ممتا کی چھاؤں

 دنیا میں ایسی عظیم ہستی موجود ہے۔ جسے خدا نے بڑی عزت نوازی ہے اور بہت بڑئے مرتبے پر سرفراز فرمایا ہے۔اور اس پاک ہستی کولازوال مقام حاصل ہے۔اور اس ہستی کا نام ماں ہے۔ماں اپنے بچوں کو ہر طرح کی مشکلات جھیل کر پالتی ہے۔کیونکہ بچے کو سب سے زیادہ ماں کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ماں ہی وہ ہستی ہیں جس کے بغیر گھر سونا سونا لگتا ہے۔ماں اپنے بچوں کو برابری سے پیار کرتی ہے۔کیونکہ ماں کو اﷲ تعالیٰ نے بہت مقام عطا کیا ہے۔کوئی امیر ہو یا غریب ہو وہ اپنے بچوں کو دل جان سے پیار کرتی ہیں ۔غریب ہو تو ماں اپنے بچوں کے لیے محنت مزدوری کر کے ان کا پیٹ پالتی ہیں ۔اور ماں اپنے بچوں کی ہر خواہش پورا کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے ۔ایک ماں خود تو بھوکھا سو جائے گی مگر کبھی اپنے بچوں کو بھوکھا نہیں رکھے گی کیو نکہ وہ ماں ہے۔اگر کوئی جانور بھی ہو تو اُس کی بھی ماں اُسے اتنا ہی پیار کرتی ہیں جتنا کہ ایک ماں کو اپنے بچے کے ساتھ کرنا چاہیے۔اور اگر ماں کو اﷲ تعالیٰ نے اتنی عزت نہ بخشی ہوتی تو ماں کی پریشانی دیکھ کر اﷲ پاک صفا مروہ کو حج کا رکن نہ بناتا ۔نصیب ہو جائے جس کو ماں کی دعا مل جائے جس کو باپ کی رضا مل گئی دولتِ دو جہاں اُس کے لیے یہی ہے میرے اﷲ و رسول کی رضا ۔ ماں کا اگر بچہ گم ہو جائے تو اسے بے چینی سی لگ جاتی ہے۔وہ اُسے کہاں کہاں نہیں ڈھونڈتی یہ ایک ماں کی ممتا ہے اور ایک ماں ہونے کے ناطے یہ اس کا فرض ہیں ۔جب وہ اسے ملتا ہے تو اسے چومتی ہے اسے گلے لگاتی ہیں اسے پیار کرتی ہے اسے اپنے ساتھ ساتھ رکھتی ہیں ۔ ماں ایک بہت بڑی نعمت ہے اور تم رب کی کون کون کی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ جب بچہ اپنے گھر سے باہر نکلتا ہے تو ماں اس کے لیے دعائیں کرتی رہتی ہیں جب تک وہ گھر واپس نہیں آ جاتا اور اسے ذرہ سی بھی دیر ہو جائے تو ماں کو بے چینی سی لگ جاتی ہیں اُن ماؤں کا کیا حال ہوتا ہو گا جن کے بچے اب اس دنیا میں نہیں رہے ان ماؤں کا کیا حال ہوتا ہو گاجن کے بچے شہید ہو گئے ہیں اُن ماؤں کے بچوں کا قصور تھا جن کی زبانیں گولیوں سے بند کر دی گئی ۔ سانحہ پشاور میں جس طرح ماؤں کے لخت جگر لہو لہو ہوگئے اور جس طرح مادر وطن کے لیے ماؤں نے اپنے لال قربان کر دئیے۔ جن کو دہشت گردوں نے موت کی نیند ُسلا دیا اُن کی مائیں تو جیتے جی ہی مر گئی ہو ۔ کیا ماں اپنے بچوں کو کبھی بھی اس حالت میں دیکھ پائے گی کیونکہ وہ اس کی اولاد ہے اور وہ نہیں چاہے گی کہ کوئی اسے چھوئے بھی مگر انہوں نے تو ان کو گولیوں سے مار ڈالا۔اس کے دل میں کیا گزرتی ہو گی ۔وہ ماں زندہ تو ہو گی مگر صرف جسمانی وہ کھائے گی ضرور مگر اسے محسوس نہیں کر پائے گی ۔وہ پانی پیئے گی مگر اپنے بچے کی یاد میں روتے روتے اس کا پیا ہوا پانی آنسوؤں میں بدل جائے گا ۔یہی ہے ماں کی ممتا ۔ماں ایک انمول تحفہ ہے۔جب بچہ اپنے کسی امتحان میں چاہے وہ کسی بھی قسم کا امتحان ہو چاہے وہ پڑھائی کا ہو یا کھیل کا ہو اور اُس میں کامیابی حاصل کر لے تو سب سے زیادہ خوشی ماں کو محسوس ہوتی ہے۔ کیونکہ وہ ماں ہے ۔اور جب بچے کو جب کچھ ہو جاتا ہے ماں کو ہی سب سے زیادہ دکھ ہوتا ہے۔یہ بات حقیقت ہے کہ ماں کے پیروں تلے جنت ہے ۔ اﷲ تعالیٰ نے ماں کو بہت بڑا رتبہ عطا کیا ہے۔ماں کے پیروں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے۔جس نے ان دونوں کو راضی کر لیا تو گو یا اس نے رب کو راضی کر لیا ۔جب کسی ماں سے اُس کا لخت جگر اُس کا بچہ اس سے جدا ہو جاتا ہے تو وہ ماں جیتے جی ہی مر جاتی ہے ۔مگر یہ اﷲ تعالیٰ کا قانونِ قدرت ہے ۔مرنا تو سب کو ہی ہوتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا ماں کی عظمت سب سے بڑھ کر ہے اسلام میں بہت سی مثالیں ایسی ہیں جس میں ماں کا ذکر ہوں کیونکہ ماں کا رتبہ ہی اس معاشرے میں بلند ہیں۔

Huzaifa Ashraf
About the Author: Huzaifa Ashraf Read More Articles by Huzaifa Ashraf: 28 Articles with 38621 views صاحبزادہ حزیفہ اشرف کا تعلق لاہور کے ایک علمی وروحانی حاندان سے ہے۔ حزیفہ اشرف14اکتوبر1999کو پیدا ہوئے۔حزیفہ اشرف کے والد قانون دان میاں محمد اشرف عاص.. View More