سکول یا دکانیں؟

تعلیم تجارت اور منافع بخش صنعت بن رہی ہے۔اس وقت ملک میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلباء کے والدین کے احتجاج پر بحث جاری ہے۔نجی تعلیمی اداورں کی شاپنگ مالز اور ان کی من مانیوں پر گفتگو، مسائل کے حل پر بات جائز۔ تاہم تعلیم کے بارے میں بعض دیگر اہم نوعیت کے ایشوز اس بحث میں شامل نہیں۔ گزشتہ کئی برسوں سے حکومتیں اعلان کر رہی ہیں کہ وہ ملک میں یکساں نصاب تعلیم رائج کر یں گی۔ وفاقی حکومت کی طرف سے اس اعلان کو حسب سابق دوہرایا گیا ۔کوئٹہ میں بین الصوبائی وزرائے تعلیم کانفرنس کے اختتام پر وزیر مملکت تعلیم و پروفیشنل ٹریننگ محمد بلیغ الرحمان نے اعلان کیا تھاکہ وفاق چاروں صوبوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی مشاورت سے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں یکساں تعلیمی نصاب متعارف کرے گی۔ اس سلسلے میں تمام مذہبی مکتبہ فکر کے سکالرز اور تعلیمی ماہرین کی منظوری حاصل کی جائے گی۔ یہ حکومتی دعوے اور وعدے ابھی تک وفا نہیں ہو سکے ہیں۔

حکومت اگر عزم کر لے اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلے تو وہ ہر شعبہ میں بہتری لا سکتی ہے۔ تا ہم تعلیم بنیادی عنصر ہے۔ اس کے لئے من پسند نصاب اور من مانی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ اس کے لئے کوئی سٹنڈرڈ نہیں ۔ جو کسی کا دل کرے ، وہی کرتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بعض پبلشرز کی ملی بھگت سے ہی قوم کے مستقبل کے ساتھ کھلواڑ ہو رہا ہے۔ یہ پبلی کیشن ہاؤسز متعلقہ لوگوں کو کمیشن دیتے ہیں۔ یہ ایسی کرپشن ہے جس سے قوم کے معماروں کے ذہن بکھیر دیئے جاتے ہیں۔ ان کو مختلف راستوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ ملک کے مستقبل کے ساتھ دشمنی کی انتہا ہوتی ہے کہ چند افسران یا سیاستدان مل کر چند سکوں کے لئے اپنے ضمیر فروخت کر دیتے ہیں۔ اس وقت شہروں اور قصبوں کا کیا کہنا، دوردراز دیہات میں بھی گلی محلوں میں بے شمار سکول کھل چکے ہیں۔ نئے سکول ایسے کھل رہے ہیں کہ جیسے یہ کھانے پینے کی دکانیں ہوں۔ ان سکولوں کے مالکان بھی والدین اور طلباء کو کسٹمرز سمجھتے ہیں۔ ان سکولوں میں کوئی معیار یا اعتباریت نہیں ہوتی۔ جبکہ کسی سکول کے لئے اس کے محل و وقوع کا مناسب اور تعلیم دوست ہونا اولین شرط ہوتی ہے۔ ان سکولوں میں کھیلنے کا چھوٹا سا میدان، لیبارٹری، لائبریری،ٹوائلٹ واش روم تک نہیں ہوتا ہے۔ ان سکولوں کے اساتذہ کو چند ہزار کی معمولی تنخواہ دی جاتی ہے۔ جن کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان کی بھاری فیسیں اور حیران کن مدعات کے چندے اور ڈونیشن الگ سے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے اکثر سکولوں کا یہ بھی کرتب ہوتا ہے کہ یہ فلاحی منصوبوں کے نام پر میدان میں آتے ہیں۔ یہ باور کراتے ہیں کہ ان کی ترجیحات سماج کے نادار، متاثرہ طبقات، یتیم، مسکین بچے ہیں۔ لیکن ان کے نام کو استعمال کرنے کے بعد جب ان کی تعداد بڑھ جاتی ہے تو یہ پروفیشنل ہو جاتے ہیں۔ ان کی نظریں بھاری فیسوں پر جم جاتی ہیں۔ یہ والدین کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔

سب سے پہلے داخلوں کا مرحلہ آتا ہے۔ من پسند یونیفارم کا تقاضا ہوتا ہے۔ یونیفارم بھی مخصوص سٹورز سے خریدنے کی تاکید کی جاتی ہے۔ جو کہ موقع کا فائدہ اٹھا کر والدین کو لوٹتے ہیں۔ جب کہ ان کا معیار بھی ناقص ہوتا ہے۔ اس کے بعد نصابی کتب اور سٹیشنری خریدنے کا مرحلہ آتا ہے۔ کتابوں اور سٹیشنری کے لئے بھی یہ سکول مخصوص کتب خانوں اور سٹیشنرز کے ساتھ ساز باز کر لیتے ہیں۔ جو کہ والدین کو کوئی ڈسکاؤنٹ دینا گوارا نہیں کرتے۔ بلکہ مارکیٹ سے زیادہ دام وصول کرتے ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ یہ سکول اپنے نام کی تشہیر کے لئے مخصوس سٹیشنری پرنٹ کراتے ہیں۔ اگرایک کاپی کی مارکیٹ میں قیمت 20روپے ہے تو یہ اپنے طلباء کو وہی کاپی کئی گنا اضافی رقم میں خریدنے کے لئے مجبور کرتے ہیں۔جب تعلیمی ادارے طلباء کے نتائج ترتیب دیتے ہیں تو دلچسپ بات سامنے آتی ہے کہ یہ سب کو سو فیصد مارکس دے کر طلباء اور والدین کا جذباتی مذاق اڑاتے ہیں۔ اس پر روک لگانے کا کوئی بندوبست نہیں ہو سکا ہے۔

پرائیویٹ تعلیمی ادارے ایک معصوم ننھے بچے پر تقریباً ایک من تک بھی وزنی کتابوں کا بوجھ لادھ دیتے ہیں۔ یہ معصوم سکول بستوں کے نیچے دب کر رہ جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی جسمانی ساخت متاثر ہوتی ہے۔ ان کے قد بونے ہو جاتے ہیں۔ جبکہ چھوٹے بچوں پر کتابیں لادنے سے بہتر تعلیم کا تاثر دیا جاتا ہے۔ بچوں کو ذہنی طور پر کتابوں میں الجھا کر رکھا جاتا ہے۔ اس لئے نصاب کو یکساں اور از سر نو مرتب کرنا بھی انتہائی ضروری بن گیا ہے۔

سرکاری سکولوں کے اساتذہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ سکول میں داخل کرتے ہیں۔ اگر سرکاری استاد اور علاقے کے سرکاری ملازمین یا افسران کا بچہ بھی اسی علاقے کے سکول میں داخل ہو۔ حکومت اسے پابند بنائے ۔ تو ان سکولوں کا حیران کن طور پر معیار بہتر ہو سکتا ہے۔ باقی رہا نصاب تو اس میں کھلی من مانی ہوتی ہے۔ بچوں کو ایک راستے پر ڈالنے اور ان کی ذہنی ہم آہنگی کے بجائے انہیں منتشر کر دیا جاتا ہے۔ ایک محلے میں جتنے سکول ہیں ان کا نصاب بھی اسی طرح یکسر مختلف ہے۔ اس طرح نئی نسل میں ذہنی دوریاں فروغ پاتی ہیں۔ یہ کھیل عرصہ دراز سے جاری ہے۔

اس تعلیمی نظام کے ناقص ہونے کا متعلقہ لوگ بالکل احساس نہیں کرتے۔ بلکہ ان میں پیسہ کمانے اور عوام کے بے وقوف بنانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ان پر کوئی نگران، چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ مالکان کمائی کرتے ہیں۔ لیکن اس میں سے 10فی صد بھی اپنے سٹاف یا طلباء کی سرگرمیوں پر خرچ نہیں کرتے۔ اس طرح یہ منافع بخش صنعت بن چکی ہے۔ جس میں بعض سکول مالکان، پبلشرز اور کتب خانوں ،سسٹیشنرز کے درمیان ساز باز جھلکتا ہے۔ یہ سکول کم اور کاروباری یونٹس زیادہ بن چکے ہیں۔ تعلیم کے نام پر دکانداری کی اجازت کس نے دی ہے۔ یہ کوئی نہیں بتاتا۔ نہ ہی کوئی اس غلطی کا اعتراف کرنے کو تیار ہے۔

وفاق اگر ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج کرنے اور جدید تقاضوں کے مطابق تعلیمی اصلاحات کی ضرورت محسوس کرتا ہے تو اسے فوری طور پر اس جانب ضروری اور بنیادی اقدام کرنا چاہیئں۔صوبے اپنے طور پر بھی اقدام کر سکتے ہیں۔ یہ کثیرالجہتی ایشو ہے۔ ایک طرٖف سکولوں کے لئے ضابطہ اخلاق بنانے ہوں گے اور دوسری طرف پبلشرز کا قبلہ درست کرنا ہو گا۔ اس کاروباری گٹھ جوڑ کو توڑے بغیر حکومتی اقدام محض دکھاوا ثابت ہوں گے۔ جن کے پس پردہ یہ کاروباری مافیا متعلقہ افسران کو شیشے میں اتار کر قوم کے مستقبل سے کھلواڑ کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ والدین بیدار ہو رہے ہیں۔ ان کے احتجاج کو سیاسی رنگت دینا یا این جی اوز کی کارستانی قراردینااصلاح کے بجائے من مانیاں جاری رکھنے کا ایک حربہ ہے۔
 
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 487624 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More