بےنکاحی گالیاں اور میری لسانی تحقیق

بازار چلے جائیے' ہر چیز کی بےشمار سیل بند' یعنی ڈبہ پیکنگ' بلا ڈبہ پیکنگ ورائیٹیاں میسر آ جائیں گی' اوپن بھی مل جائیں گی۔ ظاہری حسن' چلتا پھرتا بل کہ بھاگتا دوڑتا نظر آئے گا۔ چمک دمک' بناوٹ کا حسن اور پیش کش وغیرہ' انتخاب کو مشکل بنا دے گی۔ آپ کا دل چاہے گا' ہر قسم کی ایک ایک خرید کر لوں۔ بس جیب کے ہاتھوں مار کھا جائیں گے۔ اگر حضرت بےغم حضور ساتھ ہوں گی' تو ایک کی ضرورت ہوتے' شاید نہیں یقینا کئی ایک خریدنے کی ضرورت پیش آ جائے گی۔ ضرورت اور تصرف کے' ان گنت اور ان حد بلا فی میل' جواز جنم لے لیں گے۔ اکثر آپ کے حوالہ سے' اور آپ کی ضرورت کے تحت جنم لیں گے۔ یہ اس سے قطعی الگ بات ہے' کہ بعد میں ہاتھ لگانا تو دور کی بات' آپ کی بینائی انہیں دیکھنے سے بھی' معذور پڑ جائے گی۔ ان کا زبان پر نام لانا بھی' جرم سرمدی بن جائے گا۔ شہادت کی فضیلت کے باوجود' حضرت قبلہ اپنی پیرومرشد بےغم صاحب مداذلا لالی کے ہاتھوں' شہادت کا عظیم رتبہ دل وجان سے پانا پسند نہیں کریں گے لیکن ذلت کا دنبہ بن کر' ذبح ہو جائیں گے۔

یہ خریدداری' محض ظاہری کمال کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے باطن میں' نقائص کی بےشمار خبائثتیں موجود ہوتی ہیں۔ خبائثتوں کی عریانی کے بعد' شکائتوں کا لامتناہی سلسلہ' شروع ہو جائے گا۔ گھر والی' ہر جا یہ ہی کہے گی' کہ یہ محفل میں بات کرنے اور خریداری میں' بالکل صفر ہیں۔ حالاں کہ نہ بولنے دیا گیا ہوتا ہے اور نہ ہی خریاری میں' مشورہ لیا گیا ہوتا ہے' بل کہ آپ کی پسند کی خریداری کی ہی نہیں گئی ہوتی۔ آپ کا اگر بس چلتا' تو شاید نہیں' یقینا خریدنے سے سو فی صد اجتناب برتتے۔ سوئے اتفاق' ایک بار بھی انکار کرکے پوری برادری اور علاقہ میں' تھوڑ دل معروف ہو جائیں گے۔
بات چیت میں نااہل
خریداری میں نکما
تھوڑ دل

کردار و شخصیت کا جز قرار پا کر' عرف میں داخل ہو جائیں گے' اس لیے انہیں دو نمبر نہیں کہا جائے گا۔ اگر ان میں سے کوئی' عرف میں آنے سے مرحوم ہو جاتا ہے اور کوئی کہتا ہے' تو یہ بلاشبہ دو نمبری ہو گی۔ بیگمی مہر ثبت نہ ہونے کے سبب' کوئی معاملہ اپنا وجود رکھتے ہوئے بھی' دو نمبری ہوگا۔ پہلی صورت میں نکاحی' جب کہ دوسری صورت میں' بےنکاحی ہو گا۔ نکاحی ہونے کے لیے' معاملے کا عرف میں آنا اور اس پر بیگماتی مہر کا ثبت ہونا' ضروری ہوتا ہے۔

