا تو اس عظیم خاتون کے پاس جو زیور تھا وہ سب مجھے دے دیا اور ہمدرد کے قیام میں اس عظمت نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا‘۔

حکیم محمد سعید اور محترمہ نعمت بیگم کی رفاقت ۳۸ برس پر محیط ہے۔ آپ کی شریک حیات نے ایسا حق رفاقت ادا کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ ۱۸ اگست ۱۹۸۱ء دن کے دو بجے اﷲ کو پیاری ہوئیں۔ حکیم صاحب کی اولاد میں ایک بیٹی سعدیہ راشد ہیں جو محترم حکیم صاحب کے بعد ہمدرد کے جملہ امور کی نگراں و سرپرست ہیں۔حکیم محمد سعید اپنے بڑے بھائی حکیم عبدالحمید سے بہت متاثر تھے۔ حکیم عبدالحمید کو بھی آپ سے بے انتہا محبت تھی، بڑے بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی کی پرورش میں کوئی کسراٹھا نہ رکھی۔ در حقیقت حکیم محمد سعید کی تعلیم و تربیت، سیرت اور ان کی شخصیت کی تعمیر میں آپ کی والدہ رابعہ بیگم اور آپ کے بڑے بھائی کا بڑا ہاتھ تھا۔ دونوں کی تربیت نے آپ کو ایک مثالی انسان بنا دیا۔ حکیم صاحب نے اپنی کہانی میں تحریر فر مایا کہ ’’ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میرے بڑے بھائی جان نے میری تربیت اور محبت کی خاطر اپنی ہر چیز قربان کر دی۔ وہ زندگی کے ہر لمحے میرے سامنے ایک نمونہ بن کر رہے ہیں اور مجھے انھوں نے انسان بنا دیا۔‘‘ایک اور جگہ آپ نے اعتراف کیا کہ ’’میرا رواں رواں ان کا زیر احسان ہے۔‘‘ اپنے بڑے بھائی سے تمام عمر ہدایت و رہنمائی حاصل کرتے رہے۔ درحقیقت حکیم محمد سعید کی زندگی اپنے بڑے بھائی کا پرتو ہے۔ وہی ان کے آئیڈیل تھے۔ خود ان کے بقول ’’زندگی کی ہر دوڑ میں اور سعی و جہد کی ہر منزل میں تتبع حمید سے غافل نہیں رہا۔‘‘ ایک اور جگہ آپ نے لکھا ’میں نے پوری زندگی اپنے بھائی جان محترم کے حکم کی تعمیل کی۔ میں نے ان کو آج تک ناں نہیں کہا ہے‘۔حکیم عبدالحمید بھی اپنے چھوٹے بھائی سے بے پناہ محبت کیا کرتے تھے حتیٰ کہ آپ حکیم سعید سے اس حد تک مطمئن تھے کہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ ’ اگر سرسیدؒ مرحو م مسدس حالی اﷲ کے سامنے پیش کریں گے تو میں حکیم سعیدکو پیش کر دوں گا‘۔ اگر مبالغہ نہ سمجھا جائے تو یہ بات غلط نہ ہوگی کہ آج پاکستان میں حکیم محمد سعید صاحب کا جو کارنامہ مدینتہ الحکمہ کی شکل میں نظر آتا ہے وہ بھی حکیم عبدالحمید صاحب کی تعلیم و تربیت اور مشوروں کا حاصل ہے‘ ۔محترمہ سعدیہ راشد کا کہنا ہے کہ’ ا با جان اپنے بڑے بھائی سے بہت محبت کرتے تھے، بہت احترام کرتے تھے۔ نہ جانے وہ انھیں چھوڑ کر کیسے چلے آئے۔ کہیں انھوں نے ضرور لکھا ہوگا۔ یہ پاکستان کا جذبہ تھا اور مسلم لیگ سے ان کی وابستگی جس نے انھیں پاکستان چلے آنے پرمجبور کر دیا۔ انھیں اپنے بھائی سے بہت محبت تھی اور انھیں چھوڑ کر آنا ان کے لیے یقیناً ایک کٹھن کام تھا۔ میں سمجھتی ہوں یہ اﷲ تعالیٰ کی مشیت تھی۔ اﷲ کو ان سے اچھے کام کرانے تھے۔ انھوں نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی، لوگوں کی بھلائی کے لیے کام کیا‘۔ آپ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ خالصتاً مذہبی تھا۔ نماز،روزہ، تلاوت قرآن مجید، بڑوں کا حد درجہ ادب چھوٹوں کا لحاظ اور شفقت کے ساتھ پیش آناخاندان کا طرۂ امتیاز تھا۔ اس ماحول کا نقشہ حکیم صاحب نے اپنے ایک مضمون میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے ۔’ صبح اٹھے تومحترمہ والدہ صاحبہ کو ہمیشہ ہی جاء نماز پر دیکھا اور سوتے وقت ان کو تلاش کیا تو ان کو جاء نماز پر پایا۔ گھر کا ماحول یہ تھا کہ ہر انسان نمازی تھا۔ ہر شخص حافظ قرآن تھا۔ احترام کا یہ عالم کہ کیا مجال کہ سب سے بڑی بہن کے سامنے زبان کھل جائے۔ والدہ محترمہ اور بھائی کے سامنے ٹوپی کے بغیر جانا مشکل تھا۔ بات کرتے وقت یہ خیال رکھا جاتا تھا کہ آواز نیچی رہے۔ ہماری والدہ محترمہ خاندان کی چوہدری تھیں۔ وہ ہر فرد خاندان، بلکہ ہر فرد معاشرہ سے محبت و احترام سے ملتی تھیں۔ خاطر تواضع کا اہتمام خوب تھا۔ گھر کا ماحول یہ تھا کہ نماز روزے کا بڑا احترام تھا اور تلاوت قرآن حکیم معمولات زندگی۔ اسی بات سے دیانت و صداقت کا درس ملتا رہتا تھا۔ میرے دور میں ماحول یہ تھا کہ محلے کا کوئی بزرگ قریب سے گزر جاتا تو بچے ادب کے ساتھ کھڑے ہو جاتے تھے۔ السلاّمُ علیکم سے استقبال کرتے تھے۔ جواب میں وعلیکم السلام کے ساتھ دست شفقت سے نہال ہو جاتے تھے۔ بچوں کا حال یہ تھا کہ کوئی بزرگ سامان اٹھائے چل رہا ہے تو بچے فوراً سامان ہاتھوں میں لے لیتے تھے اور بزرگ کو ان کے گھر تک چھوڑ آتے تھے ۔ آپ نے اعتراف کیاکہ’’آج میں جو کچھ بھی ہوں، وہ بھائی جان محترم کے نقش قدم پر چلنے کا ثمر ہے۔ بزرگوں کا احترام کر کے میں سعید بنا ہوں‘۔

