شہیدِ محراب: عمرؓ ابنِ خطاب

اسلامی سال کے آغاز میں ہی خسر رسولؐ ، مراد رسولؐ، خلیفہ ثانی شہیدِ محراب حضرت عمر ابن خطاب کا یوم شہادت تمام اہل ایمان کو افسردہ کردیتا ہے۔ آپٓ کا نام عمر ؓ ‘لقب فاروق اور کنیت ابوحفص تھی والد کا نام خطاب تھا۔ آپؓ طاقتور، باوقار سردار گھرانے کے چشم و چراغ تھے‘آپ کا خاندان مکہ میں ممتاز حیثیت رکھتا تھا۔حضرت عمر فاروقٓ کا سلسلہ نسب نسب آٹھویں پشت میں حضورٓسے جا ملتا ہے۔آپ ٓ نے سن ۶ نبوی میں ۳۳ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔

حضرت عمر فاروق ؓ کو مرادِ رسولؐ بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ آپٓ کے لیے نبی اکرم ؐ نے دعا فرمائی تھی کہ اے اﷲ عمر بن خطاب یا عمر بن ہشام کے زریعے اسلام کو عزت دے‘‘۔ آپ ؐکی یہ دعا حضرت عمربن خطابؓ کے حق میں قبول ہوئی۔ آپ ؓ کے قبول اسلام کا واقعہ بھی بہت مشہور ہے کہ آپ ؓ گھر سے تلوار لے کر رسول اﷲ ٓ کے قتل کا ارادہ کرکے چلے تھے۔راستہ میں ایک صحابی نے پو چھا کہ اس طرح تلوار لیے کہاں جاتے ہو ؟کہا اس شخص کے قتل کے لیے جارہا ہوں کہ جس نے قریش میں تفرقہ ڈال رکھا ہے انہوں نے کہا اے عمر ! پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو تمھاری بہن اوربہنوئی اسلام قبول کر چکے ہیں۔ ان کیبہن اوربہنوئی کو حضرت خبا بؓ ان کو قرآن سکھاتے تھے، جس وقت آپؓ بہن کے گھر پہنچے تو وہ موجود تھے لیکن بہن نے ان کو اور قرآن پاک کے اجزا کو چھپا لیا ، حضرت عمر ؓکے کانوں میں قرآن کی تلاوت کی آواز آچکی تھی ، انہوں نے بہن حضرت فاطمہؓ اور بہنوئی حضرت سعید ؓ کو خوب مارا یہاں تک کہ ان کی بہن لہو لہان ہوگئیں۔بہن کا خون بہتا دیکھ کر آپ ؓ نرم پڑ گئے ہوئے اور کہا ،یہ جو کا غذ تم پڑھ رہے تھے مجھے دو۔بہن نے کہا تم نجس ہوقرآن کو ہاتھ نہیں لگا سکتے ہو چنانچہ آپؓ نے غسل کیا اسلام قبول کرنے کا ارادہ کرلیااور سورہ طہ نے دل پہ اثر کیا ‘ حضرت خبابؓ جو چھپے ہوئے تھے ‘ وہ ظاہر ہوگئے اور کہا عمرمبارک ہو، اﷲ کے رسول ؐ کی دعا تمہارے حق میں قبول ہوئی ہے۔پھرآپ ؓکو آنحضرتؐ کی خدمت میں لائے اور آپؓ مسلمان ہوگئے۔

حضرت صہیب بن سنانؓ کہتے ہیں کہ جب حضرت عمرؓ اسلام لائے تو اسلام کو غلبہ نصیب ہوا ‘ اسلام کی تبلیغ اعلانیہ شروع ہوئی ‘ ہم حلقے باندھ کر کعبہ کے ارد گرد بیٹھنے لگے ‘ بیت اﷲ کا طواف کر نے لگے‘اب جو ہم پر زیاتی کرتا،اس سے ہم بدلہ لینے کے قابل ہوگئے۔حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓکا قبول اسلام ‘ آپؓ کی ہجرت اور خلافت ہمارے لیے فتح ‘نصرت اور باعث رحمت ثابت ہوئی اور خانہ خدا (کعبہ) میں سب سے پہلے اسلام کا نام آپؓ ہی نے بلند کیا تھا۔حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ہر شخص نے خفیہ ہجرت کی‘ لیکن حضرت عمرؓ نے ہجرت کا ارادہ کیا تو ایک ہاتھ میں تلوار لی ‘دوسرے میں تیر اورپشت پر کمان کو لگا کر خانہ کعبہ میں تشریف لا ئے ‘ ساتھ مرتبہ طواف کیا ‘دو رکعتیں مقام ابراہیم پر کھڑے ہوکر ادا کیں‘ پھر سرداران قریش کے حلقہ میں تشریف لائے اور ایک‘ایک سے کہا جو شخص اپنی اولاد کو یتیم ‘بیوی کو بیوہ کرانا چاہتا ہے وہ آکر میرا راستہ روک کر دکھا ئے ‘ لیکن کسی میں جرات نہ ہوئی۔قبول اسلام کے بعد آپ ؓ مکہ میں سات سال‘ مدینہ میں دس سال حضور ؐ کے قریب رہے،ستائیس غزوات نبویؐ میں شریک ہوئے کسی بھی موقع پہ غیر حاضر نہ ہوئے۔

آپؓ کے متعلق نبی اکرم ؐ نے متعدد ارشادات فرمائے جن میں سے چند یہ ہیں ، آپؐ نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا۔ (ترمذی) ایک اور موقع پر آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ جس راستے سے عمر گزرتا ہے ، شیطان وہ راستہ چھوڑ دیتا ہے۔ ( بخاری و مسلم ) آپؐ نے فرمایا ’’ عمرؓ کی زبان پر خدا نے حق جاری کردیا ہے۔ ( بہیقی )

