واقعات کے منتظر لوگ


نا خشگوار واقعات پر نقصانات اور افسوس اپنی جگہ لیکن ان کی ہما رے ہاں اور بھی بہت اہمیت ہے ۔ گذشتہ کئی سا لوں سے بہت سے شعبہ جات میں نئی قانون سا زی میں انہی واقعات کا ہا تھ ہے۔ سکو لوں کی سیکورٹی کا مسئلہ ہو یا ڈینگی سپرے میں احتیاتی تدابیر کا معاملہ ہو ،کرکٹ ٹیم کی حفاظت ہو،یا مختلف اجنا س کی قلت اور قیمت مقرر کرنے کا مسئلہ ہو ۔ ہر شعبہ میں کوئی نہ کو ئی ایسا واقعہ ہی قانون سا زی اور منصوبہ بندی کی وجہ بنتا ہے۔ انتہائی نا گزیر اقدامات کو بھی غیر ضروری طور پر نظر انداز کر دیا جا تا ہے ۔اور خبر کے میڈیا پر آنے کے بعد ہنگامی طو ر پر قانون سازی کر دی جا تی ہے یا پہلے سے نا فذقوانین پر سختی سے عمل در آمد شروع کروایا جا تا ہے ۔مگر وہ بھی صرف چند دن تک جب تک خبر ہیڈلائنز میں رہتی ہے اس کے بعد پھر وہی پرانی روش ہی دیکھنے میں آتی ہے ۔ دسمبر2014میں سا نحہ پشاور کے بعد تعلیمی اداروں کی حفا ظت کے جو اقدامات کیے گئے تھے آج اگر ان کا جا ئزہ لیا جا ئے تو ان میں سے بیشتر اپنی پرانی سطح پر واپس آچکے ہیں ۔ یہ اطوار بدلنے اب بہت ضروری ہیں ۔ کب تک ہم صرف نقصان اٹھانے کے بعد ہی خود کو تبدیل کریں گے ۔ کیا ہم صحت اور تعلیم جیسے شعبہ جا ت میں بھی ایسے واقعات کے انتظارمیں بیٹھے ہیں؟

کسی بھی ملک کے مستقبل کا اندازہ اس کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے منصوبہ بندی سے لگا یا جا سکتا ہے ۔ ترقی یا فتہ اقوام کی تر قی کے سفر کا مطالعہ کیا جا ئے تو یہی پتا چلتا ہے کہ یہ دو شعبہ جا ت ان کی ترجیحات میں سر فہرست ہوتے ہیں ۔ترقی یا فتہ ممالک سے موازنہ کریں تو اربا ب اختیا ر برا ما ن جا تے ہیں ۔لیکن ہم تو ترقی پذیر ممالک سے بھی بہت پیچھے رہتے جا رہے ہیں ۔اگر تر قی پذیر ممالک کی بات کی جا ئے تو ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پا کستا ن ،جنوبی ایشاء کے دوسرے ممالک کی نسبت اپنے جی ڈی پی کا سب سے کم حصہ صحت پر خرچ کرتا ہے ۔ سری لنکا کو ہی لے لیں عوام کی اکژیت نہ صرف صحت کی سہولیا ت کے لیے سرکا ری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں بلکہ ان پر اعتماد بھی کرتے ہیں۔کسی بھی حوالے سے جا ئزہ لے لیں خواہ تربیت یا فتہ سٹاف کی بات ہو یا جدید مشینری کا استعما ل ہو طب کا شعبہ سری لنکا میں پا کستا ن سے بہتر ہی نظر آئے گا ۔تعلیم اور صحت کے شعبہ جات پر زیادہ توجہ دینے کی وجہ سے ہی شاید سری لنکا اب معاشی ترقی کی طرف بتدریج گامزن ہے۔اور ورلڈبنک کی رپورٹ کے مطابق سری لنکا معاشی اہداف کے حصول میں پاکستان اور بھارت سے زیادہ کامیاب ہے۔ جی ڈی پی کی ریکنگ میں بھی سری لنکا پاکستا ن اور بھارت سے خاصا بہتر ہے-

