ریشنلائزیشن ! محتاط رویے کا متقاضی ہے

بڑی عجیب صورت حال ہے ایک طرف تو پاکستا ن سمیت دنیا بھر میں اساتذہ کاعالمی دن منایا جارہاتھا دوسری طرف حکومت ریشنلائزیشن کے بکھیرے میں پڑی تھی۔ایک طرف تو اساتذہ کی عظمت و وقارکے گن جائے جارہے تھے تو دوسری طرف اسے ذلیل و رسوا کرنے کے منصوبے پر عمل جاری تھا ۔اس سے قبل بھی حکومت پاکستان ریشنلائزیشن کا عمل کئی مرتبہ کرچکی ہے لیکن اسکے خاطر خواہ نتائج حاصل نہ کرسکی بلکہ اکثر و بیشتر اس کے نتائج منفی ہی مرتب ہوئے ہیں۔ اب حکومت کا ’’عزم صمیم‘‘ ہے کہ جو قریب قریب کے سرکاری سکولز ہیں ان کو ایک دورسے میں ضم کردیا جائے حکومت کا خیال ہے کہ اس سے مثبت نتائج برآمد ہونگے ۔ نتائج برامد ہوں یا نہ ہوں مسائل ضرور سر ابھاریں گے کیونکہ سرکاری کسولز ملک میں نادار اور غریب طلبا کیلئے کسی حد تک حصول تعلیم کا سب سے بڑا،سستا اور باکفایت ذریعہ ہیں یہ ذرائع اس قوت نہایت ہی کسمپرسی کا شکار ہیں۔دراصل حکومت نے اپنے روایتی انداز میں ضرورت ہے ضرورت نا ہے اپنے خاص لوگوں کو نوازنے کیلئے ان کی خوشنودی کیلئے اور پنجاب کو پڑھا لکھا بنانے کیلئے تعلیمی ادارے بنادیئے۔ بلڈنگز تعمیر کردیں کہیں کہیں فرنیچر بھی مہیا کردیا اور ایک یا دو اساتذہ بھی تعینات کردیئے اب چونکہ اسے مناسب ضرورت مناسب جگہ اور ترجیح کی بنیاد پرنہیں بنایا گیاتھا تو وہاں پر اب اکثر اداروں میں ہ تو معلم نظر آتا ہے اور نہ ہی تلامذہ دکھائی دیتے ہیں بہت سے علاقوں میں زمینداروں ا ور جاگیرداروں کے جانور ’پڑھائے‘ جارہے ہیں اور اس انداز میں ’’تربیت وتدریس ‘‘ کی جارہی ہے کہ وہ چوبیس گھنٹے پورا ہفتہ وہیں پر موجودہوتے ہیں ان کا ناشتا پڑھائی لنچ ڈنر اور حوائج ضروریہ سے بھی وہیں پر ہی فراغت حاصل کرلی جاتی ہے ۔

اگر مرتب کردہ رپورٹ کو دیکھا جائے تو اس وقت مملکت خداداد میں42 سے زائد پرائمری سکولز ایسے ہیں جو پینے کے پانی کی بنیادی ضرورت اور سہولت سے محروم ہیں۔تقریبا21 ہزار 800 کے لگ بھگ سندھ میں ایسے سکولز ہیں جو اس نعمت سے یکسر محروم ہیں خیبر پختونخواہ دوسرے نمبر پر ہے جس میں سات ہزار سات سو کے قریب،بلوچستان میں پانچ ہزار اور پنجاب میں سوا دوہزار کے قریب سکولز بنیادی سہولیات سے عاری ہیں۔باتھ رومز،فرنیچر، چادر چاردیواری، گرمیوں میں سایہ اور سردیوں میں دھوپ سے مبرا یہ سکولز اور ادارے اپنے اندر بہت سی کہانیوں کے امین ہیں۔علاوہ ازیں یہ شکایات بھی زبان زد عام ہیں کہ اساتذہ کی کمی اور حاضری بھی مسئل فیثا غورث بنی ہوئی ہے۔ اور ان میں سے اکثریت ’’اولڈ از گولڈ‘‘ کے مصداق ہیں جو کہ نئی تعلیمی پالیسی سے بالکل میل نہیں کھاتے جبکہ کچھ اساتذہ ’’بھوت‘‘کا روپ بھی دھار چکے ہیں کہ تنخواہ وصول کرتے ہی لیکن کبھی سکول میں نظر نہیں آتے۔

لگتا ہے مذکورہ بالا سب وجوہات مل کر حکومت کو اس بات پر مجبور کررہی ہیں کہ چونکہ سکولز زیادہ ہوگئے ہیں ان کا انتظام و انصرام مشکل ہوگیا ہے لہذا دو دو تین تین سکولز کو ایک میں ضم کردیا جائے تاکہ انتظامی مشکلات پر قابو پایاجاسکے۔ سوچ تو بڑی صائب ہے اور مشورہ بھی کسی ’’دانشور‘‘ کا لگتا ہے لیکن یہاں پر بہت سے سوالات جواب طلب اور حل طلب ہیں مثلا جو بچے بچیاں اپنے گھروں سے سکول بلا خوف و خطر اور پیدل آتے جاتے ہیں کیا وہ اسی سہولت سے استفادہ کرسکیں گے؟ کیا ان کے والدین جو انہیں سکول لیجانے اور لانے سے آزاد تھے اپنی روٹی روزی کی تلاش میں یکسوئی سے مشغول تھے ،وہ کس طرح سے manage کریں گے؟ان کی مشکلات میں اضافہ نہیں ہوگا؟ جوبلڈنگز خالی ہونگی ان کا مصرف کیا ہوگا کیا انہیں کسی بھی دوسرے مقاصدمیں استعمال کیلئے پلاننگ کرلی گئی ہے؟ کیونکہ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ بلڈنگ تو موجود ہے لیکن فرنیچر ہے اور نہ ہی اساتذہ، پانی کی سہولت ہے اور نہ ہی باتھ رومزکی۔کروڑوں روپے کی مالیت سے بنائی گئی یہ بلڈنگز حکومتی ناقص پالیسیوں پر نوحہ کناں ہیں اسی طرح کیا گھوسٹ سکولز اور ان میں پڑھانے والے گھوسٹ اساتذہ جو کہ ریشنلائزیشن کے عمل سے منظرعام پر آئیں گے ان کیخلاف کی کارروائی عمل میں لائی جائیگی کیا اس کا فیصلہ ہوچکا ہے؟ ایک طرف پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب کی گردان جاری ہے دوسری طرف آدھا لاکھ کے قریب سکولز میں بنیادی سہولیات کا فقدان طاری ہے۔ لہذا حکومت وقت کو چاہئے کہ کوئی بھی عملی قدم اٹھانے سے پہلے ’’صائب الرائے لوگوں ‘‘سے مشورہ کرنے کی بجائے کسی عقل مند اور اسی شعبہ سے متعلق فرد یا افراد سے رجوع کیا جائے تاکہ تمام معاملات کو ملک و قوم اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے استعمال کیا جاسکے ویسے بھی اساتذہ کسی بھی ملک کی عوام کو قوم بنانے میں اہم کردار کے حامل ہوتے ہیں اور یہ پیغمبرانہ پیشہ ہر دو جانب سے کسی بھی ضابطہ اخلاق کا متقاضی ہے۔

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193169 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More