آسیہ مسیح ، گورنر پنجاب اور ممتاز حسین قادری

14جون 2009ء کو پاکستان کے صوبہ پنجاب ،ضلع ننکانہ صاحب کی ایک عیسائی خاتون آسیہ مسیح نے مسلمانوں کے پیغمبر حضرت محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا جسے اس نے تسلیم کیا۔جرم ثابت ہونے پر 8نومبر 2010ء کو عدالت نے قانون کے تحت آسیہ مسیح کو پھانسی کی سزا سنادی۔ عدالت کے ا س فیصلے پر حکومت کے ایک اعلیٰ عہدیدار گورنر پنجاب سلمان تاثیر نے ایک غیر سنجیدہ غلطی یہ کی کہ جیل جاکر مجرمہ کے ہمراہ پریس کانفرنس کی اور اسے عدالت کے فیصلے کے خلاف از خود بے گناہ قرار دیتے ہوئے جلد بری کیے جانے کی خوشخبری سنائی نیز انھوں نے پاکستان کے توہین رسالت کے قانون کو کالا قانون قرار دے کر از خود قانون کی دھجیاں بکھیر نے کا ارتکاب کیا۔ گورنر کے اس اقدام کا سرکاری و عدالتی سطح پر نوٹس لیا گیا اور نہ گورنر پر توہین ِ عدالت و توہین ِ آئین کا مقدمہ قائم ہوا۔ گورنر کے ماور ا عدالت طرز عمل کے خلاف مسلمانوں نے مختلف فورم پر پُر امن جمہوری انداز میں اپنے ردّعمل کا اظہار کیا ۔گورنر کی حرکت پر حکومت کی بے حسی اور قانون کی بے بسی کے باعث عوام کا ردّعمل اور غیض و غضب بڑھتا گیا، یہاں تک کہ 4جنوری 2011 ء کو گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے اپنے گارڈ ممتاز حسین قادری نے قانون اپنے ہاتھ میں لیا اور گورنر کو قتل کر کے اُنھیں پاکستان کے قانون کو پامال کرنے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کی سزا از خود دے ڈالی۔

یکم اکتوبر 2011ء کو ممتاز قادری کو راولپنڈی کی انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے سزائے موت اور 2لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی ،مورخہ اکتوبر2015ء کو سپریم کورٹ کو مذکورہ فیصلے کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جسے آسیہ مسیح کی سزائے موت پر احتجاج کرنے والے حلقہ نے قانون کی بالادستی قرار دیا۔ جبکہ دونوں کو پاکستان کے قانون کے تحت سزا سنائی گئی تھی۔یہ حلقہ پاکستان کے بعض قوانین پر دوسرے ملکوں کے اعتراضات کو ’’حق بجانب‘‘ اور ’’ جمہوری رویوں کا تقاضا‘‘ ، قرار دیتا ہے جبکہ دوسرے ملک کے کسی قانون یا فیصلے پر پاکستان یا مسلمانوں کے اعتراض کو ، اُ س ملک کے معاملے میں ’’ مداخلت ‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔

ممتاز قادری کی حمایت میں ایک بڑا موقف یہ تھا کہ 27جنوری 2011ء کو لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کے مبینہ قتل میں امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس رنگے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ریمنڈڈیوس کو ایک منصوبہ بندی کے تحت16مارچ 2011ء کو رہا کرکے فی الفورامریکا روانہ کر دیا گیا۔14مئی 2011ء کو پارلیمنٹ کے خصوصی مشترکہ اجلاس میں پاکستانی ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع احمد پاشا نے بتایا کہ ریمنڈ ڈیوس کو صدر اور وزیر ِ اعظم کے حکم پر رہا کیا گیا تھا۔ ممتاز قادری کی سزا کے ضمن میں یہ سوال گردش میں رہا کہ جب ریمنڈ ڈیوس کو رہا کیا جاسکتاہے تو ممتاز قادری کو کیوں نہیں رہا کیا جاسکتا ؟۔

