توہین رسالت قانون پراعتراضات،ممتازقادری اوراللہ کی عدالت

سپریم کورٹ نے سابق گورنرپنجاب سلمان تاثیرکے قتل میں ملوث ممتازقادری کے حوالے سے انسداددہشت گردی کی عدالت کافیصلہ بحال کرتے ہوئے دوبارسزائے موت دینے کاحکم دے دیاجبکہ عدالت عظمیٰ نے اسلام آبادہائی کورٹ کی جانب سے دہشت گردی کی دفعہ ختم کرنے کافیصلہ بھی کالعدم قراردے دیا ہے۔یہ حکم جسٹس آصف سعیدکھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مسلسل تین روزکی سماعت کے بعدجاری کیا ہے اپنے مختصرحکم میں عدالت نے انسداددہشت گردی کی عدالت کافیصلہ بحال کیاہے جس میں ممتازقادری کوانسداددہشت گردی کی دفعہ 780A کے تحت اورضابطہ فوجداری قانون کے تحت الگ الگ سزائے موت دی گئی تھی۔جسے اسلام آبادہائی کورٹ نے ۲۰۳ کی حدتک سزائے موت برقراررکھی تھی تاہم انسداددہشت گردی کی دفعہ ختم کردی تھی۔جس کے خلاف ممتازقادری نے سپریم کورٹ میں درخواست دائرکی تھی جبکہ وفاقی حکومت نے دہشت گردی کی دفعہ ختم کرنے کے فیصلے کوچیلنج کیاتھا۔ممتازقادری کی جانب سے خواجہ شریف اورنذیراخترایڈووکیٹ پیش ہوئے خواجہ شریف نے دلائل میں موقف اختیارکیا کہ ملزم کواس کام پراکسانے والے مولویوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔استغاثہ کوچاہیے تھا ان کوبھی شامل تفتیش کرتے اوران کوبھی سزادیتے۔جبکہ ممتازقادری کے دوسرے وکیل نذیراخترکاموقف تھاکہ اسلامی تاریخ میں جس نے بھی اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) کی شان میں گستاخی کی اس کی سزاموت رکھی گئی ہے۔اوریہ کہ سزائے موت کے حوالے سے ملزم سے قصاص اوردیت طلب نہیں کی جاسکتی۔ممتازقادری کی مارنے کی نیت اچھی تھی۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا اگراس طرح ہرکواجازت دے دی جائے تومعاشرہ فسادکامجموعہ بن جائے گا۔عدالتی فیصلے سے اصلاح ممکن نہیں ہے اس کے لیے معاشرے میں برداشت کاکلچرپروان چڑھانے کی ضرورت ہے معاشرے برداشت کے بغیرقائم نہیں رہ سکتییہ مخصوص ذہنیت ہے جس کوسکولوں ،کالجوں، دفاتراوردیگرجگہوں پرپروان چڑھایاجاتا ہے۔اس پرممتازقادری کے وکیل نذیراخترنے کہا کہ ناموس رسالت کے مقدمے میں قصاص اوردیت نہیں ہے جہاں حدجاری نہ ہووہاں تعزیرکے تحت سزادی جاسکتی ہے آپ کم سے کم سزادیں۔دہشت گردی کی دفعہ بنتی ہی نہیں۔نئے قانون میں جوترمیم کی گئی ہے اس میں نہ صرف جہادکونقصان ہوگابلکہ دہشت گردوں کے خلاف جاری ضرب عضب بھی متاثرہوگاسرکاری وکیل عبدالروؤف چوہدری نے کہا کہ یہ دہشت گردی اورقتل کامقدمہ ہے لہٰذا سزائے موت دی جائے۔جس پرعدالت نے مشاورت کے لیے پندرہ منٹ کاوقت لیا۔بعدازاں فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی حکومت کی جانب سے اسلام آبادہائی کورٹ کے فیصلے کے بارے میں درخواست منظورکرلی اوردہشت گردی کی دفعہ ختم کرنے کافیصلہ کالعدم قراردے دیا۔اس طرح سے عدالت نے انسداددہشت گردی کی عدالت کافیصلہ بحال کرتے ہوئے ممتازقادری کودوبارسزائے موت دینے کاحکم دے دیا ہے۔ممتازقادری کے وکیل نذیراخترنے آن لائن سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ہم اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی درخواست دیں گے اورعدالت عظمیٰ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں فیصلہ کوچیلنج بھی کریں گے۔