ہمارے ادھر' ایک ہی نام اور ایک ہی مسلک کے' دو مولوی ہوا کرتے۔ نام اور مسلک کی مماثلت کے باعت' کنفوژن قسم کی چیز پیدا ہو جاتی۔ شناخت کے حوالہ سے' ایک کو مولوی وڈیرا جب کہ دوسرے کو' مولوی چھوٹیرا کہا جانے لگا۔ اتفاق سے' بظاہر بلا کسی کرنی کے'مولوی چھوٹیرا حق ہو گیا۔ اگر اس کا کیا' معافی کے لائق ہے' تو الله اس کو معاف فرمائے' ورنہ الله کی اپنی مرضی ہے' معاف کرے ناکرے۔ یہ مذہبی لوگ' بڑے معصوم اور بےگناہ سے ہوتے ہیں۔ کھانا' اس کے بعد بھی کھاتے ہیں. انسانی تفریق' ان کا محبوب ترین مشغلہ رہا ہے۔ اس لیے' الله انہیں ناہی معاف کرئے' تو اچھا ہے۔

مولوی چھوٹیرے کی موت کے بعد' مولوی وڈیڑے کی خوب بن آئی۔ موصوف تھوڑا سا' کافی سے زیادہ فربہ تھے. قد کے لحاظ سے' پورے پورے تھے' اس لیے باطور مولوی بٹیرا معروف ہو گیے۔ لوگ ان کا اصل نام بھی بھول گیے۔ اپنے عرفی نام سے' جان پہچان پکڑ گیے۔ الله جھوٹ نہ بلوائے' یہ نام مولوانی صاحبہ کا دیا ہوا تھا۔ نہ بھی دیا ہوتا' تو بھی عرف میں آنے کے باعث' یہ نکاحی کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر مولوانی صاحبہ کا عطا کردہ تھا' تو سونے پر سہاگے والی بات ہے۔کسی سطح پر دو نمبری کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اس لیے مرکب مولوی وڈیرا ہر لحاظ سے نکاحی کے کھاتا میں جاتا ہے

ہمارے ادھر' عمر درزی ہوا کرتا تھا۔ بڑا زبردست ہنروند تھا۔ اس کا مختلف قماش کے لوگوں سے' سارا دن واسطہ رہتا تھا۔ اس کے پاس' تین بینڈ کا ریڈیو تھا۔ گانے شانے بہت کم سنتا' لیکن خبریں اور تبصرے خوب سنتا۔ سنتے ہیں' رات کو سونے سے پہلے' بی بی سی کی خبریں' اس کے بعد جہاں نما شاید یہ ہی نام تھا' ضرور سنتا۔ لوگ اچھا درزی ہونے کی وجہ سے' کپڑے اسی سے سلواتے۔ کپڑے اور ناپ دینے کے بعد' کھسکنے میں خاطر جمع سمجھتے۔ بولتا بڑا تھا۔ جب کبھی' کسی محفل میں آتا' تو لوگ یہ کہتے ہوئے' چلتے بنتے' چلتے ہیں' کتا آ گیا ہے۔ عمردرزی کہنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔ اس کی بیوی بھی' اس کی اس عادت سے نالاں تھی۔ یہ الگ بات ہے' کہ اس ذیل میں وہ' اس کی بھی پیو تھی۔ عمر درزی اس کے حضور' کسکتا تک نہ تھا۔

کسی کو کتا کہنا' بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے۔ یہ ہر لحاظ سے' دونمبری زبان میں داخل محسوس ہوتا ہے۔ مگر کیا کیا جائے'
کتا آ گیا ہے' میں تشبیہ کا تعلق موجود تھا.
یہ استعارہ عرفی درجے پر فائز ہوگیا تھا۔
مہر زوجہ پورے پہار کے ساتھ ثبث ہو چکی تھی۔
کتے کے اس لقبی نام کو' ان سہ وجوہ کی بنا پر' اس دور کا سفاک ترین شخص' مسٹر چہاڑی بھی بےنکاحیا قرار نہیں دے سکتا تھا۔ اگر قرار دینے کی سوچتا بھی' تو ہفتوں بےنکاحی گالیاں سنتا۔ الله بخشے پہاگاں کا بولنے کے حوالہ سے' بڑا سٹیمنا اور نام تھا۔ رانی توپ' اس کی سگی خالہ زاد تھی۔

