سانحہ نفاذِ اردو

چیف جسٹس جناب جسٹس خواجہ جواد نے جاتے جاتے اردو کو دفتری زبان کے طور پر رائج کرنے اور مقابلے کے امتحانات اردو میں لینے کا تاریخی فیصلہ سُنا کر اُمرا اور بیورو کریسی کو بہت بڑے صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔ لیکن ہم (عام آدمی) اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔فیصلہ سُن کر دِلی مسرت ہوئی کیونکہ اب کم از کم ہمیں (عام آدمی) کو عدالتی فیصلے، سرکاری احکامات، اور سرکاری دفاتر کے تمام دفتری امور کو سمجھنے کا موقع تو مِلے گا۔اس کے ساتھ ساتھ سرکاری سکولوں میں پڑھنے والے غریب بچے بھی مہنگی مہنگی اکیڈمیوں میں پڑھے بغیر مقابلے کے امتحانات کی تیاری کر سکیں گے۔ملکی سطح پر عدالت کے اس فیصلے کے بعد افسوس ناک خاموشی اور منافقانہ چُپ کا سماں ہے کسی سیاسی جماعت نے اس کا خیر مقدم نہیں کیا اور نہ ہی اس فیصلے پر عمل کرنے کا مطالبہ سامنے آیا ہے۔ بات بات پر دھرنے دینے والی جماعتیں،جماعت اسلامی، پاکستان تحریک ِ انصاف اور طاہر القادری گروپ کی طرف سے مکمل خاموشی ہے۔ مسلم لیگ ن کے کسی بھی راہنما نے کوئی حوصلہ افزا بیان نہیں دیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے حالات ان دنوں ویسے ہی قابلِ رحم حد تک خراب ہیں ۔الطاف حسین اور مولانا فضل الرحمان سمیت تمام سیاست دان جو چھوٹی چھوٹی بات پر طوفان اٹھا دیتے ہیں سب پر سکتہ طاری ہے۔ نفاذ ِ اردو کے جملہ مضمرات میں سے چند ایک یہ بھی ہیں کہ اب باہر ممالک کے تعلیم یافتہ کو پاکستان میں حقیقی مقابلہ کرنا ہوگا۔ انگریزی طرزِ تعلیم کے عادی حکمران طبقے کوایک دم ایسی ضرب لگی ہے کہ ان کی بولتی بند ہے۔ اب طبقہِ اشرفیہ کا سامنا عام آدمی سے ہو گا اور یہ معمولی سامنا نہیں ہو گا۔ اس میں پلڑا عام آدمی کا ہیبھاریہے جو بیچارہ ساری زندگی TENSرٹ کر اور DAWNاخبار پڑھ کر CSSپاس کرنے کے خواب دیکھتا آیا ہے۔ جس کو انگریزی طرزِ تعلیم سے اور انگریزی زبان سے شناسائی کے لیے بیکن ہاوس طرز کے اداروں کا محتاج ہونا پڑتا تھا۔فیس جمع کروانے لے لیے قرض لینا پڑتا تھا۔ بوڑھے ماں باپ کے تھکن زدہ اترے چہرے دیکھ کر جب اس کا دل بُجھ جاتاتھا اور وہ بار بار PSC,CSS,PPS,FPSCکے امتحانات میں فیل ہو کر آخر مجبور ہو جاتا تھا کہ ماں باپ کا بوجھ ہلکا کرنے کے لیے کوئی بھی نوکری کرنے کی حامی بھر لے۔ اب صورتحال بدلے گی نائب قاصد کی آسامی پر ایم اے پاس نوجوانوں کی درخواستیں آنا بند ہوں گی۔کوئی نوجوان زہریلے لہجے میں یہ کہتا نہیں سُنا جائے گا کہ ”اِس سے تو نہ پڑھا ہوتا وہ بہتر تھا“ اردو زبان پر اعتراض کرنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ہر ترقی یافتہ ملک میں تعلیمی، سرکاری اور دفتری زبان وہی ہوتی ہے جو اس ملک کے عام بولتے ہیں۔ وہ لوگ بھی تو ہر میدان میں نمایاں ہیں آخر ہم کیوں انگریزی کے بغیر خود کو نا مکمل سمجھ رہے ہیں؟