اتباع رسول پر کتاب و سنت اور سلف کی تعلیمات

اتباع رسول پر کتاب و سنت اور سلف کی تعلیمات
19 Sep 2015 از عثمان احمد

تحریر: غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری حفظہ اللہ

ہم پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اللہ کا دین ہیں۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے یوں فرمایا:

انّی قد ترکت فیکم ما إن اعتصمتم بہ فلن یضلّوا ا أبدا: کتاب اللّہ و سنّۃ نبیّہ۔

"یقیناً میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑ دی ہیں کہ اگر تم ان کو تھام لو گے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اس کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔"
(المستدرک علی الصحیحین الحاکم:۹۳/۱ ، وسندہ حسنٌ)

اس کا راوی عبداللہ بن اویس بن مالک جمہور کے نزدیک ‘‘حسن الحدیث’’ ہے۔

حافظ نووی رحمہ اللہ اس بارے میں لکھتے ہیں: وثقہ الأکثرون، واحتجّوابہ۔

اکثر محد ثین نے اسے ثقہ کہا ہے اور ان کی روایات سے حجت لی ہے۔"
(شرح صحیح مسلم:۱۹۷/۱، تحت حدیث:۲۰۹٤)

دوسرا راوی اسماعیل بن ابی اویس بھی جمہور کے نزدیک ‘‘ثقہ’’ ہے۔

فرمان باری تعالی ہے:
مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَ
(النساء: ٤/٨٠)

جس شخص نے رسول کی اطاعت کی، اس نے اللہ تعالی کی اطاعت کی۔"

امام سفیان بن عینیہ رحمہ اللہ (م ۱۹۸ھ) فرمایا کرتے تھے:
إنّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم ھو المیزان الأکبر، فعلیہ تعرض الأشیاء علی خلقہ و سیرتہ و ھد یہ، فما وافقھا فھو الحقّ و ما خالفھا فھو الباطل۔

‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑی کسوٹی ہیں، لہذا آپ ہی کے اخلاق، سیرت اور طریقہ پر تمام اشیا پیش کی جاتی ہیں۔ جوان کے موافق ہو، وہ حق اور جو ان کے مخالف ہو، وہ باطل ہیں۔
(الجامع لاخلاق الراوی للخطیب:۸، وسندہ صحیحٌ)

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِيْنَ اِذَا دُعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ اَنْ يَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ
( النور ٢٤/٥١)

جب مومنوں کو اللہ کی اور رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تو ان کا قول یہ ہوتا ہے کہ ہم نے سنا اور پیروی کی۔ یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔"

نیز ارشاد ہے:
فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ۔
(النور٦۳/۲٤)

جولوگ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کے امر کی خلاف ورزی کرتے ہیں، ان کو ڈرنا چاہیے کہ ان کو کوئی عظیم فتنہ یا دردناک عذاب پہنچ جائے گا۔"

حافظ ابن کثیررحمہ اللہ اس آیت کریمہ کے تحت لکھتے ہیں:
وقولہ تعالی:( فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٓ ) ، أی أمر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم، و ھو سبیلہ و منھاجہ و طریقتہ و شریعۃ، فتوزن الاٌقوال و الاٌعمال باٌقوالہ و أعمالہ، فما وافق ذلک قبل و ما خالفہ فھو مردودعلی قائلہ و فاعلہ، کائنا من کان۔

‘‘فرمان باری تعالی:
( فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِه)، (النور:٢٤/٦٣ )

سے مراد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امر ہے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستہ ، منہج، طریقہ اور آپ کی شریعت کا نام ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال کے ساتھ ہی(سب لوگوں کے) اقوال وافعال پرکھے جاتے ہیں۔ جو قول آپﷺ کے اقوال و افعال کے موافق ہو، قبول کیاجائے گا اور جو ان کے خلاف ہو، اسے اس کے قائل و فاعل پر ردّ کر دیاجائے گا، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔’’
(تفسیر ابن کثیر:۵۷۸/۵، بتحقیق عبدالرزاق المھدی)