سیاست' عمومی تفہیم اور سینس میں' ہیرا پھیری' جھوٹ' وعدوں کا پلندہ' لوٹ مار وغیرہ کے زمرے میں آتی ہے۔ سیاست اور ان امور و اصول کا' چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر کوئی سیاست دار' ان امور و اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے' تو دونمبری کا مرتکب ہوتا ہے۔ اگرچہ ایسا ہوتا' کبھی دیکھنے سننے میں نہیں آیا۔ ہاں ایک بات یاد آئی' جھوٹ بولے' تو اس پر سچ کا گمان سا ہو۔ وعدہ کرئے' تو اس طرح کرئے' کہ لوگوں کو اس کی اگلے یا کسی اور موڑ پر ایفائی کا یقین سا ہو جائے۔ غبن اور ہیرا پھیری پکڑ میں آ جاتے ہیں' یا ان کا کسی طبقے کو علم ہو جاتا ہے' تو ایسے شخص کو' شخص کہا جا سکتا ہے' اسے سیاست دار یا سیاست دان نہیں کہا جا سکتا. یہ سیاست میں بددیانتی' ہیرا پھیری اور دو نمبری ہو گی۔ گویا ہیرا پھیری' جھوٹ' وعدوں کا پلندہ' لوٹ مار وغیرہ کا' سیاست سے' چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ایسی سیاست کو ہی' نکاحی سیاست کہا جائے گا' باصورت دیگر وہ بےنکاحی ہو گی۔

ایک تفہیم میں' یہ بات بھی آتی ہے' کہ امور و معاملات کے لیے' سلیقہ اور علاقائی پاسداری درکار ہوتی ہے۔ جیسے ایک پنجابی' کسی اردو اسپیکنگ کو' گالیاں نکال رہا۔ اس میں کوئی شک نہیں' کہ وہ بڑی سنیما سکوپ قسم کی گالیاں تھیں۔ اس سے سننے والوں کو حظ مل رہا تھا۔ اعضائے مردانہ و زنانہ عذاب میں تھے' تاہم اتنی اذیت میں نہ تھے' جتنی عورتوں کی لڑائی میں آ جاتے ہیں۔ گویا وہاں ان پر حاویانہ بدنصیبی نازل ہو جاتی ہے۔

درایں اثناء اردو بولنے والے صاحب کہنے لگے' حضرت تمیز سے گالی نکالیے' ورنہ ہم بھی آپ کی ماں بہن کی شان میں گستاخی کر بیٹھیں گے.

اس میں' سوال علاقے کا اٹھتا ہے۔ اگر گالیاں دینے یا بکنے والا پنجابی' اردو بولنے والے صاحب کے' علاقہ میں تھا تو یہ کھلی دو نمبری تھی۔ اسے' ان کے علاقے کا طور' اختیار کرنا چاہیے تھا' جیسے ضمائر کے استعمال میں' میں کر رہا ہوں۔ اگر اردو بولنے والا' پنجابی کے علاقہ میں تھا' تو یہ دو نمبری نہ تھی۔ اس کے علاقہ میں ہر گالی نکاحی' جب کہ اس کے علاقہ میں بےنکاحی تھی۔