کیونکہ اس میں ناموس رسالت کے حوالے سے شرعی معاملات بھی زیربحث آنے ہیں۔فیصلے کے چیلنج کرنے کاحتمی فیصلہ آئندہ چندروزمیں کیاجائے گا۔عدالت نے ممتازقادری کے جذبہ عشق مصطفی اوراس کے اقدام کوجرم قراردیا۔یہ فیصلہ معاشرے پرگہرے اثرات مرتب کرے گا۔جس طرح سے شان رسالت میں کئی لوگ ہرزہ سرائی کرتے ہیں اس فیصلے سے ان کی حوصلہ افزائی ہوگی۔یہ عدالت کافیصلہ ہے ہم اس کوشریعت اپیلٹ بینچ میں چیلنج کریں گے۔اس سماعت سے پہلے سماعت میں سپریم کورٹ نے قراردیا ہے کہ اگرلوگوں نے توہین مذہب کے مرتکب افرادکوخودہی سزادینے کافیصلہ کرلیاتوملک میں افراتفری پھیل جائے گی۔اورمخالفین ایک دوسرے پرتوہین مذہب کے الزام لگاکردشمنی نکالنے کی کوشش کریں گے۔عدالت نے ممتازقادری کے وکیل جسٹس ریٹائرڈمیاں نذیرسے استفسارکیاکہ توہین مذہب کے قانون میں کسی کوذاتی حیثیت میں کیااختیاردیا گیا ہے اورکیاایک شخص خودہی جج بن کرتوہین مذہب کے مرتکب افرادکوسزادے سکتا ہے۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ عدالت کومروجہ قانون کودیکھناہوگا۔انہوں نے کہاکہ عدالت کے سامنے قتل کامقدمہ ہے اوراس مقدمے کوسامنے رکھتے ہوئے ہی فیصلہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ممتازقادری کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کی سابق گورنرپنجاب سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔انہوں نے کہاکہ ان کے موکل کورنج تھا کہ سلمان تاثیرنے توہین مذہب کے قوانین کی مخالفت کی اوراس لیے ان کے موکل کی نظرمیں گورنرپنجاب واجب القتل تھے۔

ممتازقادری کیس میں عدالت عظمیٰ کاجوفیصلہ آیا ہے۔ اس پرتبصروں اورتجزیوں کاسلسلہ شروع ہوچکا ہے۔اس کیس میں آئین اورقانون کیاکہتا ہے یہ قانونی ماہرین ہی بہتربتاسکتے ہیں۔تاہم یہ بات طے ہے کہ ممتازقادری کایہ کیس دہشت گردی اورقتل کے دیگرمقدمات سے الگ نوعیت کاکیس ہے۔اس کیس میں اوراس سے پہلے جب بھی توہین رسالت کاکوئی واقعہ سامنے آتا ہے توہمارے دانشوروں، انسانی حقوق کے علمبرداروں،تجزیہ کاروں اورتبصرہ نگاروں کوچندباتیں شدت سے یادآنے لگتی ہیں اوروہ ان کابڑھ چڑھ کرپرچاربھی کرتے رہتے ہیں۔توہین رسالت کے قانون کے حوالے سے پہلااعتراض یہ کیاجاتا ہے کہ اس کاغلط استعمال ہورہا ہے۔ لوگ مخالفین پرتوہین رسالت کاالزام لگاکران سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس لیے اس قانون پرنظرثانی ہونی چاہیے۔صاف لفظوں میںیوں کہیں گے کہ اس قانون میں تبدیلی کرنی چاہیے۔اس کے نفاذاوراطلاق میں نرمی کرنی چاہیے۔ملزمان کے بچ نکلنے کاراستہ فراہم کرناچاہیے۔اس میں ایسی ترمیم کردی جائے جس سے اس جرم میں ملوث مجرم کوئی نہ کوئی فائدہ اٹھاسکیں۔توہین رسالت قانون کے غلط استعمال کاجوازبناکراس میں ترمیم یااس قانون کوتبدیل کرنے والے خودہی جائزہ لیں کہ کیاتوہین رسالت کے قانون کے علاوہ ملک میں جتنے بھی قوانین نافذہیں ان کادرست استعمال ہورہا ہے۔ یہ توکوئی نہیں کہتا کہ کسی بے گناہ کواس جرم کی سزادی جائے۔جس کے خلاف یہ الزام ہواس کی مکمل تحقیقات ہونی چاہییں۔جرم ثابت ہوجائے توسزادی جائے اورملزم بے گنا ہ ہوتو اس کوباعزت رہاکردیا جائے۔