مزید فرمایا:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰي يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَــرَ بَيْنَھُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِــيْمًا۔(النساء:٤/٦٥)

اے نبی!) تیرے رب کی قسم! وہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتے، جب تک وہ آپ کو اپنے جھگڑوں میں فیصل و حاکم تسلیم نہ کرلیں، پھر وہ آپ کے فیصلے پر اپنے نفسوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور اسے دل سے تسلیم کریں۔"

علامہ ابن حزم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
ھذہ کافیہ لمن عقل و حذروآمن باللہ والیوم الآخر، و أیقن أنّ ھذا العھد عھد ربّہ تعالی الیہ و وصیّتہ عزّوجلّ الواردۃ علیہ، فلیّفتش لإنسان نفسہ، فان وجد فی نفسہ ممّا قضاہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم فی کلّ خبر یصحّحہ ممّا قد بلغہ، آو و جد نفسہ غیر مسلمہ لما جاءہ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم و وجد نفسہ مائلۃ إلی قول فلان وفلان ، أو إلی قیاسہ واستحسانہ، أو وجہ نفسہ تحکّم فیما نازعت فیہ أحدا دون رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم من صاحب فمن دونہ، فلیعلم أنّ اللہ تعالی قد أقسم، و قولہ الحقّ، إنّہ لیس مؤمنا، و صدق اللہ تعالٰی، و إذا لم یکن مؤمنا فھو کافر، ولا سبیل إلی قسم ثالث۔۔۔۔

‘‘یہی آیت اس شخص کے لیے کافی ہے، جو عقل مند اور ہوشیار ہو، نیز اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور یہ یقین رکھتا ہو کہ یہ وعدہ اس کے رب نے اس سے لیا ہے اور یہ وصیت اس کی طرف سے اس پرلاگو ہے۔ انسان کو اپنے نفس کی تشخیص کرنی چاہیے۔ اگر وہ صحیح حدیث میں موجود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے بارے میں اپنے نفس میں تنگی محسوس کرے یا اپنے نفس کو پائے کہ وہ اس چیز کو تسلیم ہی نہیں کرتا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اس تک پہنچی ہے یا اپنے نفس کو فلاں اور فلاں کے قول یا اپنے ذاتی قیاس و استحسان کی طرف مائل ہونے والا پائے یا اپنے نفس کو پائے کہ اختلاف میں فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے کسی صحابی یا بعد والے کی طرف لے کر جاتا ہے تو وہ جان لے کہ اللہ تعالی نے قسم اٹھائی ہے اور اس کا فرمان حق ہے کہ وہ مؤمن نہیں۔ اللہ نے سچ فرمایاہے، جب وہ مؤمن نہیں تو کافر ہی ہے۔ کسی تیسری قسم کی طرف تو کوئی راستہ ہی نہیں ہے۔’’
(الاحکام لابن حزم:۱۱۱/۱)

فرمان باری تعالٰی ہے:
فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِيْ شَيْءٍ فَرُدُّوْهُ اِلَى اللّٰهِ وَالرَّسُوْلِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ ۭ ذٰلِكَ خَيْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِيْلًا۔
(النساء:۵۹)

"پھر اگر تم کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹاؤ، اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو،یہی بہتر اور احسن کام ہے انجام کے اعتبار سے۔"

حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:
و فی ھذہ الآیات أنواع من العبر الدّالّۃ علی ضلال من تحاکم الی غیر لکتاب و السّنّۃ و علیٰ نفاقہ، وإن زعم أنّہ یرید التّوفیق بین الأدلّۃ الشّرعیّۃ و بین ما یسمّیہ ھو عقلیّات ، من لأمور المأخوذۃ عن بعض الطّواغیت من المشرکین و أھل الکتاب و غیر ذلک من أنواع الاعتبار۔

