کیا کیا قیامتیں ہیں

ان کا طریقہ بھی عجیب تھا۔ کوئی وعظ ونصیحت نہیں کوئی فوں فاں نہیں کوئی بقراطی نہیں........دبدبہ نہ طنطنہ سرٹیفکیٹ نہ کوئی ڈگری نہ ہی کبھی کہا:آؤ یہ دیکھو صفحہ نمبر فلاں پریہ لکھا ہے،دیکھو غور سے کچھ بھی تو نہیں۔ ان کے پاس عاجزی تھی،انکساری تھی،نفی تھی۔ بہت چھوٹے چھوٹے جملوں میں بندکتابیں تھیں، محبت بھری شفیق باتیں۔ اپنا پن لیے ہوئے سراپا محبت وایثارووفا۔ کبھی خفا نہیں ہوئے لاکھوں غلطیاں کیں گستاخیاں کیں بدتمیزی توکسی گنتی میں نہیں آتی۔ سب کچھ کیا لیکن ان رب کی نشانیوں نے کبھی نہیں دھتکارا۔ جتنی زیادہ سرکشی کی ان سے اتنا زیادہ پیار ملا۔ کس مٹی کے بنے ہوئے تھے اورہیں۔ کہتے تھے: اچھا بچہ لاکھ کا اور بد سوا لاکھ کا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو پوچھا تھا:یہ کیاکہتے ہیں آپ؟ مسکرائے اورکہا:جو بچہ خودہی اچھا ہواس کی کیافکرکرنی!جوبدہے اسے دینا ہے ناپیار،اس کارکھنا ہے خیال،کہیں دلدل میں نہ دھنس جائے،کسی گڑھے میں نہ گرجائے، اندھیرے میں گم نہ ہوجائے راہ کھوٹی نہ کربیٹھے،خودکوبربادنہ کر بیٹھے. ......بہت خیال رکھناہے اس کا۔

عجیب سی باتیں کرنے والے لوگ جنہیں لوگ پاگل سمجھتے ہیں ،چریا کہتے ہیں۔ بات کو پالینے والے پاگل، محبت میں بسے ہوئے چریا۔ جب موت آئے گی تومرجاؤگے،کوئی سفارش نہیں چلے گی،کوئی کام نہیں آئے گا،نہ کوئی رشوت نہ کوئی دھمکی۔ اگرمرنے کامزاپاناہےتوابھی کیوں نہیں مرجاتے مرکر دیکھو کیساسکون ہے کیسی راحت کیسی حلاوت۔ ہرکوئی جنت کا طلبگارلیکن اس نعمت کے حصول کیلئے مرنا ضروری ہے۔پھرسمجھ میں نہیں آیاتوپوچھا کیسے ؟کہہ دیایہ توتم خودجانو،کہہ کر خاموش ہوگئے پھرایک دن میں نے انہیں جالیا توکہنے لگے خودکومردہ سمجھنا شروع کردو،پھر طریقہ بھی سمجھایا ،بہت مزاآیا۔ہاں اس میں حلاوت شیرینی اورسکون کمال درجے کاہے۔۔۔۔۔۔

مردے کبھی کسی کو ایذانہیں پہنچاتے،آزار نہیں دیتے، غیبت نہیں کرتے چغلی نہیں کھاتے،سازشیں نہیں کرتے۔ نظر تو زندہ آؤ اورسب کےکام آؤ،سمجھو خودکومردہ۔ کوئی طلب نہیں،کسی صلہ وستائش کی پروانہیں،کسی کی گالی طعنہ کچھ بھی نہیں۔ بس دیتے جاؤ،دیتے جاؤ۔ پاتے جاؤگے۔ رب کی مخلوق تو طرح طرح کی ہے ناں۔ رنگارنگ ہے سب ایک جیسے ہیں نہ ہوسکتے ہیں ۔ ہمیں مخلوق میں رہتے ہوئے ان کی خدمت کرتے ہوئے رب کوپانا ہے،کوئی کچھ کہے گا،کوئی کچھ سمجھے گاتو سمجھنے دو ،پروا نہ کرو۔ کوئی الزام کوئی طعنہ تمہاری راہ کھوٹی نہ کرے اورکوئی تعریف تمہیں غبارے کی طرح پھلا نہ سکے تو بس رب کودیکھو رب کے بندوں کودیکھو۔ کوئی بھوکا ہے تو اسے نصیحت نہ کرواسے کھانا کھلاؤ، پیاسے کو پانی پلاؤ،دوروٹھے ہوؤں میں پل بن جاؤاورخودقلی بن کردوسروں کابوجھ اٹھاؤ، اپنے لیے نہیں بندوں کیلئے طلب کرو، اپنے لیے ہی نہیں۔

