سانحہ منیٰ :نہایت افسوس ناک لیکن غیر ضروری تنقید مناسب نہیں

حج ستمبر 2015ء ذی الحجہ 1436عالم اسلام اور حج کی سعادت حاصل کرنے والوں کو غم زدہ، مَلُول و رنجیدہ کرگیا۔ ۱۱ ستمبر کو مسجد الحرام میں کرین کا افسوس ناک سانحہ ہوا۔ جس میں 111 افراد شہید اور 238سے زیادہ شدید زخمی ہوئے ۔ ان میں 52پاکستانی بھی شامل تھے۔دوسرا واقعہ سانحہ منیٰ ہے جو مناسکِ حج کی ادائیگی کے سلسلے میں رمی وجمراء اولیٰ(چھوٹے درمیانے بڑے شیاطین ) کو کنکریاں مارنے کے عمل کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے سینکڑوں کی تعداد میں حجاج ایک دوسرے کے نیچے دب جانے اور پاؤں تلے کچلے جانے سے جاں بحق ہوگئے۔ یہ واقعہ’سانحہ منیٰ‘ 2015ء جب کہ اس قبل ہونے والا واقعہ ’سانحہ حرم شریف‘کے نام سے تاریخ میں ہمیشہ دکھ کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ دونوں واقعات انتہائی افسوس ناک اور پورے عالم اسلام کو غم زدہ کرگئے۔

سانحہ منیٰ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے قبل اس قسم کے اور بھی واقعات ہوچکے ہیں۔ مسلمانوں کے مجمع میں ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کے بڑے اجتماعات میں جن میں عیسائی اور ہندو خاص طور پر شامل ہیں ۔ بھگدڑ مچ جانے کے نتیجے حادثات رونما ہوچکے ہیں اور سینکڑوں قیمتی جانیں جا چکی ہیں۔ منیٰ کے حوالے سے 19اپریل 1998ء کو شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ مچ جانے سے 118 عازمین ِ حجاج جان بحق ہوئے تھے۔ اس کے بعد 12جنوری 2006ء کو منیٰ ہی کے مقام پر بھگدڑ مچ جانے سے کم سے کم 364حجاج اکرم جان بحق ہوئے۔ پاکستان کے سوشل میڈیا اور بعد میں ایک دو نجی چینل پر موجودہ واقعہ کی جو فوٹیج دکھائیں یہ فوٹیج اسی 2006کے واقعہ کی ہیں موجودہ واقعہ کا ان فوٹیج سے کوئی تعلق نہیں۔ منیٰ میں ہونے والا یہ تیسرا اہم واقعہ ہے۔ ان کے علاوہ دیگر واقعات سعودی عرب میں بھی ہوئے ،اسی حج کے موقع پر خانہ کعبہ کے صحن میں کرین گرنے کا واقعہ رونما ہوا۔ دیگر غیر مسلموں کے اجتماعات میں بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ بھارت میں ہندوؤں کے مندروں سے ہندوں کی واپسی پر متعدد واقعات ہوئے ، گھانا میں اسٹیڈیم میں بھگدڑ کا واقعہ رونما ہوا، بغداد میں 2005ء میں 1000سے زائد شیعہ زائرین خود کش حملے کی افواہ کے بعد بھگدڑ مچ جانے اور دریائے دجلہ میں ڈوب جانے سے جان بحق ہوگئے تھے۔ اسی طرح کمبوڈیا میں 2010ء میں پانی کے سالانہ میلے کے دوران دریا پر واقع پل پر بھگدڑ مچ جانے سے 375سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔ دنیا بھر میں اس قسم کے واقعات ہوئے ہیں، سعودی عرب میں بھی اس قسم کے واقعات کا ہوجانا غیر معمولی نہیں۔ البتہ قابل غور بات یہ ہے کہ اگر ہمیں انتظامی معاملات میں کسی بھی قسم کی کوتائی ، خامی، غلطی، تساہلی نظر آئے تو یہ باتیں جواز فراہم کرتی ہیں اس بات کی کہ ہم انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنائیں۔ اس ملک پر تنقید کریں۔ یہاں صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے، سعودی حکومتیں حاجیوں، عمرہ اداکرنے کے لیے جانے والوں کے لیے جو عمدہ سے عمدہ اقدامات و انتظامات مسلسل کررہی ہیں ان سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ سعودی از خود اس مسئلہ کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ محض واقعہ رونما ہوجانا اس بات کا جواز پیدا نہیں کرتا کہ کوئی یہ کہہ دے کہ سعودی عرب مکہ و مدینہ کے ان اجتماعات کے انعقاد سے دستبردار ہوجائے۔سعودی شاہ سلمان بن عبد العزیز نے درست طور پر حج انتظامات سے دسبرداری کے مطالبے کو مسترد کیا ۔سعودی شہزادے ترکی الفیصل نے ایک اسلامی ملک کی جانب سے سانحہ منیٰ پر تنقید کو بلا جواز قرار دیا اور کہا کہ وہ حج و عمرہ کے انتظامات کے حوالے سے اپنا استحقاق یا خادمین حرمین شریفین کا امتیاز نہیں جانے دیں گے۔ اس قسم کی تنقید او ر رائے کسی بھی طور مناسب نہیں ۔ایران کے صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اپنی متعینہ تقریر سے ہٹ کر منیٰ میں بھگدڑ کے واقعہ کے اسباب جاننے اور اس سال حج کے دوران پیش آنے والے واقعات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔اسی ملک کے ایک قانون دان ابرہیم رئیسی نے بھی شدید تنقید کی۔کیوں کہ ہمارا یہ اسلامی ملک عرصہ دراز سے سعودع عرب کے حوالے سے پرخاش رکھتا ہے اس لیے ان کے بیانات کو اسی تناظر میں لیا گیا۔ کل کو اگر کوئی واقعہ پاکستان میں ہوجائے اور یہاں توہوتے ہی رہتے ہیں تو کیا ہمارے ہمسائے بھی اسی قسم کا مطالبہ کریں گئے ؟ یا پاکستان کسی بھی ملک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات جن میں بے شمار بے گناہ ہلاک کردیے جائیں یہ مطابہ کردے کہ اس علاقہ کو کسی اور کے انتظام میں دے دیا جائے۔ اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ بیانات سے مسلمانوں کا اتحاد اور یک جہتی کو نقصان پہنچتا ہے۔ آپس کے باہمی تعلقات میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ مسلمان ممالک کو تو اس قسم کی صورت حال میں ایک دوسرے کی مدد ومعاون ہونا چاہیے۔ خانہ کعبہ ، مطاف ، مکہ المکرمہ ، مدینہ منورہ ، وہاں کی سڑکوں ، پلوں، راہداریوں اور وہاں کے نظام کا جائزہ لیں تو ہمیں بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ماضی میں یہاں کیا صورت حال تھی اور اب یہاں کی کیا صورت حال ہے۔ سعودی عرب اس واقع کی تحقیقات کررہا ہے امید ہے صحیح صورت حال جلد واضع ہوجائے گی۔

مَیں نے تاحال حج کی سعادت تو حاصل نہیں کی لیکن 2012 ء کے بعد سے تقریباً سال میں دو بار سعودی عرب جانے کی سعادت حاصل کررہا ہوں، میں نے ان مقامات کا تفصیلی دورہ کیا ہے، زیارت کی اور ان کا بغورمطالعہ و جائزہ بھی لیا جہاں مناسکِ حج کے ارکان ادا کیے جاتے ہیں۔بعض بعض مقامات پر میرے علیحدہ علیحدہ مضامین بھی شائع ہوچکے ہیں۔ میں نے مسجد نمرہ (حج کے موقع پر جہاں سے خطبہ ٔ حج دیا جاتا ہے )کے کوریڈور میں نفل ادا کیے ہیں، منیٰ،عرفات ، مزدلفہ کے میدانوں کو قریب سے دیکھا ہے، خالی خیموں کو جی بھر کے دیکھا، ریل کا نظام میری نظروں کے سامنے ہے، تمام راہ دریاں میری نظروں کے سامنے ہیں انتہائی کشادہ ، صاف شفاف، چھوٹے، بڑے شیطانوں کو کنکریاں مارنے کی جگہ کو اچھی طرح دیکھا ہے۔ حج کے موقع پر اس قدر وسیع مجمع ہوتا ہے کہ بڑی بڑی راہ داریاں، کشادہ سٹرکیں بھی تنگ پڑجاتی ہیں۔ یہ واقعہ بھی اس وجہ سے وقوع پذیر ہوا کہ منیٰ کی خیمہ بستیوں سے دو مختلف راہداریوں سے آنے والے حاجیوں کے دوبڑے ریلے تنگ مقام پر آپس میں ٹکراگئے، جس کے نتیجے میں بھگدڑ مچ گئی۔حاجیوں کا یہ ٹکراؤ جمرات (چھوٹے درمیانے بڑے شیطان) کے بڑے ہال تک محدود نہیں رہا بلکہ اس نے وسیع و عریض علاقے اور کثیر تعداد میں حاجیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت مکہ میں گرمی بھی انتہا کی تھی کہاجاتا ہے کہ درجہ حرارت 45سینٹی گریڈ تک پر پہچا ہوا تھا۔حاجی پہلے ہی تھکے ماندہ تھے، نقاہت بھی تاری تھی، جلد شیطان کو کنکریاں مار کر مکہ المکرمہ پہنچنا چاہتے تھے تاکہ طواف کرکے اپنے ہوٹل پہنچیں اور آرام کریں۔ جلد بازی ہی ایک وجہ اس حادثہ کی رہی ۔ بھگدڑ کی صورت میں، گرمی اور دیگر عوامل نے حاجیوں کو جب ایک کے اوپر ایک کردیا، جو حاجی گرا اس کو اٹھنے کی مہلت ہی نہ ملی یا وہ اٹھنے کی سکت ہی کھو بیٹھا جس کے نتیجے میں اس کا دم گھٹ گیا، بے شمار حاجی اپنے ہی ساتھی حاجی کے قدموں تلے دب پر اپنی جان کھو بیٹھے۔ دھکم پیل اس قدر شدید تھی اور حاجی تعداد میں اس قدر زیادہ تھے کہ جب انہوں نے واپس جانے والی کشادہ سڑکوں کے علاوہ اوپر سے آنے والے پلوں سے بھی تیزی سے اترے تو ان کی طاقت نے درمیانے جنگلے کی دیوار کو بھی توڑ دیا ، اس کا مقصد اپنی جان بچانا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس دوران الجزائر یوں کے کیمپ کے اندر شارٹ سرکٹ بھی ہوا اور ایک خیمہ بھی جل گیا۔ وہاں بھی بھگدڑ مچی اسٹریٹ204تک کئی کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہے اس بھگدڑ میں زیادہ پاکستانی کچلے گئے اور اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف قبلہ پاکستانی حاجیوں کی سربراہی ، نگہداشت اور دیکھ بھال کے لیے حاجیوں کے ساتھ ہی تھے۔ جو اب واپس تشریف لا چکے ہیں۔وہ پاکستانی شہداحاجیوں کی تدفین اور لاپتہ حاجیوں کی تلاش میں پریشان حال رہے۔ انہوں نے روزنہ جنگ میں ایک مضمون ’’سانحہ منیٰ۔تازہ ترین صورت حال‘‘ (شائع شدہ 5اکتوبر2015) میں واقعہ کی تفصیل بیان کی ہے۔ وزیر موصوف کا کام صرف حاجیوں کی رہنمائی کرناہی نہیں تھا بلکہ انہوں نے از خود بھی فریضہ حج ادا کیا۔یقینا یہ ان کا پہلا حج نہیں ہوگا ۔ پچھلے سال بھی وہ اسی منصب پر تھے اور مکہ تشریف بھی لے گئے تھے ،حج بھی کیا ہوگا۔ پاکستان سے بے شمار والنٹیئرحاجیوں کی خدمات کے لیے بھیجے جاتے ہیں ۔ ان میں سے اکثریت’ پرچی ‘ والی ہوتی ہے۔ چند خدمت گزاروں کو میں جانتا ہوں ان سے گفتگو بھی ہوئی۔ حاجیوں کی خدمت پر مفت میں جانے والوں کے لیے پرچی کا نظام رائج ہے جس کے پاس جس قدر بڑی پرچی ہوگی وہ مفت میں حاجیوں کا والنٹیئر بن کا چلا جائے گا، گویا یہ مفت میں حج کرنے کی پرچی ہے۔ جس قسم کی یہ خدمت کرتے ہیں اس کا اس بات سے باخوبی اندازہ کایا جاسکتا ہے کہ ان خدمت گزاروں کے سربراہ وزیر موصوف ہی تو تھے، انہوں نے اپنے مضمون میں لکھا کہ ’’ہم اس روز علی الصبح رمی جمراء اولیٰ سے فارغ ہوکر پیدل ہی سوئے حرم چل پڑے تھے، حرم شریف میں پہنچ کر طواف زیارت میں مصروف تھے کہ منیٰ سے اس سانحے کی خبربجلی بن کر گری‘‘۔ یعنی خدمات اعلیٰ صاحب کو پاکستانی حاجیوں کی فکر نہیں وہ صبح ہی صبح پہلی فرصت میں شیطان مردود سے فارغ ہوکر مکہ پہنچ گئے ، ان کے بقول یہ خبر ان پر بجلی بن کر گری لیکن وہ بھی ان کا کچھ نہ بگاڑ کرسکی۔ گری بھی بچارے حاجیوں پر۔ انہوں نے سانحہ کی کئی وجوہات تحریر کی ہیں ۔ یہ سب اچھی طرح سے جانتے ہیں۔انہوں نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔ حکومت کو چاہیے کہ مفت خور حاجی جو خدمت گزار ی کی پرچی کسی نہ کسی طرح حاصل کرکے حج کرتے ہیں کے نظام کا جائزہ لے ان کو اگر مفت میں بھیجنا ہی ہے تو انہیں حاجیوں کی خدمات اور دیکھ بھال کا پابند بنایا جائے، حج کرنے پر پابندی عائد کردی جائے۔ وزیر موصوف اگر اس پر عمل کریں گے تو دیگر ان کے ہمراہ جانے والے خدمت گزار بھی ایسا کریں گے۔وزیر موصوف نے پاکستان واپس پہنچ کر سینٹ میں اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی جسے ایوان نے یکسر مسترد کردیا، حتیٰ کہ اپوزیشن نے علامتی واک آوٹ بھی کیا۔سردار صاحب نے سینٹ کو بتا یا کہ منیٰ حادثہ میں 99پاکستانی شہید ہوئے، جن میں سے 70کی تدفین کردی گئی ہے باقی 29کے بارے میں سعودی حکومت نے نہیں بتا یا۔ 18لاپتہ ہیں، 2زیر علاج ہیں۔ سردار صاحب نے حکومت کی جانب سے سانحہ منیٰ کے شہداکے لواحقین کو 5 لاکھ روپے امداد دینے کی خبر بھی سنائی،سرکاری رپورٹ کو چیرٔمیں سینٹ نے کمیٹی کے سپرد کردیا۔رپورٹ غیر بخش ہونے پر اپوزیشن ارکان نے وفاقی وزیر اور حکومت کی کارکردگی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اس کو حکومت کی نااہلی قراردیا۔

ان تمام باتوں کے باوجود ایک سوال کا ذہن میں آنا قدرتی عمل ہے کہ جس جگہ لاکھوں کا مجمع ہو وہاں پر اس قسم کا حادثے کا پیش آجانا ایک سوالیا نشان ضرور ہے؟ لیکن تاریخ میں منیٰ ہی کے مقام پر اس قسم کے واقعات رونما ہوچکے ہیں جن کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ حادثہ کا سبب سامنے آچکا ہے ، سعودی حکام بھی ا س سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اس حادثے کے نتیجے میں جو نقصان ہوا وہ ناقابل تلافی ہے۔ تمام ممالک کے حاجیوں کی جان قیمتی تھی جو اﷲ کو پیارے ہوئے اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ آئندہ اس قسم کے واقعات نہ ہوں ان کا تدارک کس طرح کیاجاسکتا ہے، یقینا سعودی حکومت نے سانحہ منیٰ کے لیے جو تحقیقاتی کمیشن بنا یا ہے وہ سانحہ کی وجوہات کے ساتھ ساتھ آئندہ کی روک تھام کے لیے بھی اقدامات تجویز کرے گا۔ سعودی حکومت نے جس طرح سانحہ حرم شریف کے واقعہ کے بعد بعض فوری اقدامات کیے تھے وہ اس واقعہ کے بعد بھی اسی طرح کے اقدامات کریں گے۔ اس سانحہ پر جس قدر بھی دکھ اور افسوس کیا جائے کم ہے۔ سانحہ منیٰ ہر پورے عالم اسلام کو غمزدہ کرگیا۔ اﷲ تعالیٰ تمام شہدا کی مغفرت فرمائے، ان کے درجات بلند کرے ۔ آمین 29)اکتوبر2015، E-Mail: [email protected])

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1289384 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More