ان آیات میں کئی قسم کی عبرتیں ہیں، جو اس شخص کی گمراہی اور اس کےنفاق پر دلیل ہیں، جس نے کتاب و سنت کے علاوہ سے اپنے مسئلے کو فیصلہ کروایا ہے، اگرچہ وہ دعویٰ کرے کہ و شرعی دلائل اور اپنے تئیں عقلیات کے درمیان تطبیق چاہتا ہے۔ یہ وہ امور اور کئی دوسرے اعتبارات ہیں، جو بعض مشرک طاغوتوں اور اہل کتاب سے لیے گئے ہیں۔"
(درء تعارض العقل والنقل:۵۸/۱)

علامہ ابن ابی العزالحنفی رحمہ اللہ (م ۷۹۲ ھ) لکھتے ہیں:
فالو جب کمال التّسلیم للرّسول صلی اللہ علیہ وسلّم والانقیاد لأمرہ، تلقّی خبرہ بالقبول والتصدیق، دون أن نعارضہ بخیال بالطل نسمّیہ معقولا أونحملہ شبۃ أوشکّا، أونقدم علیہ آراء الرّجل، وذبالۃ أذھانھم، فنوہ بالتّحکیم والتّسلیم والانقیاد و الإذعان، کما نوحّد المرسل بالعبادۃ و الخضوع والذّل و الإنابۃ و التّوکّل، فھما توحیدان لا نجاۃ للعبد من عذاب اللہ الّا بھما، توحید المرسل وتوحید متابعۃ الرسول۔۔۔۔۔۔۔

‘‘چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کمال تسلیم ، آپ کے حکم کے لیے کمال فرمانبرداری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو قبولیت وتصدیق کے ساتھ لینا واجب ہے، بغیر اس کے کہ ہم اس کے مقابلے میں کوئی خیال باطل لائیں، جسے ہم معقول کا نام دیتے ہوں یا ہم اس میں کوئی شبہ یا شک پیدا کریں یا اس پر ، لوگوں کی آراء اور ان کے اذہان کے کوڑے کرکٹ کو مقدم کریں،لہذا ہم فیصلے، تسلیم ،اطاعت اور فرمانبرداری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توحید کے قائل ہیں، جیساکہ ہم عبادت،خشوع و خضوع، عاجزی، انابت اور توکل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجنےوالے(اللہ تعالی) کی توحید کے قائل ہیں۔ یہ دوقسم کی توحید ہے۔اللہ تعالی کے عذاب سے بندےکی نجات اس دو قسم کی توحید کے بغیر ممکن نہیں، یعنی بھیجنے والے اللہ کی توحید اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کی توحید۔’’
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ:ص ۱٦۰)

نیز لکھتے ہیں:
ومن المحال أن لا یحصل الشّفاء والھدی، والعلم و الیقین من کتاب اللہ وکلام رسولہ، ویحصل من کلام ھؤلاء المتحیّرین، بل الواجب أن یجعل ما قالہ اللہ و رسولہ ھوالأصل، ویتدبّر معناہ،ویعقلہ، ویعرف برھانہ، ودلیلہ العقلیّ و الخبریّ السّمعیّ، و یعرف دلالتہ علی ھذاوھذا، ویجعل أقوال النّاس الّتی توافقہ وتخالفہ متشابھۃ مجملۃ، فیقال لأصحابھا: ھذہ الالفاظ تحتمل کذا و کذا، فإن أرادوا بھا ما یوافق خبرالرّسل قبل۔ وإن أرادوابھا ما یخالفہ ردّ۔

یہ ناممکن بات ہے کہ شفا، ہدایت اور علم و یقین اللہ ورسول کے کلام سے حاصل نہ ہو اور ان حیران و پریشان لوگوں کے کلام سے حاصل ہو جائے، بلکہ ضرروی ہے کہ اللہ و رسول کے فرمان کو اصل بنایا جائے، اس کے معنی میں غورو فکر کیا جائے، اسے سمجھا جائے، اس کی عقلی اور خبری وسمعی دلیل وبرہان کو پہچانا جائے، اِس اور اُس کلام پر اس کی دلالت سمجھا جائے اورلوگوں کے وہ اقوال، جو اس کے موافق اور مخالف ہوں، ان کو متشابہ و مجمل قرار دے کر ان کے قائلین سے کہا جائے، یہ الفاظ اس اس بات کا احتمال رکھتے ہیں۔ اگر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے موافق مراد لی ہوتو قبول کر لیا جائے اور اگر ان کی مراد اس کے خلاف ہو تو اسے ردّ کر دیا جائے۔"
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ:ص ۱٦۷)