مغرب کا اپنا رواج ہے' اس لیے معاملے کو' ان کے اصولوں کے تحت نہیں لیا جا سکتا۔ یہاں نکاح کے' اپنے اطوار ہیں۔ فریقین سے' الگ الگ گواہان کی موجودگی میں' قبولیت کے بارے میں پوچھا جاتا ہے۔ ہاں کی صورت میں' وہ ایک دوسرے کے لیے' جائز ہو جاتے ہیں۔ کسی سے' کتنا ہی تعلق پیار ہو' بلانکاح وہ ایک دوسرے کے لیے' دو نمبری ہوں گے۔ اگرچہ دونوں طرح سے' کام اور نتائج ایک سے ہی ہوتے ہیں لیکن جائز اور ناجائز کی حدود' قائم رہتی ہیں۔ پہلا طور' عرف عام میں آ کر' ایک مستقل نام کا مستحق ٹھہرتا ہے جب کہ دوسری صورت میں' پوشیدگی ضروری ہوتی ہے' ورنہ علاقہ میں گڈا بندھ جاتا ہے۔ گویا نکاح میں' معاملہ عرف عام میں آ جاتا ہے' اس لیے درست اور جائز قرار پاتا ہے۔

میری بیوی مجھے
بات چیت میں نااہل
خریداری میں نکما
تھوڑ دل
قرار دے دے تو غلط یا دونمبری نہ ہو گی' کیوں کہ سب جانتے ہیں' کہ میں اس کا بندہءناچیز ہوں۔ مالک اپنے بندے کو' کچھ بھی کہہ سکتا ہے یہ اس کا نکاحی استحقاق ہے۔ جس سے معتوب خاوند بھی' انکار نہیں کر سکتا۔ کھوتی ریڑی والے کو میں صرف اتنا جانتا ہوں' کہ کھوتی ریڑی ڈرائیو کرتے اکرام راہی کا گانا گا رہا تھا یا پھر ریڑی کا مارنا مجھے یاد ہے۔ وہ کون تھا کہاں رہتا تھا میں نہیں جانتا۔ میں اسے کس حساب میں' وہ کچھ کیسے کہہ سکتا ہوں جو عرف میں نہیں حالاں کہ میں نے' اسے دیکھا تھا۔ میں اسے زیادہ سے زیادہ بےسرا اور بےمہارا کہہ سکتا ہوں اگرچہ یہ بھی' عرف عام میں نہیں۔ گویا اصولا میں اسے بےسرا اور بےمہارا بھی نہیں کہہ سکتا۔ میری بیوی اگر اسے وہ وہ کچھ کہہ دیتی جو عرف میں نہیں' یہ دو نمری ہو گی ہر دو نمبری بےنکاحی ہوتی ہے۔

ساختیات کے مطابق' کوئی تشریح اور معنویت آخری نہیں۔ تحقیق کا بھی' یہی اصول اور کلیہ ہے۔ کسی بات کو آخری قرار دینا' مزید کے دروازے بند کرنا ہے۔ اضافہ' کمی اور تردید کا دروازہ' ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ بعض اوقات' ماخذ وہ ہی رہتا ہے' لیکن بہتری کی صورتیں نکلتی رہتی ہیں۔ مارکونی کی ایجاد' ریڈیو ہی کو لے لیں۔ لہروں کا نظام وہ ہی ہے' لیکن اس سے بہت کچھ تیار کر لیا گیا' کہ حیرت ہوتی ہے۔ اصل دکھ کی بات تو یہ ہے' کہ مادہ کے کھوجی کو بھلا دیا گیا ہے۔ خیر جو بھی صورت رہی ہے' اس سے یہ بات ضرور کھلتی ہے کہ تحقیق میں کچھ بھی حرف آخر کے درجے پر فائز نہیں۔ بالکل اسی طرح کسی تشریح و معنویت' یہاں تک کہ ہئیت اور تلفظ کو' آخری ہونے کا درجہ نہیں دیا سکتا۔

لفظ اگر متحرک ہیں اور کسی ناکسی حوالے سے مقامی و غیر مقامی ولائیتوں میں مہاجرت اختیار کرتے ہیں تو ان کی ہئیت' تلفظ' مکتوبی اشکال' اور معنویت میں بھی' ہرچند تبدیلی آتی رہتی ہے. اس تناظر میں' میرا کہا گیا' حرف آخر نہیں۔ مرکب بےنکاحی گالیوں کے اور بہت سے مفاہیم سامنے آتے جائیں گے۔
 

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 184 Articles with 194037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.