اس لیے توہین رسالت کے قانون کے غلط استعمال کاجوازبناکراس میں ترمیم یاتبدیلی کرنے کے خواہش مند یہ مطالبہ چھوڑدیں۔توہین رسالت کے حوالے سے ایک بات یہ بھی کی جاتی ہے کہ انسان میں برداشت ہونی چاہیے۔انسان کواشتعال میں نہیں آناچاہیے۔ہمارے دانشوروں ،تبصرہ نگاروں،تجزیہ کاروں اوردیگرشخصیات کوبرداشت کالفظ توہین رسالت کے لیے ہی یادرہتا ہے ان کواورکسی موقع پریہ لفظ یادنہیں رہتا۔جب دوبھائیوں کوڈنڈوں سے تشددکرکے شہیدکردیاگیااس وقت توکسی کویادنہیں رہا کہ انسان میں برداشت ہونی چاہیے۔جب لاہورمیں چرچ پردہشت گردی وارداتوں کے بعداحتجاج کے دوران دوبے گناہ جوانوں کوآگ میں کوئلہ بنادیاگیااس وقت بھی کسی کویادنہیں رہا کہ انسان میں برداشت ہونی چاہیے۔جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کر دیا گیا اس کے بعد ملک بھرمیں ہونے والے احتجاج میں ملک وقوم کاجونقصان ہوااس وقت بھی کسی نے نہیں کہا کہ انسان میں برداشت ہونی چاہیے۔اس طرح کے بہت سے واقعات ہمارے قارئین کومل جائیں گے جن میں قوم کوبرداشت کادرس دینے ضرورت تھی مگریہ بات اس وقت کسی کویادنہیں ہوتی۔جب بھی توہین رسالت کے بعدردعمل کاکوئی واقعہ ہوجائے توبرداشت کافلسفہ شدت سے یادآنے لگتا ہے۔اس سلسلہ میں گزارش یہ ہے کہ برداشت کی بھی کوئی حدہوتی ہے۔جولوگ توہین رسالت پرردعمل کے بارے میں برداشت کادرس دیتے ہیں ان کے سامنے ان کے باپ کی بے عزتی کر دیں پھردیکھیں کہ وہ خودبرداشت کے فلسفہ پرکتناعمل کرتے ہیں۔اپنے باپ کی بے عزتی توبرداشت نہیں کرسکتے اورتوہین رسالت کے معاملے میں برداشت کادرس دیتے ہیں۔توہین رسالت کے واقعہ کے بعد ردعمل کااظہارکرنے والوں سے توکہاجاتا ہے کہ انسان میں برداشت ہونی چاہیے۔جواس سنگین ترین جرم کاارتکاب کرتے ہیں یاتوہین رسالت قانون میں کوئی نہ کوئی جوازبناکراس میں ترمیم یاتبدیلی کی باتیں کرتے ہیں ان سے توکوئی نہیں کہتا کہ وہ کوئی ایسالفظ زبا ن سے نہ نکالیں،ایسا کوئی تبصرہ یاتجزیہ نہ کریں،ایسے ردعمل کااظہارنہ کریں جس سے کسی مسلمان کی برداشت جواب دے جائے۔توہین رسالت کے واقعہ کے بعدردعمل ظاہرکرنے والوں کے بارے میں یہ بھی کہاجاتا ہے کہ کسی کوقانون ہاتھ میں نہیں لیناچاہیے۔کوئی شخص ازخودکسی کوسزانہ دے۔ہرشخص کے ازخودسزادینے سے ملک میں افراتفری پھیل جائے گی۔ممتازقادری کوقانون ہاتھ میں نہیں لیناچاہیے تھا۔پہلے تویہ دیکھناچاہیے کہ اس نے یہ اقدام ازخودکیا یااس کوایسا قدم اٹھانے پرمجبورکیاگیا۔یہ تحریرپڑھنے والوں کادھیان علماء کرام اورمولویوں کی طرف جائے گا جن کی تقاریرسن کراس نے ایسا قدم اٹھایا۔یہ تجزیہ درست نہیں ہے۔ ممتازقادری کوایسا قدم اٹھانے پرمجبورکرنے والے کوئی اوربھی ہوسکتے ہیں۔جس وقت سلمان تاثیر مرحوم نے وہ قابل اعتراض اورناقابل برداشت الفاظ کہے تھے جن کے ردعمل میں اس کوقتل کیاگیا تھا۔اس وقت کسی نے قانون نافذکرنے والے اداروںیاعدلیہ سے رابطہ کیاتھا یانہیں۔سلمان تاثیرکے توہین رسالت قانون بارے کہے گئے قابل اعتراض الفاظ کے خلا ف کوئی شخص یاافراد،کوئی تنظیم یاگروہ کسی فور م پرشکایت لے کرگیا تھایانہیں۔