امریکی صدر کی معافی

قندوز میں اسپتال پر امریکی فضائی حملے کے نتیجے میں 22افراد کی ہلاکت کے افسوسناک واقعے پر امریکی صدر اوباما نے آخر کار معافی مانگ لی ہے۔ تاہم یہ معاملہ معافی سے حل ہونے والا نہیں ہے، بلکہ امریکی جارحیت کا مستقل سد باب کرنا ضروری ہے۔ امریکی صدر قندوز اسپتال جیسے جارحانہ واقعات سے بچنے کے لیے امریکی فوجیوں کی کارروائیوں کے طریقہ کار پر غور کرنے کی یقین دہانی کرا کر خود کو بری الذمہ سمجھ رہے ہیں، جبکہ مذکورہ اسپتال چلانے والی تنظیم میڈیسنز سینس فرنٹیئرز (ایم ایس ایف) امریکی صدر کی معافی کو مسترد کرتے ہوئے واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ دوہرارہی ہے۔ افغانستان میں امریکی جارحیت کی داستان طویل ہے۔ امریکی فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے ایسے ایسے انسانیت سوز جرائم کا ارتکاب کیا ہے کہ انسانیت کی تاریخ ہمیشہ اس پر شرمندہ رہے گی، لیکن تمام تر ظلم و ستم کے باوجود امریکا افغانوں کو غلام نہ بنا سکا۔ امریکا نے اسامہ بن لادن کو بہانہ بنا کر 2001ءمیں افغانستان پر یہ کہتے ہوئے حملہ کیا تھا کہ 40 روز میں افغانستان فتح کرلیا جائے گا، لیکن ہزاروں، لاکھوں افغانوں کے قتل، ہزاروں نیٹو فوجیوں کی ہلاکت اور بھاری اخراجات کے باوجود بھی نہ صرف یہ کہ امریکا شکست سے دوچار ہوا، بلکہ 14سال کے بعد آج 2015ءمیں ایک بار پھر طالبان امریکا اور اس کی اتحادی افواج کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔

امریکی جنرل تو افغانستان میں کب سے شکست تسلیم کرچکے ہیں۔ امریکی ریٹائرڈ جنرل ڈینئل بولگر نے اپنی چشم کشا کتاب”ہم کیوں ہارے؟“ میں لکھا ہے: ”میں امریکا کا جرنیل ہوں اور میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہار چکا ہوں۔“ امریکی جنرل نے اپنی اس کتاب میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ کسی بھی ملک میں خانہ جنگی کو وہاں کے باشندے ہی ختم کر سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ عسکری سے زیادہ سیاسی پہلو رکھتا ہے۔ کسی ملک کی فوج چاہے کتنی ہی بڑی اور تجربہ کار ہو، وہ دوسرے ملک جا کر خانہ جنگی پر قابو نہیں پا سکتی۔ امریکی جنرل کی بات سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کوئی مشکل نہیں ہے کہ جب تک کسی ملک کے عوام کی تائید حاصل نہ ہو، اس وقت تک کسی ملک میں خانہ جنگی پر قابو نہیں پایا جاسکتا، لیکن افغانستان میں امریکا نے عوام پر طرح طرح کے مظالم ڈھا کر ان کو نہ صرف خود سے متنفر کیا، بلکہ اسلحہ اٹھانے پر بھی مجبور کر دیا، جو یقینی طور پر امریکا کی شکست کا بنیادی سبب ہے۔یہ حقیقت ہے کہ عالمی میڈیا کی جانب سے طالبان کے خلاف منظم جنگ شروع کیے جانے کے باوجود افغان عوام امریکا کے مقابلے میں افغان طالبان کے ساتھ ہیں، کیونکہ نیٹو و امریکی افواج نے افغان جنگ کی چودہ سالہ تاریخ میں افغانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور بارہا عوامی مقامات پر بمباری کر کے بے گناہ افغانوں کا خون بہایا ہے۔ امریکی فضائیہ عوامی مقامات، شادی بیاہ کی تقریبات، جنازوں، اسپتالوں، مدرسوں، مسجدوں اور نہتے لوگوں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بناتی رہی ہے۔ افغانستان پر قابض فوجیں تفریح کے لیے عوام کا قتل کرتی رہی ہیں۔ بے گناہوں کے قتل کے مقابلے، ان کی انگلیوں کو کاٹ کر تعداد کے مطابق انعام حاصل کرنے، عوام کی لاشوں کی بے حرمتی، کھیل و تفریح میں عوام کے گھروں کو بموں سے اڑانے اور عوام کو قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کے ساتھ یادگاری تصویریں بنوانے اور مساجد پر بم برسا کر نمازیوں کو شہید کرنے جیسے سفاکانہ اقدامات افغانستان میں امریکا اور نیٹو فوج کے سیاہ اور غیر انسانی کارنامے ہیں، جن کے باعث افغان عوام کا امریکی و نیٹو فوج کے مقابلے میں آجانا ایک فطری امر ہے۔
امریکا نے اسپتال پر حملہ کر کے اپنی وحشیانہ روایت کو برقرار رکھا ہے۔ ایم ایس ایف ٹراما سینٹر قندوز میں واحد طبی مرکز ہے، جہاں زخمیوں کا علاج کیا جاتا ہے، لیکن قندوز میں عالمی طبی تنظیم ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے زیر اہتمام چلنے والے اسپتال پر امریکی فوج نے آدھا گھنٹا وحشیانہ بمباری کر کے مریض بچوں، ڈاکٹروں اور دیگر عملے سمیت 22 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ بین الاقوامی طبی تنظیم کے ایک اہلکار کے مطابق انہوں نے قندوز میں حملے سے قبل امریکی اور اتحادی فوجوں کو مطلع کردیا تھا کہ یہاں ایک عالمی اسپتال موجود ہے، اسے نشانہ نہ بنایا جائے، اس کے باوجود امریکی طیارے 30 منٹ تک اسپتال پر بم برساتے رہے جبکہ دوران بمباری اسٹاف آفیسر نے کابل میں نیٹو عہدیدار اور واشنگٹن میں اعلیٰ امریکی عہدیدار کو ٹیلی فون کیا کہ اسپتال پر بم بارش کی طرح برسائے جا رہے ہیں، تاہم اس اطلاع کے باوجود بمباری نہ روکی گئی۔افغانستان میں ایسا کئی بار ہوا کہ امریکی فوج نے کسی ایک شخص کو مارنے کے لیے عوامی مقامات، بازاروں، بستیوں پر بمباری کی، جس کے نتیجے میں بوڑھوں اور بچوں سمیت سیکڑوں افغان باشندے جان کی بازی ہار گئے، جس کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی جانب سے بے گناہ افراد کی موت پر امریکی جارحیت کی مذمت بھی کی گئی، بلکہ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے افغانستان میں عام شہریوں کی ہلاکت کے واقعات میں امریکی فوج کے خصوصی دستوں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے سے متعلق نئے سوالات اٹھاتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ امریکا اپنی اسپیشل فورسز کے افغان سویلین باشندوں کی ایذا رسانی اور ہلاکتوں میں ملوث ہونے کے الزامات کی مکمل اور غیر جانبدارانہ چھان بین کرائے اور امریکی فوج کی طرف سے جرائم کے مبینہ ارتکاب اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ذمہ داران کو باقاعدہ سزائیں سنائی جائیں، لیکن اس کے باوجود امریکی افواج نے افغان عوام پرظلم کا سلسلہ ترک نہ کیا۔

اب اگرچہ امریکی صدر اوباما نے اسپتال پر امریکی فوج کی جارحیت پر معافی مانگی ہے ، جبکہ اقوام متحدہ نے امریکی جارحیت کو ناقابل معافی جرم قرار دیا ہے۔ جنگ کے مسلمہ عالمی اصول وضوابط کے تحت عوامی مقامات، عبادات گاہوںاور بے گناہ افراد کو نشانہ بنانا اور ان کی املاک کو تباہ کرنے پر سخت قدغن ہے، لیکن خود کو دنیا کی واحد سپر پاور سمجھنے والی ریاست کسی بھی قاعدے اور ضابطے کی پاس داری کو اپنی شان کے خلاف تصور کرتی ہے۔ امریکی جارحیت نے افغانستان کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔ اب امریکا کو افغانستان سے چلے جانا چاہیے، تاکہ افغان عوام اپنے فیصلے خود کرسکیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638136 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.