فرمان باری تعالی ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه وَاِذَا كَانُوْا مَعَه عَلٰٓي اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُوْا حَتّٰى يَسْتَاْذِنُوْهُ۔
(النور: ٦۲/۲٤)

مؤمن تو وہ لوگ ہیں، جو اللہ و رسول پر ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ اس (نبی) کے ساتھ کسی اجتماعی امر میں ہوتے ہیں تو اس وقت تک نہیں جاتے، جب تک اس سے اجازت نہ لے لیں۔"

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اس آیت کو ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
فإذا جعل من لوازم الإیمان لا یذھبون مذھبا إذا کانو معہ، إلّا باستئذانہ ، فأوّل أن یکون من لوازمہ أن لا یذھیوا إلی قول ولا مذھب علمیّ إلّا بعد استئذانہ، و إذنہ یعرف بدلالۃ ما جاء بہ علی أنّہ أذن فیہ۔

‘‘ جب یہ بات ایمان کے لوازمات میں سے کر دی گئی ہے کہ وہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوں تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کسی طرف نہیں جا سکتے۔ سب لوازم میں سے پہلا تو یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کےبغیر کسی قول اور علمی راستے کی طرف نہ جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین سے معلوم ہو گا کہ آپﷺ نے اس بارے میں اجازت دی ہے۔’’
(اعلام الموقعین عن رب العالیمن:۵۲-۵۱/۱)

فرمان باری تعالی:
ثُمَّ جَعَلْنٰكَ عَلٰي شَرِيْعَةٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَ الَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ
(الجاثیۃ: ٤٥/١٨)

‘‘پھر ہم نے آپ کو دین کے کھلے راستے پر قائم کر دیا، آپ اس کی پیروی کریں اور جاہل لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔’’

امام اوزاعی رحمہ اللہ (م ۱۵۷ھ) نے مخلدبن حسین سے کہا:
یا أبا محمّد إذا بلغک عن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم حدیث فلا تظنن غیرہ، ولا تقولن غیرہ، فإنّ محمّد إنّما کان مبلغا عن ربہ۔

‘‘اے ابومحمد! جب تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی حدیث پہنچ جائے تو کسی دوسری بات کا نہ سوچ، نہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کہہ۔ کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے رب کی طرف سے وحی پہنچائے جاتے تھے۔
(الفقیہ و المتفقہ للخطیب: ۱۴۹/۱، وسندہ حسنٌ)

عروہ بن زبیر رحمہ اللہ نے سیدنا ابن عباس رحمہ اللہ سے کہا:
أضللت النّاس! قال: وما ذاک یا عریۃ؟ قال: تأمر بالعمرۃ فی ھؤلاء العشر، ولیست فیھنّ عمرۃ، فقال: أولاتسال أمّک عن ذلک؟ فقال عروۃ: فإنّ أبا بکر و عمر لم یفعلا ذلک، فقال ابن عبّاس: ھذا الذی أھلککم۔ واللہ۔ ما أری الّاسیعذّبکم، انی أحدّثکم عن النّبی صلّی اللہ علیہ و سلّم و تجیئونی بأبی بکر و عمر، فقال:عروۃ:ھماواللہ! کانا أعلم بسننّۃ رسول اللہ علیہ وسلم، و أتبع لھا منک۔

