انسان بمقابلہ شیطان

آدم کی پیدائش کے فوراً بعد ہی کائنات میں خیر شر کے دو راہ متعین ہو گئے تھے۔ اماں حواکو بہکانے والا معلم الملوک تھا، جس کے بارے میں بزرگوں سے سنا ہے کہ اس نے دنیا کے چپے چپے پر عبادت کی اور کئی کئی عرصہ تک کی۔ ایک روایت کے مطابق جب شیطان مردود عرش معلی کے نیچے سجدہ ریز ہوتا تواسے عین اس کے پیشانی کے نیچے ایک عبارت لکھی ملتی ’’ملائکہ کی موجودہ محفل میں سے ایک ایسا بھی ہو گا جو راہندہ درگاہ ہو گا‘‘۔ شیطان کہتا ہے کہ وہ اس عبارت کو پڑھتا اور ایک ایک فرشتہ کے بارے میں سوچتا کہ فلاں فلاں تو بہت ہی تابعدار ہیں، پھر وہ کون ہے جو اﷲ عزوجل کی نافرمانی کر ے گا۔ شیطان نے کبھی اپنے متعلق گمان بھی نہ کیا کہ میں ہی وہ ہو سکتا ہوں جس کے حصہ میں یہ ذلت آئے گی۔ آخر کا نیکی کی کوکھ سے بدی نے جنم لیا اور شیطان مردود ہو گیا۔ رعونیتِ ہنر جو بر مبنی علم و زہد تھا، نے اس کا کچھ نہ چھوڑا اور وہ آسمانوں سے اتار دیا گیا۔

اصل کہانی آدم ؑ و حواؑ کے دنیا میں اتارے جانے کے بعد ایک باقاعدہ خیر و شر کی جنگ کی صورت میں شروع ہوئی جب شیطان نیااپنی سپاہ اﷲ ہی کی مخلوق سے تیار کرنا شروع کی اور رحمان کے فوج کے مد مقابل آ گئے، جو تاحال جاری ہے اور رہتی دنیا تک جاری رہے گی۔

ملک خداداد، وطن عزیز پاکستان میں خیر و شر کی یہ جنگ اس کی پیدائش ہی سے شروع کر دی گئی تھی جو ابھی تک جاری ہے۔ اس کے صورتیں بدلتی رہیں، اس کے مراکز تبدیل ہوتے رہے۔

ٹیڈی کی اپنی مصدقہ اطلاعات کے مطابق اماں حواؑ ، ابو آدمؑ سے عمر میں چھوٹی تھیں اس لیے وہ اتنی سیانی نہیں تھیں جتنا کہ ابو آدم ؑ تھے۔اماں حواؑ کیونکہ ابوا ٓدمؑ کی دائیں پسلی سے برآمد ہوئیں تھیں اور ٹیڈی کے پاس مصدقہ ذرائع ،اماں حواؑ کے آدمؑ سے چھوٹے ہونے کے، یہی ہیں ۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس خوبصورت جوڑے میں سے شیطان نے اماں حواؑ کا انتخاب کیوں کیا ؟ کہ ان کو بہکایاجائے۔ بزرگ اس بات کا جواب ایک لگی بندھی بات کہہ کر دے دیتے ہیں کہ ’’عورت ناقص العقل ہے، جلد بہکاوے میں آجاتی ہے اس لیے‘‘۔ جب کہ ٹیڈی اپنی اماں حواؑ کے بارے میں یہ نہیں کہتا ۔ ٹیڈی کہتا ہے کہ عزازیل نے اماں حواؑ کا انتخاب اس لیے کیا تھا کیونکہ اماں حواؑ آدم سے عمر میں چھوٹیں تھی، ٹیڈی یہ بات اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کرتا ہے۔ کیونکہ ٹیڈی نے آج تک کسی بھی پچاس ساٹھ سالہ دہشت گرد کو خودکش دھماکہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا یا سنا۔ جب بھی سنا یہی سنا کہ ایک نوجوان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی وجہ سامنے یہ آئی کہ اماں حواؑ کا انتخاب ان کے ناقص العقل ہونے کی وجہ سے نہ تھا بلکہ ان کا نابالغ ذہن تھا۔ شیطان نے اماں حوا کے نابالغ ذہن کو نفس کے حسین خواہشات کی مدد سے استعمال کر کے غلطی کرنے پر اکسایا اور کامیاب ہو گیا۔ گندم کا دانہ جو دنیا کی محبت کا مظہرتھا، استعارہ بنا نتیجتاً آدم و حوا کو خلدِ استراحت سے مشقت ِدنیامیں سزا کے طور پر اتار دیا گیا ، جو تا حال جاری ہے۔ اور فی زمانہ آدم کے نابالغ بیٹوں کو شیطان کے عقل مند چیلے اور خود شیطان جنت فردوس کی لالچ دے کرصرف غلطی نہیں گناہ پر اکساتے ہیں، بالکل ویسے ہی جیسے شیطان نے گندم (دنیا) کی لالچ دے کر اماں حوا کو بہکایا تھا، اسی طرح آج اسی حوا و آدم کے بیٹوں کو فردوس بریں کی لالچ دی جاتی ہے۔ کھیل وہی ہے نفس کی خواہشات کی منزل کو ادبل بدل کر دیا گیا۔