حضرت امام سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی وفات کے بعد 23جما دی الثانی 13ہجری بمطا بق 634ء میں آپؓکے کاندھوں پر خلافت کا بار ڈالا گیا۔ آپ ؓ نے دس سال چھ ماہ دس دن تک 22 لاکھ مربع میل زمیں پر اسلامی خلافت قائم کی۔آپ ؓ کے دور میں ایک ہزار چھتیس علاقے فتح ہوئے ۹ سو جامع مسجد اور ۴ ہزار چھوٹی مساجد تعمیر ہوئیں۔آپ ؓ کے زمانہ خلافت میں دین اسلام کو جو رونق اور سلطنت کو جو وسعت ملی تاریخ اسلام میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔شام ‘ فلسطین ‘مصر‘ عراق ‘آذر با ئی جان ‘کر مانیستان ‘ مکران ‘ خراساں اور دیگر بلاد عجم عہد فاروقی میں ہی اسلامی جھنڈے کے ما تحت آئے۔بہت سی وہ پیشگو ئیاں جن کی رسول اﷲ ؐ کو اﷲ تعالی نے بشارت دی تھی آپؓ کے ہا تھوں پوری ہوئیں۔ قیصروکسری کی عظیم سلطنتوں پر اسلام کا پر چم لہرایاگیا۔

لیکن ان سب کے باوجود آپؓ انتہائی سادہ طرزِ زندگی اختیار کرتے تھے۔حضرن زید ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے آپؓ کے کرتے میں ۱۷ پیوند شمار کیے ایک کندھے سے دوسرے کندھے تک چار پیوند لگے ہوئے تھے۔علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں ’’دنیا کی تاریخ میں کوئی ایسا حکمران مجھے دکھا سکتے ہوجس کی معاشرت یہ ہو کہ قمیض پر دس ‘ دس پیوند لگے ہوں ‘ کاندھے پر مشک رکھ کر غریب عورتوں کے ہاں پانی بھرتا ہو ‘ فرش خاک پہ پڑا رہتا ہو‘ جہاں جاتا ہو تنہا جاتا ہو۔‘‘

آپ ؓ نے جدید مدنیت کی بنیاد بھی رکھی۔ اسلام میں شورائی نظام کے قیام کا سہرا آپ ؓ کے سر ہے ، کیوں کہ آپؓ نے ہی سب سے پہلے مہاجرین و انصار پر مشتمل مجلس شوریٰ قائم کی۔کئی نئے شہرمثلاًکوفہ، حیرہ، موصل فسطاط اور دیگر کی بنیاد رکھی۔آپؓ نے پہلی بار باقاعدہ تنخواہ دار فوج قائم کی،مردم شماری کرائی گئی۔صوبوں کا قیام، جیل خانے، سرائے،مہمان خانے اور فوجی چوکیاں قائم کیں،ڈاک کا نظام قائم کیا۔ذراعت کے فروغ کے لیے اقدامات کیے، نہری نظام بنایا، ڈیم اور تالاب بنوائے ، باقاعدہ محکمہ آب پاشی قائم کیا۔

آپؓکے دور میں ہی روم اور ایران جیسی سپر طاقتوں کو شکست فاش دی گئی۔ مدینہ میں ایک مجوسی غلام ابو لو ٓلو فیروز تھا جو کہ چکیاں بنایا کرتا تھا، ایک دفعہ اس نے اپنے مالک مغیرہ بن شعیب کی شکایت لگائی کہ وہ مجھ سے بہت زیادہ مشقت لیتا ہے۔ آپ ؓنے تحقیقات کرائیں تو اس کی بات غلط نکلی، جس پر آپؓ نے اس شکایت پر دھیان نہیں دیا۔ ابو لولو کو اس بات کا سخت رنج تھا اور اس نے یہ بات دل میں رکھ لی۔ ایک دفعہ آپ ؓ نے ابو لولو سے کہا سنا ہے تم چکیاں بناتے ہو،میرے لیے بھی اچھی سی چکی بنا دو، اس نے جواب میں کہا کہ ہاں ایسی چکی بناؤں گا کہ یاد رکھیں گے۔ یہ سن کر آپؓ نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ یہ مجھے قتل کی دھمکی دے کر گیا ہے۔۲۷ زی الحجہ کو جب آپؓ مسجد بنوی میں فجر کی نماز پڑھانے کھڑے ہوئے تو ابو لو لو فیروز نے زہر میں بجھے ہوئے خنجر سے آپ ؓپر حملہ کردیا، جس سے آپ ؓ شدید زخمی ہوگئے اور تین دن کے بعد یکم محرم ۲۴ ہجری کو آپؓ شہید ہوگئے اور آپؓ کی وہ دعا پوری ہوئی کہ یا اﷲ! مجھے نبیؐ کے شہر میں شھادت نصیب فرما۔ شہادت کے وقت آپؓکی عمر مبارک ۶۳ سال تھی۔حضرت صہیبؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔حضرت سیدہ عائشہ ؓ سے اجازت طلب کر کے پیارے نبیؓ اور حضرت ابو بکر صدیق ؓ کے ساتھ آخری آرام گاہ بنائی گئی۔حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ ‘حضرت علیؓ ‘حضرت عثمانؓ ‘حضرت طلحہ ؓ اورحضرت سعد بن ابی وقاصؓ نے قبر میں اتارا اوراس کے ساتھ ہی اسلام کے ایک سنہری دور اور تاریخ کا خاتمہ ہوگیا۔

Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1455234 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More