‘‘آپ نے لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنھ نے فرمایا، اے عروہ ! کیا بات ہے؟ کہا، آپ ان دس دنوں (عشرہ ذی الحجۃ) میں عمرہ کا حکم دیتے ہیں، حالانکہ ان میں عمرہ نہیں ہوتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا آپ اپنی والدہ سے اس بارے میں سوال نہیں کر لیتے؟ عروہ نے کہا، سیدنا ابو بکر و عمر رضی اللہ عنھما نے یہ کام نہیں کیا، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا نے فرمایا، اللہ کی قسم! اسی چیز نے تمہیں ہلاک کر دیا ہے، میرے خیال میں اللہ تم پر عذاب نازل کرے گا۔ میں تمہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور تم ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما (کی بات) کو میرے پاس لاتے ہو؟ عروہ نے کہا، اللہ کی قسم! وہ دونوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو زیادہ جاننے والے تھے اور اس کی پیروی آپ سے زیادہ کرنے والے تھے۔"
(الفقیہ والمتفقہ للخطیب البغدادی:۱٤۵/۱، وسندہ صحیحٌ)

امام خطیب بغدادی رحمہ اللہ اس قول کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
قد کان أبو بکروعمرعلی ما وصفھما بہ عروۃ إلا أنّہ لا ینبغی أن یقلّد أحد فی ترک ما ثبتت بہ سنّۃ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم۔

"سیدنا ابوبکرو سیدنا عمر رضی اللہ عنھما اسی طرح تھے، جیسا کہ عروہ نے بیان کیا ہے، مگر کسی کے لیے جائز نہیں کہ کوئی اس چیز کو چھوڑنے میں ان کی بھی تقلید کرے، جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے۔"

نوٹ:
یہ ثابت نہیں کہ سیدنا ابوبکراورسیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنھما نے ان دس دنوں میں عمرہ سے روکا ہو۔ ایک غیرواجب کام کا نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ اس آدمی کے نزدیک جائز نہیں، اگر شیخین ان دونوں میں عمرہ کو ناجائز بھی سمجھتے ہوں تو اسے مخالفت نہ کہیں گے، بلکہ اسے عدم علم پر محمول کریں گے، کیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین حدیث پہنچ جانے کے بعد قطعا مخالفت نہیں کرتے تھے۔

امام عمر بن عبد الغزیزرحمہ اللہ نے لوگوں کی طرف خط لکھا:
لا رأی لاٌحد مع سنّۃ سنّھا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم۔

‘‘اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کی موجودگی میں کسی کی رائے متعبر نہیں۔"
(التاریخ الکبیر لابن خیثمۃ:۹۳۳۵، وسندہ صحیحٌ)

امام مالک بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کلّما جاء نا رجل أجدل من رجل أرادنا أن نردّما جاء بہ جبریل إلی النّبی صلّی اللہ علیہ و سلّم۔

‘‘جب بھی ہمارے پاس کوئی جھگڑالو شخص آتا ہے، وہ ہم سے اس چیزکو ردّ کرنے کا مطالبہ کرتاہے، جس کو جبریل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلّم کی طرف لے کر آئے تھے۔’’

(شرف اصحاب الحدیث للخطیب: ۱، وسندہ صحیحٌ)

امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کلّ شیء خالف أمر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم سقط، ولا یقوم معہ رأی ولا قیاس، فإن اللہ تعالیٰ قطع لعذر بقول رسول اللہ صلّی علیہ و سلم، فلیس لأحد معہ أمرھوبہ۔

‘‘ہر وہ چیز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی مخالفت کرتی ہے، وہ ساقط ہے، اس(حدیث رسول) کے مقابلےمیں کوئی رائے اور قیاس نہیں ٹھہر سکتا، کیونکہ اللہ تعالی نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کے ساتھ عذر کو ختم کر دیا ہے، لہذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امرو نہی کے ساتھ کسی کے لیے کوئی امر، کوئی نہی قبول نہیں۔’’
(کتاب الام للشافعی: ۱۹۳/۲)

شیخ ا سلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
و من المعلوم أنّک لا تجد أحدا ممّن یردّ نصوص الکتاب و السّنّۃ بقولہ إلّا و ھو یبغض ما خالف قولہ و یودّ أنّ تلک الآیۃ لم تکن نزکت و أنّ ذلک الحدیث لم یرد، لو أمکنہ کشط ذلک من المصحف لفعلہ۔