وطن عزیز میں مذہبی انتہا پسندی کے اس رجحان کا آغاز کسی بھی انداز ، کسی بھی صورت میں کیا گیا ہو اس سے قطع نظر آج ہمیں اس کے سد باب کی فکر کرنی ہے۔ کچھ دانش مندوں سے بات کی جائے تو آج بھی یہی جواب ملتا ہے کہ ’’وہ جی، فلاں فلاں اس کا ذمہ دار ہے، جو دار فانی سے خود کوچ کر گیا لیکن اس لعنت کو ہمارے گلے میں ڈال دیا گیا‘‘۔ یہ موضوع اتنا دلچسپ اور لمبا ہے کہ اس سے دانش مندوں کے روٹیاں لگی ہوئی ہیں، کہ روز میڈیا پر بیٹھو گزرے ہوئے لوگوں کو برا بھلا کہواور اُٹھ کر آجاؤ۔ آج ایک عرصہ کی بحثوں کے بعد اس بات کا تعین ہو چکا ہے کہ اس کا ذمہ دار کون کون ہے۔ ٹیڈی کے خیال میں اب ذمہ داریوں کے تعین کے بجائے زیادہ غور اس کے تدارک پر کیا جانا چاہیے۔ آج ہم کو ذمہ داروں سے نظر چرا کر اب اپنی سوچ کو اس امر پر مرکوز کرنا ہے کہ ہم کچے ذہنوں کو شیطان کے اس جال سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔

ان نابالغ ذہنوں کوبگاڑنے میں کلیدی کردار ہمارے اساتذہ کرام اور ملاؤں کا ہے۔ جب ہماری اولاد کسی سانحہ سے دوچار ہو چکی ہوتی ہے تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ ہماری اولاد جو مسجد میں جاتی رہی ہے اور وقت گزارتی رہی ہے ، اس سے اسے زہد و تقوٰی کم ملا ہاں اس کو فرقہ پرستی اور تعصب کے بھوت نے آن دبوچا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم جس ہستی کے پیچھے کھڑے ہو کر پانچ وقت بارگاہ الہیٰ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، اس کا مصلا پر کھڑا ہونے کا ہمارے پاس کیا معیار ہے؟ کیا صرف ایک حافظ قرآن ہونا اس کے لیے کافی ہے؟ کیا ہمیں اس کی باتیں ہر جمعہ کو صرف اس لیے سننا لازم ہیں کہ وہ امام ہے یا پیش امام ہے؟ شاید ہمیں یہاں سوچنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اگر آج سے بیس سال بعد ایک محب وطن نسل چاہئے تو ہمیں امام و پیش امام کے کچھ معیار مقرر کرنے پڑیں گے کیوں کہ استاد و امام ایک نسل تیار کرتا ہے۔ اگر وہ منفی معنوں میں کرے تو فرقہ پرستی اور دہشت گردی کا ایک نا ختم ہونے والا طوفان ، اگر مثبت معنوں میں ہو تو سنت نبویﷺ کی طرح محبت ہی محبت ، انسانیت ہی انسانیت۔ ٹیڈی یہ بات اپنے ذاتی مشاہدہ کی بنیاد پر کر رہا ہے، وقوعہ کچھ یوں ہوا کہ ٹیڈی کے ایک نزدیکی رشتہ دار نے کہیں ایک خاص مسلک کو ان مٹ سیاہی سے کافر لکھ دیا، جس کے نتیجہ میں اسے جیل کی ہوا کھانا پڑی، یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ اس بچے کو نہ صرف اپنے اساتذہ سے یہی سبق ملا تھا بلکہ اس کے گھر والوں کو بھی یہی سبق ازبر ہے، پھر اس کے خاندان نے انہی کافروں (بقول اس خاندان کے )سے معافی مانگ کر راضی نامہ کیا اور پھر وہ بچہ جیل سے رہا ہوا۔
Raja Nazir Ahmed
About the Author: Raja Nazir Ahmed Read More Articles by Raja Nazir Ahmed: 7 Articles with 8379 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.