رویّے بدلنا ہوں گے

 یہ جملہ کتنی ہی بار سننے اور پڑھنے کو ملا کہ ملک بھر میں عیدالالضّحی مذہبی جوش و جذبے سے منائی گئی۔ تہوار آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں لیکن ہر دفعہ ان گِنت سوالات ہمارے لیے چھوڑ جاتے ہیں۔ سوچنے والے ذہن سوچتے ہیں اور دیکھنے والی آنکھ دیکھتی ہے۔ محسوس کرنے والے کرتے ہیں، جو نہیں سوچنا سمجھنا چاہتے وہ بس یوں ہی آگے بڑھ جاتے ہیں اور زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ مگر آگے بڑھنے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ غلط رویوں پر آنکھ بند کرکے گزر جانا ہوسکتا ہے ان کے لیے تو کوئی خاص مسئلہ بن کر سامنے نہ آئے، لیکن ان کی آنے والی نسل کو وہ غلط رویے کسی عذاب کی طرح بھگتنے پڑیں گے۔

عیدالاالضحی کے موقع پر جگہ جگہ بکھرا اور جما ہوا خون، آلائشوں کی گندگی، آس پاس سڑکوں سے اٹھنے والا تعفن آخر کس مذہبی جوش و جذبے کو ظاہر کر رہا ہوتا ہے؟ عیدیں اور دیگر مذہبی تہوار تو روحوں کو پاک کرتے ہیں، انسان اندر سے خود کو صاف ستھرا محسوس کرتا ہے۔ یہ ہم کس طرح تہواروں کو منا رہے ہیں کہ گندگی کے ڈھیر جگہ جگہ ہمیں منہ چِڑا رہے ہیں۔ روح کی پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے سارے جہاں کو گندا کرنا کون سا مذہب سکھاتا ہے۔

میرے آقا حضرت محمّد ﷺ نے صفائی کو نصف ایمان فرمایا ہے، لیکن ہم سنت ابراہیمی کو پورا کرتے ہوئے اس بات کا احساس بھی نہیں کرتے کہ ہمارے یہ بہ ظاہر چھوٹے چھوٹے فعل خدا کے سامنے کتنے نا پسندیدہ ہوں گے۔

ہماری سڑکیں عیدِالاالضحی پر عجیب منظر پیش کررہی ہوتی ہیں۔ عید قرباں پر سب کو کھلی چھٹی ہوتی ہے کہ وہ اپنے شہر میں جتنی چاہے گندگی پھیلائیں، کھلی اجازت ہے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ سڑک کے بیچوں بیچ جانوروں کی آلائشیں ڈال دینا کہاں کی تہذیب ہے؟ گندگی سے دوسرے لوگوں کو پریشان کرنا کس مذہب کی تعلیم ہے؟

ایک اندازے کے مطابق اس سال پورے ملک میں تقریباً 63 ہزار گائے اور 16 لاکھ بکروں کی قربانی کی گئی اور اکثریت نے مخصوص مذبح خانوں کا رخ کرنے کے بجائے سڑکیں، پارک، گلی محلے استعمال کیے، جس کے باعث جگہ جگہ قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اور گندگی بکھری نظر آتی ہے۔ اس گندگی کے نتائج فوری طور پر برآمد نہیں ہوتے، لیکن تیزی سے جراثیم بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں اور اس کا اندازہ آپ کو تب ہوتا ہے جب آپ کے اطراف موجود لوگ کسی وبائی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ہم ایک لاکھ کا جانور تو خرید سکتے ہیں لیکن اس کی صفائی کرنے کے لیے پانچ سو روپے خرچ کرنا ہمیں مشکل لگتا ہے اور تمام تر ذمے داری ہم حکومت پر ڈال کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔

یہ بیان کبھی عیدِقرباں کے بعد اور کبھی عیدِقرباں سے پہلے حکومت کی جانب سے ضرور سننے کو ملتا ہے کہ حکومت کی خصوصی ہدایت پر عیدالاضحی کے موقع پر صفائی کی صورت حال کو یقینی بنانے، آلائشوں کو اٹھانے، امن و امان کی صورت حال بہتر بنانے اور شہریوں کو بھرپور سہولتیں فراہم کرنے کے لیے تمام تر انتظامات کو حتمی شکل دے دی گئی ہے، لیکن اکثر مقامات پر اس ہدایت پر عمل ہوتا نظر نہیں آسکتا۔