اگرکوئی کسی فورم پرسلمان تاثیر کے خلاف ایف آئی آرکٹوانے، شکایت درج کرانے ،مقدمہ دائرکرانے گیا تھا یاگئے تھے تومتعلقہ فورم سے ان کوکیاجواب ملا۔شکایت کرنے والوں کوفورم کی طرف سے کیاجواب ملا اورکس قسم کے رویہ کاسامناکرنا پڑا۔کسی فورم نے سلمان تاثیرکے خلاف شکایت درج کرلی تواس کی کارروائی کاکیابنا۔اوراگران شکایات پرکوئی توجہ نہیں دی گئی۔ تمام متعلقہ فورم نے شکایات درج کرانے والوں پرکوئی توجہ نہیں دی توپھراپنے ضمیرکی عدالت میں یہ فیصلہ کرائیے ممتازقادری کے قانون ہاتھ میں لینے کاذمہ دارکون ہے۔ایسے ذمہ داروں کوتلاش کرکے ان کے خلاف ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے یانہیں۔کسی کے خلاف توہین رسالت کامقدمہ درج ہوجائے توہمارے دانشوروں،تبصرہ نگاروں،تجزیہ کاروں اورمعترضین کی ڈکشنری میں یہ اس قانون کاغلط استعمال کہلاتا ہے اوراگرکوئی گستاخ رسول کوقتل کردیا جائے۔تویہ قانون ہاتھ میں لیناکہلاتا ہے۔اگرکوئی کسی بھی فورم پر سلمان تاثیرکے ان الفاظ کے خلاف شکایت لے کرنہیں گیا تو کیایہ پیمراکی ذمہ داری نہیں تھی کہ چینلزپرکہے گئے ایسے الفاظ کانوٹس لیتا ہے متعلقہ چینلزکے مالکان،پروگرام کے پروڈیوسر،میزبان اورالفاظ کہنے والے کونوٹس جاری کرتا اوران کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرتا۔پیمرانے اس کانوٹس لیا تھا تواس کی کارروائی کاکیابنا۔اوراگرپیمرانے اس کانوٹس لیاہی نہیں اورنظراندازکردیا تھا توخودہی فیصلہ کرلیں کہ ممتازقادری کے قانون ہاتھ میں لینے کاذمہ دارکون ہے۔اس میں توکوئی دورائے نہیں کہ ممتازقادری نے قانون ہاتھ میں لیااس کوایسا نہیں کرناچاہیے تھاجب سلمان تاثیرتوہین رسالت کی ایسی ملزمہ جس کے خلاف عدالت میں کیس کی کارروائی کاعمل جاری تھاتوپریس کانفرنس اس کی صفائی پیش کرنا کیاقانون ہاتھ لینانہیں کہلاتاہے ۔کیا یہ قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے کہ عدالت کے باہرکسی ملزم کی صفائی پریس کانفرنس سمیت کسی بھی غیرعدالتی فورم پردی جائے۔سلمان تاثیرجس کی صفائی پیش کررہاتھا اگروہ اس نے یہ جرم نہیں کیاتھا تواس کوعدالت میں بے گناہ ثابت کرتا۔ہم ممتازقادری کے وکلاء سے گزارش کرتے ہیں کہ ممتازقادری کوسنائی گئی سزاکے خلاف نظرثانی کی اپیل منظورہوجائے تووہ اس تحریر میں یاددہانی کرائے گئے نکات پرہی توجہ دیں۔یہ سطورلکھتے ہوئے بارباریہ خیال آرہا ہے کہ ممتازقادری کوسنائی گئی سزاکونظرثانی کی اپیل میں بھی برقراررکھا جائے یاسزامیں کمی کی جائے یاممتازقادری کوبری کردیاجائے گا یہ نظرثانی کی اپیل کافیصلہ آنے کے بعد ہی معلوم ہوسکے گا۔یہ سطورلکھتے ہوئے باربارجوخیال آرہا ہے وہ یہ ہے کہ ممتازقادری تختہ دارتک نہیں جائے گا۔اس کے نمازجنازہ میں پچاس لاکھ سے زیادہ مسلمانوں شریک ہوں گے اوربڑے بڑے پارسا، پرہیزگاراورنیکوکاراس دن یہ تمنا کریں گے کہ کاش یہ جنازہ میراہوتا۔یادرکھیں بھول نہ جائیں اللہ کی عدالت بھی ہے۔ اللہ کی عدالت کافیصلہ بھی آنا ہے۔اللہ کی عدالت کافیصلہ کس کے خلاف آتا ہے اورکیافیصلہ آتا ہے اس کے لیے سب کوانتظارکرناہوگا۔ ریمنڈ ڈیو س رہا ہوسکتا ہے توممتازقادری کوبھی رہا ہوناچاہیے۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 301965 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.