‘‘یہ پکی بات ہے کہ آپ کسی ایسے شخص کو نہیں پائیں گے، جو اپنے قول کے ساتھ کتاب و سنت کی نصوص کو رد کرتاہے، مگر وہ اپنے قول کے خلاف آنے والی بات کو ناپسند کرتاہے اور چاہتا ہے کہ یہ آیت نازل نہ ہوتی اور یہ حدیث وارد نہ ہوئی ہوتی۔ اگر اس کے بس میں ہوتو وہ اس آیت کو مصحف سے کھرچ ڈالتا۔"
(درءتعارض العقل و النقل:۲۱۷/۵)

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
فمن عرض أقوال العلماء علی النّصوص ووزنھا بھا و خالف منھا ما ماخالف النّص، لم یھد ر أقوالھم و لم یھضم جانبھم، بل اقتدی بھم، فإنّھم کلّھم أمروا بذ لک، فمتّبھم حقاّ من امتثل ما أوصوا بہ، لا من خالفھم و خلافھم فی القول الّذی جاء النّص بخلافہ أسھل من مخالفتھم فی القاعدۃ الکلّیۃ الّتی أمروا و دعوا الیھامن تقدیم النّص علی أقوالھم و من ھھنا یتبیّن الفرق بین تقلید العالم فی کلّ ما قال و بین الاستعانۃ بفھمھ و الاستضاءۃ نبورعلمہ، فالأوّل یأخذ قولہ من غیر نظر فیہ و لا طلب لدلیلہ من الکتاب س السّنّۃ، بل یجعل ذلک کالحبل الّذی یلقیہ فی عنقۃ یقلّدہ بہ، ولذلک سمّی تقلیدا بخلاف ما استعان بفھمہ و استضاء بنور علمہ فی الوصول إلی الرّسول صلوات اللہ و سلامہ علیہ۔

‘‘تجس نے علمائے کرام کے اقوال کو نصوص پر پیش کیا اور نصوص کے ساتھ ان کا وزن کیا، جن کی نصوص نے مخالفت کی، ان کی اس نے بھی مخالفت کی تو اس شخص نے ان اقوال کو رائیگاں قرار نہیں دیا اور نہ ہی ان کی شان میں کوئی کمی کی ہے، بلکہ اس نے تو ان علمائے کرام کی پیروی کی ہے، کیونکہ ان سب نے یہی حکم دیا تھا، لہذا ان کا حقیقی پیروکار وہ ہے، جو ان کی وصیت کی تعمیل کرتاہے، نہ کہ وہ جو ان کی مخالفت کرے۔ ان علمائے کرام کی اس قول میں مخالفت کرنا، جو نصوص کے خلاف آیا ہو، اس سے بہتر ہےکہ نص کو ان کے اقوال پر مقدم کرنے والے قاعدہ کلیہ میں ان کی مخالفت کی جائے، جس کا انہوں نے حکم دیا ہے اور دعوت دی ہے، اسی بات سے کسی عالم کے ہر قول میں اس کی تقلید کرنے اور اس کے فہم سے مدد اور اس کے علم سے روشنی حاصل کرنے کے درمیان فرق ہوجاتاہے۔ پہلی قسم کا شخص عالم کی بات کو بغیر تحقیق اور کتاب و سنت سے دلیل طلب کیے لے لیتاہے، بلکہ اسے رسی کی طرح اپنے گلے میں ڈال لیتاہے اور اس کا پٹہ بنا لیتاہے، اسی لیے اس کا نام تقلید رکھا گیا ہے، برخلاف اس شخص کے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے کے لیے عالم کے لیے فہم سے مدد اور اس کے علم سے نور حاصل کرتاہے۔
(الروح الابن القیم:۲٦٤)

زیادہ سے زیادہ شئیر کیجیے اور دعوت دین میں ہمارا ساتھ دیں
manhaj-as-salaf
About the Author: manhaj-as-salaf Read More Articles by manhaj-as-salaf: 291 Articles with 412625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.