شہری سہولتوں کی فراہمی کے ذمے دار تمام ادارے ایک اپنے طور پر عوام کو احساس دلاتے ہیں کہ ان کے ادارے مربوط طریقے سے انھیں تمام تر سہولیات پہنچانے کے لیے کام کر رہے ہیں، اب چاہے لوڈشیڈنگ کا مسئلہ ہو یا پانی کا تمام مسائل حل کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ یہ دعوے کس حد تک درست ہوتے ہیں، یہ تو وقت ہی بتاتا ہے، لیکن بطور شہری ہم عوام اپنی ذمے داری کس حد تک پوری کرتے ہیں۔ یہ سوال کئی سالوں سے اپنے جواب کی تلاش میں ہے۔ ہم چاہتے ہی نہیں کہ اس سوال پر بحث کریں کیوں کہ ہمارے خیال میں تمام تر ذمے داریاں حکومتی اداروں کی ہیں، سو یہ ان کا مسئلہ ہے کہ وہ شہر کی صفائی کا کیسے خیال رکھتے ہیں۔ یہ سوچ انتہائی غلط ہے۔

ادارے اپنے اپنے طور پر شہر میں سے آلائشیں اٹھانے اور صفائی کے کاموں کی ذمے دار ہیں، لیکن اگر حکومت کی طرف سے بھیجے گئے افراد اپنا کام کرکے چلے بھی جائیں تب بھی ہم عوام بعض نہیں آتے، جس جگہ سے صفائی کرنے والے عملے کی گاڑی گزری ہو وہیں پر مزید گندگی پھنک دیتے ہیں۔ قومیں یوں مہذب نہیں بنتیں بل کہ مزید غیرمہذب اور تنزلی کا شکار ہوجاتی ہیں اور ایسے افراد میں بدل جاتی ہیں جو اپنے آپ سے اور اپنی آنے والی نسل سے ہی مخلص نہ ہوں۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ حکومت نے کوئی کام نہیں کیا میں ان کا ساتھ نہیں دوں گی، کیوں کہ گذشتہ سال بقرعید پر کراچی میں فیومیگیشن کا باقاعدہ اہتمام کیا گیا تھا۔ کیا ہم خود اہل محلہ مل کر ایسے کام نہیں کرواسکتے جن سے ہم اپنے مہذب قوم ہونے کا ثبوت دے سکیں اور ہماری آنے والی نسلیں بھی اس عمل کو دہرائیں اور ہمارے تہوار ہمارے لیے مزید خوشی کا باعث بنیں!

اپنے گھروں کو صاف رکھتے ہوئے گندگی گلیوں اور سڑکوں پر پھیلانے کا عمل ہماری صفائی پسندی ہی پر سوالیہ نشان نہیں لگاتا بل کہ یہ رویہ ہمیں خودغرض بھی ثابت کرتا ہے۔ درحقیقت ایسے رویے ہی ہیں جنھیں تبدیل کرکے ہمارا معاشرہ وسیع پیمانے پر مثبت تبدیلیوں سے آشنا ہوسکتا ہے۔

صحت وصفائی کا شعور بیدار کیے بغیر ہم ترقی کی منزل پانا تو دور کی بات مہذب کہلانے کے مستحق بھی نہیں ہوسکتے۔ کیا یہ صفائی سے غفلت اور صحت سے بے نیازی کی مثال نہیں کہ ہم صفائی پسندی کے دعوے دار بنتے ہوئے بڑی کراہیت کے ساتھ جو آلائشیں سڑکوں کی زینت بناتے ہیں، وہی اپنی تمام تر غلاظت اور مضرصحت اثرات کے ساتھ مختلف مصنوعات کی صورت میں ہمارے گھروں میں واپس آجاتی ہیں۔ کیا اچھا ہو کہ ہم جانور خریدنے سے قربانی تک کے تمام مراحل کی طرح قربانی کے بعد اپنے گلی محلوں اور سڑکوں کی صفائی کو بھی اسی مبارک عمل کا حصہ سمجھتے ہوئے کسی ادارے کے عملے کا انتظار کیے بغیر آلائشیں ٹھکانے لگانے کا انتظام ازخود کریں، تاکہ غلاظت گھوم پھر کر دوبارہ ہمارے گھروں کی ’’زینت‘‘ نہ بن سکے۔

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283078 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.