اپنے والد کے انتقال (۲۲ جون ۱۹۲۲ء) کے بعد ہمدرد مطب کی نگرانی اپنی والدہ کی سرپرستی میں حکیم عبدالحمید نے سنبھال لی تھی اس وقت آپ کی عمر ۱۳ برس تھی جب کہ حکیم محمد سعید صرف ڈھائی برس کے تھے۔ ابتدائی تعلیم و تربیت اور طبی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حکیم محمد سعید اپنے بھائی حکیم عبدالحمید کے ہمراہ ہمدرد کو مزید فعال بنانے میں مصروف ہوگئے اور پاکستان ہجرت کرنے سے قبل (۱۹۴۰ء ۔ ۱۹۴۷ء) تک بھرپور طریقہ سے ہمدرد کے فروغ کی جدوجہد کرتے رہے۔ دونوں بھائیوں کی زندگی کا مقصد اب طب یونانی کی نہ صرف ترویج و ترقی تھا بلکہ ہمدرد کو ایک دواخانہ سے بڑھا کر خدمت خلق کا ایک عظیم الشان ادارہ بنانا تھا۔ بس یہی ایک دھن ان دونوں کو تھی اور اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کر دی، ان کے خلوص اور لگن کو اﷲ تعالیٰ نے پسند فر مایا اور انھیں قابل رشک کامیابی سے نوازا ۔ اور ہمدرد ایشیا کا سب سے بڑا دوا ساز ادارہ بن گیا۔حکیم محمد سعید نے عطاروں کی مددگاری، نسخہ بندی، عطاری، دوا سازی، پیکٹ و پارسل تیار کرنا بہی کھاتا ،روزنامچہ نویسی، خطوط کے جوابات دینے کے علاوہ ہمدرد کے انتظامی امور میں مہارت حاصل کر چکنے کے بعد باقاعدہ مطب شروع کیا۔ ۱۹۴۰ء میں آپ کو ہمدرد کے جملہ امورِ انتظامی بھی سونپ دیے گئے۔ اب حکیم محمد سعید ہمدرد کے سب کچھ تھے۔