اردو زبان میں بڑی وسعت ہے ہم نے انگریزی کو اپنا کر خواہ مخواہ اپنی زبان کو محدود کیا ہوا تھا۔ہماری شرح تعلیم میں کمی کی بڑی وجہ بھی انگریزی تھی۔ گھر میں علاقائی زبان، سکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں میں انگلش اور عام روز مرہ بول چال اردو میں ہم بیک وقت تین زبانوں کے ساتھ نبرد آزما تھے۔ المیہ یہ ہے کہ تعلیمی ادرارے ہوں یا سرکاری دفاترہر جگہ عام طور پر بات چیت اردو میں ہی ہوتی ہے۔ عدالتوں میں وکیل بحث اردو زبان میں کرتے ہیں جج اردو میں سوال و جواب کرتے ہیں۔ آ خر میں فیصلہ انگریزی زبان میں، تعلیمی اداروں میں لیکچر اردو میں اور امتحان انگلش میں۔کیا دوہرا میعار ہے؟ اس کے ساتھ ساتھ ایک گزارش یہ بھی ہے کہ اردو کے نفاذ کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اب انگریزی بولنا کفر ہے۔ بعض ایسے الفاظ ہیں جو انگریزی سے اردو میں مستعمل کرنے ہوں گے جن کا اردو ترجمہ ممکن نہیں یا اگر ممکن ہے تو بہت پیچیدہ اور مشکل ہے۔ جیسے BUS، GOAL KEEPAER،MOBILE،SPEAKER،TELEVISION،COMPUTER، وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کو ایسے ہی استعمال کر لینے میں کوئی حرج نہیں نہ کہ ان کا زبردستی غلط اور مضحکہ خیز اردو ترجمہ کیا جائے۔ بعض احساسِ کمتری میں مبتلا نیم خواندہ حضرات کی کوشش ہوتی ہے کہ ایسے الفاظ کا اردو ترجمہ پوچھ کر مقابل کو لاجواب کیا جائے اور پھر ایک خود ساختہ ترجمہ بتا کر داد وصول کی جائے۔)مثلا موبائل کا ترجمہ آلہِ دور گو اور گشت میں رہنے والا آلہ)ایسے حضرات نفاذِ اردو کے بعد مزید بپھر جائیں گے ان کی سرکوبی کی سخت ضرورت ہے کیوں کہ ایسے تراجم زبان کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ میں نے کئی ایسے احساسِ کمتری کے نمونے بھی دیکھے ہیں جو کہتے ہیں اگر تمہیں انگلش آتی ہے تو بتاؤ پکوڑے کی کیا انگلش ہے؟ ایسے لوگوں کو سمجھنا چاہیئے کہ کسی بھی زبان کے لفظ کو مکمل طور پر دوسری زبان میں ترجمہ کرلینا بعض دفعہ لفظ ROOT MEANINGSاور استعمال کے معاشرتی و جغرافیائی پسِ منظر کی وجہ ہے ممکن نہیں رہتا۔ لہذا اردو کی ترویج کے بعد اس کی ترقی کے لیے اس میں تبدیلیاں اور اضافے قبول کرنے ہوں گے۔بحثیتِ قوم ہماری ذمہ داری ہے کہ اب اردو زبان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور انگریزی زبان کا خوامخواہ استعمال ترک کردیں۔اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتیں، ماہرینِ تعلیم اور دیگر حکام کو بھی پاکستان میں اردو زبان کی ترویج کی عملی کوشش کرنا ہو گی۔چلتے چلتے قارئین کی دلچسپی کے لیے بتاتا چلوں کہ مقتدرہ قومی زبا ن کی ویپ سائٹ پر تمام ایسے انگریزی الفاظ جن کا اردو متبادل موجود ہے سرچ کیے جا سکتے ہیں۔ اس میں دفتری و قانونی اصطلاحات کے علاوہ روزمرہ الفاظ کا ترجمہ بھی موجود ہے۔

Mubashir Hassan
About the Author: Mubashir Hassan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.