2007ء میں جنرل پرویز مشرف اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ڈیل کے نتیجے میں NROکے غیر جمہوری صدارتی آرڈیننس کے ذریعے متعدد ملزموں و مجرموں پر سے مقدمات ختم کرکے انھیں رہا کیا گیا، جن میں دہشت گردی اور قتل جیسے جرائم میں ملوث افراد بھی تھے۔ وکی پیڈیا میں ہے :
"The National Reconciliation Ordinance (NRO) was a controversial ordinance issued by the former President of Pakistan, General Pervez Musharraf,
on 5 October 2007.[1]. It granted amnesty to politicians, political workers and bureaucrats who were accused of corruption, embezzlement,
money laundering, murder, and terrorism".
اسی طرح بھارتی دہشت گرد جاسوسوں کی رہا ئی کے لئے چلا ئی گئی مہم کے دبا ؤ پر مارچ2008اور جون 2012ء میں پاکستانی جیلوں سے رہائی پانے والے بھارتی دہشت گرد اور جاسوس کشمیر سنگھ اور سرجیت سنگھ نے بھارت جاکر اعتراف کیا کہ وہ جاسوسی اور دہشت گردی کی غرض سے پاکستان گئے تھے(انڈین ایکسپریس، 7مارچ2008ء اور ہندوستان ٹائمز،29جون2012ء )۔

کئی مثالیں ہیں جن میں عدالت کی جانب سے مجرموں کو سزا سنائی گئی ، مگر دباؤ پر ان کو نہ صرف رہا کردیا گیا بلکہ رہا کردہ مجرموں کو بیرون ملک فرار بھی کرادیا گیا۔ا ن مواقع پر میڈیا اور جمہوریت پسند وں کا غیر معترضانہ رویہ بھی تضاد کا مظہر رہا۔

پروفیسر مفتی منیب الرحمن لکھتے ہیں ، ’’ جس طرح بین الاقوامی طور پر بے قصور لوگوں کی جانیں تلف کرنا، مجبور و معذور بنادینا، جان و مال کی حرمت کو پامال کرنا دہشت گردی ہے ، بالکل اسی طرح ذہنی فکری، اعتقادی اور نظریاتی اذیت رسانی کو بھی دہشت گردی قرار دیا جائے۔‘‘ انھوں نے واضح کیا کہ’’ ہماری پُر امن تحریک توہین ِ رسالت کا ارتکاب کرنے والوں اور ان کے پشت پناہ مغربی ممالک کے حکمرانوں کے خلاف ہے، پاکستان کی اقلیتی برادری کے لوگوں یا مسیحی مذہب کے خلاف نہیں ہے۔ اقلیتوں کی جان ، مال، آبرو اور عبادت گاہوں کا تحفظ ہماری آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے ‘‘ (مضمون: مفتی منیب الرحمن،تحریک تحفظ ناموس رسالت ، نوائے انجمن، ستمبر 2008ء، صفحہ 13)۔

ڈاکٹرمحمد سرفراز نعیمی شہید اپنے ایک مضمون میں سوال کرتے ہیں ’’ کیا یورپ اور مغرب کی یہ تمام کارروائیاں اس امر کی غمازی نہیں کر رہی ہیں کہ مذہبی اعتبار سے اصل ’’ متعصب معاشرہ‘‘ مغرب اور یورپ ہی ہے کہ وہ اپنے مذہبی اعتقادات اور قوانین کو دوسرے ممالک میں نافذ کرانا چاہتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین میں سے کون سا قانون مغرب کو یہ حق دیتا ہے کہ وہ دوسرے ممالک کے مذہبی اعتقادات اور قوانین میں دخل اندازی کریں ؟ (مضمون : ڈاکٹر محمد سرفراز نعیمی، مغرب کے پجاری اور آزادیٔ رائے، نوائے انجمن، نومبر 2008ء )۔
غیر مسلم دنیا اور نام نہاد سیکولر سٹ ایک طرف مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کو آزادیٔ اظہار قرار دیتے ہیں اوردوسری طرف وہ اس پر مسلمانوں کے ردّ ِعمل کو آزادی اظہار کے منافی تصور کرتے ہیں ۔ وہ،اظہارکی یہ آزادی یہودیوں اور مغربی کار گزاریوں کے خلاف کسی کو دینے پر آمادہ نہیں۔یہی وجہ ہے کہ بیشتر مغربی ممالک میں ہولو کاسٹ کے یہودی نظریے اور یہودیوں کے خلاف لب کشائی کرنا جرم قرار پاتا ہے۔اُن کے نزدیک مسلم خواتین کا اسکارف بنیاد پرستی اور رجعت پسندی کی علامت ہے جبکہ عیسائیوں میں سینے پر صلیب کا لاکٹ مذہبی روشن خیالی ہے۔
؂ ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کردیں تو چرچا نہیں ہوتا

moinnoori
About the Author: moinnoori Read More Articles by moinnoori: 10 Articles with 13880 views Ex- Rukun of ATI
Complier of a book on students politics name "ANJUMAN TALABA-E-ISLAM: NAZARIYAT, JIDDOJEHED, ASRAAT" AND HAFIZ MUHAMMAD TAQI
.. View More