۲۳ مارچ ۱۹۴۰ء کو لاہور کے مقام پر ہونے والے تاریخی جلسہ عام جس میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی اس میں حکیم محمد سعید شریک تھے۔ قرار داد پاکستان پیش کیا جانے والا روح پرور منظر سعید ملت کے ذہن میں نقش ہو کر رہ گیا قائداعظم محمد علی جناح کی تقاریر نے آپ کے ذہن کو جلا بخشی۔ وہ بنیادی طور پرتحریر و تحقیق کے آدمی تھے۔ شہر دہلی سیاست کا گڑھ تھا۔ قائد اعظم دہلی میں اکثر قیام کرتے تھے اس طرح سعید ملت اکثر و بیشتر ان کی زیارت سے فیض یاب ہوتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکیم صاحب کے مختلف سیاست دانوں سے تعلقات استوار ہو چکے تھے اور وہ ان کے خیالات سے بہرہ مند ہوتے پھر حکیم صاحب کا منطقی ذہن سیاسی حالات کا تجزیہ کرتا جو اکثر درست ثابت ہوتا او ر پرانی گرہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ ۱۹۴۰ء کے بعد تحریک پاکستان میں حیران کن برق رفتاری آگئی۔ ادھر سعید ملت خانقاہی مزاج رکھنے والے تنہائی پسند نہیں تھے ان کی ملاقات زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے انسانوں سے ہوتی۔ ہمدرد کی وجہ سے بڑی شخصیات کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوتا۔ اپنے ذاتی مراسم، مشاہدے اور غور و فکر کا عادی ہونے کی وجہ سے وہ چشم بینا کے مالک بن چکے تھے۔ ان کی بصیرت پکار پکار کر ان کو منزل کے تعین پر مجبور کر رہی تھی۔ ہندوؤں کا چہرہ بے نقاب ہو چکا تھا۔ گاندھی کی منافقت کھل کر سامنے آچکی تھی۔ قائد اعظم اپنی اصول پرستی اور خلوص بے کراں کی بنا پر برصغیر کے سیاسی افق پر چھا رہے تھے۔ مسلم لیگ مسلمانان برصغیر کی واحد نمائندہ جماعت بن کر ابھر چکی تھی۔ فرنگیوں کی نا انصافیوں اور بدعہدیوں کا نگریس کی کہہ مکرنیوں، وعدہ خلافیوں اور ہٹ دھرمیوں، اپنوں بیگانوں کی جفاؤں کے باوجود قیام پاکستان کی راہ ہموار ہو چکی تھی بلکہ لب بام دو چار ہاتھ رہ گیا تھا اور کمند بفضل خدا بڑی مضبوط تھی۔

حکیم محمد سعید نے غور فکر کے بعد بہت بڑا فیصلہ کیا اور وہ یہ تھاکہ ’’ بھارت میں جس انداز کی حکومت قائم ہوگی میں اس کا وفادار نہیں رہ سکتا، لہٰذا مجھے پاکستان جانا ہوگا‘‘۔ یہ اتنا بڑا فیصلہ تھا جسے دیوانگی قرار دیا جاسکتا تھا۔ یہ تاج شاہی چھوڑ کرکاسۂ گدائی تھامنے والی بات تھی۔ جھونپڑی سے محل میں جانا آسان ہوسکتا ہے، لیکن محل سے جھونپڑی میں آنے کے لیے جرات رندانہ کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔ پاکستان آنے کا مطلب یہ تھا کہ زندگی کا آغاز از سر نو کیا جائے اور وہ بھی بے سرو سامانی کے نقطہ آغاز سے، کیوں کہ بھارت میں ہمدرد کے جملہ اثاثے وقف ہو چکے تھے۔ اس سے بڑی بات، عاشق زاربھائی کی مخالفت کا سوہان روح خیال تھا۔ وہ بھائی جس کے ہر فیصلہ کو شہید پاکستان حرف ِآخر قرار دیتے تھے، لیکن یہ حب اختیاری کا معاملہ تھا،اب خواہ اختیاری ہو یا غیر اختیاری، مصائب و آلام اس کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ یہ خاردا ر راستے پر ننگے پاؤں چلنے والا معاملہ ہوتا ہے اسے دو دھاری تلوار پر گامزن ہونا بھی کہتے ہیں۔

پنڈت جواہر لال نہرو سے سعید ملت کے خوش گوار تعلقات تھے اس سلسلے میں آپ نے ایک بار دو ٹوک الفاظ میں کہا’میں پنڈت جواہر لال نہرو کا قریبی دوست ہوسکتا ہوں، لیکن اس کی حکومت کا وفادار نہیں ہوسکتا۔ منافقت کی مجھ میں صلاحیت ہی نہیں۔‘ یہ الفاظ ادا کر کے سعید ملت نے اسلامی تعلیمات کا خلاصہ بیان کر دیا تھا۔ وہ اسلام جو سعید ملت کا اوڑھنا بچھونا تھا ۔ پھر چودہ اگست ۱۹۴۷ء والا سورج طلوع ہوا۔(16اکتوبر2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1289587 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More