وطن عزیز میں صحت کی سہولیا ت چھوٹے شہروں اور قصبوں میں دو ر کی بات بڑے شہروں میں بھی عوام کے لیے میسر نہیں ۔سر کا ری ہسپتا لو ں میں سہولیا ت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اسلا م آبا د کے ایک سرکا ری ہسپتا ل کے شعبہ قلب کے سرابرہ پر جب ہسپتا ل میں ہی حملہ ہو ا تو انہیں اپنے ہی ہسپتال میں علا ج کی بجا ئے ایک فوجی ہسپتا ل میں لے جا نا پڑاکیونکہ وفا قی درالحکومت کے مشہور سرکا ری ہسپتال کی ایکسرے سے لیکر ای ٹی ٹی تک کی بیشتر مشنری خراب تھی ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ چھوٹے شہروں اور قصبوں کا کیا حال ہو گا ۔ اگر اعدادو شمار پر نظر ڈالی جا ئے تو پلا ننگ اینڈ ڈیلوپنٹ ڈویژن کے مطابق پا کستان میں تقریبا 1200لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر اور ساڑھے سولہ سو مریضوں کے لیے ہسپتالوں میں ایک بیڈ ہے۔دیہی علاقوں سے شہروں کے ان ہسپتا لوں تک مریضوں کو پہچانے کے عمل میں جو صعوبتیں اٹھانی پڑتی ہیں اکژمریض اس کی تا ب نہیں لا پا تے ۔

شہروں میں واقع ہسپتالوں کی حالت بھی کا فی افسوس ناک ہو چکی ہے۔ وہ اپنی سکت سے کئی گنا زیا دہ مریضوں کی دیکھ بھا ل کی وجہ سے بہتر طبی سہولتیں دینے سے قاصر ہیں ۔ اگر لا ہور کی بات کی جا ئے تو یہاں کے بڑے ہسپتالوں میں بھی شعبہ امراض دل کافی محدود سہولتوں کے حامل ہیں اور زیا دہ تر مریضوں کو پنجا ب انسٹیوٹ آف کا رڈیالوجی بھیجا جا تا ہے۔ لیکن پی آئی سی میں بھی آبادی کے تنا سب کے مطابق سہولیا ت میں اضافہ نہیں کیا گیا ۔تیس سا ل پہلے اپنے قیام کے وقت اس کی ایمرجنسی 10 بیڈ کی ہوا کرتی تھی ۔ اور آج آبادی میں بے پنا ہ آضافے کے بعد بھی پی آئی سی ایمر جنسی میں صرف 20بستروں کی گنجا ئش ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہا ں اکژ مریضوں کو کرسیوں پر بٹھا کر ابتدائی طبی امداد دی جا تی ہے۔اس کے علاوہ بھی پی آئی سی کے حوالے سے توجہ طلب بات یہ کہ یہاں صرف امراض دل کے ماہر ڈاکٹر موجود ہیں جبکہ اکثردل کے مریضوں کو دوران علاج دوسری بیماریوں کی وجہ سے یورالوجسٹ ،ماہر نفسیات وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ان کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔اور دوسرے ہسپتالوں میں جانے کے تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔یہ حالات امراض دل کے ہسپتال کے ہیں جس کی ہمارے ہاں بہتر سہولتیں سمجھی جا تی ہیں اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دوسر ے پیچدہ امراض میں مبتلا لوگوں پر کیا بیتی ہو گی۔

سرکاری ہسپتالوں کے ان حالا ت نے نجی ہسپتالوں کوآزادی دے رکھی کے وہ جس طرح چا ہیں مریضوں کا استحصال کریں ۔مجبوری کا فا ئدہ اٹھا کر جتنی چاہیں فیس وصول کریں۔ جو لوگ نجی ہسپتالوں کے آخراجا ت برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے وہ عطائی ڈاکڑوں کے پا س جانے پر مجبور ہیں ۔حکومت اکثر ایسے ڈاکٹروں اور میڈیکل سنٹرزکے خلا ف ایکشن لیتی ہے مگر جب تک عوام کو متبا دل طبی سہولتیں فراہم نہیں کر دی جا تیں تب تک ایسے گلی محلوں میں بیٹھے نیم حکیموں کا سدبا ب مشکل ہے۔بڑھتی ہوئی آبا دی کی وجہ سے سیکرٹری ہیلتھ اور ڈی جی ہیلتھ کے لیے کافی مشکل کام ہے کہ وہ دیہی علاقوں میں واقع مراکز صحت کا دورہ کریں اور ان میں بنیا دی طبی سہولتوں کو یقینی بنائیں انہیں زیا دہ تر انہی اطلات پر یقین کرنا پڑتا ہے جو ان تک پہنچائی جا تی ہیں جو کہ زیا دہ تر غلط ہوتی ہیں ۔اس لیے وقت کی ضرورت یہی ہے کہ کسی واقعہ کا انتظار کیے بغیر شعبہ صحت میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی جا ئیں ۔ صحت کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ انتہائی نا گزیر ہے کیونکہ پیسہ خرچ کیے بغیر اور جی ڈی پی کا صرف چند فیصد استعما ل کر کے ہم کبھی بھی صحت کے شعبہ میں بہتری نہیں لا سکتے ۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Ch Waqas Afzal
About the Author: Ch Waqas Afzal Read More Articles by Ch Waqas Afzal: 4 Articles with 3964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.