بندوں کے لیے تھکو اور دیکھو تھکتا وہ ہے جوکسی چیز کاطلب گارہو۔ تجارت و کاروبارِزندگی تھکادیتے ہیں اوردیکھو محبت میں انسان کبھی نہیں تھکتاکبھی بھی نہیں۔ ہردم ہرلمحہ تیاررہتاہے، میں انسان کبھی نہیں تھکتا کبھی بھی نہیں۔ ہر دم ہرلمحہ تیار رہتا ہے، محبت اسے تھکنے ہی نہیں دیتی۔ محبت کا تعلق کبھی پرانا نہیں ہوتا کبھی نہیں مرجھاتا۔ ہر دم تازہ دم رہتا ہے، محبت کا بوٹا سدا بہار ہے اسے خزاں نہیں گھیر سکتی۔ بے لوث بے غرض محبت نخلستان ہے ٹھنڈامیٹھابہتادھارا پرسکون ندی اورگہری جھیل۔ محبت بن جاوؤسراپا محبت ودعا۔ مخلوق کے لیے ہاتھ پھیلاؤان کاسائبان بن جاؤ۔ کسی کودو میٹھے بولوں کی ضرورت ہے توضروربولو۔ کوئی اداس ہے تواسے لطیفہ سناؤ، امید بندھواؤ۔ ہنس کربات کرو اوراسے ہنساؤ۔ اپنازخم چھپاؤدوسرے کے زخم پرمرہم رکھو۔ مردہ بن جاؤ جوکوئی شے طلب نہیں کرتا۔ کوئی آ گیا پھول رکھ کرچلاگیا،اگربتی جلاکرخوشبوپھیلاگیا بن مانگے ہی۔ تورب بنائے گا بگڑی،پار لگائے گانیا۔ اس اندھیری رات میں سے روشن کرے گاسحر۔

وہ تومردے میں سے زندہ وجود نکال لیتاہے اورزندوں کوخاک میں ملا دیتاہے، لوگوں کے عیوب پرپردہ ڈالو،تمہارا پردہ اللہ رکھے گا۔ محتاجوں کوبے آسرا مخلوق کوسینے سے لگاؤ ان کیلئے جیواپنے لئےمرجاؤ۔ نعمتیں ملیں توشکر،نہ ملیں توصبراورصبرسے بڑھ کردولت کیاہوگی !جب وہ کائنات کاخالق و مالک صبرکرنے والوں کے سنگ ہے توپھرکیسی اداسی کیسی مایوسی!ہاں اپنی''انا'' چاہے عام ہویاخاص،اس کوختم کرناہوگا۔

بیشتر وقت لوگ سوالات کرتے رہے اوروہ جواب دیتے رہے،نشست ختم ہورہی تھی کہ آخرمیں انھوں نے لوگوں سے یہ سوال پوچھ لیا۔اللہ کی راہ میں سب سے مشکل کام کیاہے؟جوابات آئے اوربیشترلوگوں کی رائے تھی کہ اپنی جان دے دینا اس راہ کاسب سے مشکل اوربڑا کام ہے ۔وہ خاموش رہے اوراس رائے پرلوگوں کااجماع ہوتے دیکھتے رہے ۔ جب سب بول چکے توانہوں نے اپنے سوال کاخودہی جواب دیناشروع کیا۔

بے شک جان دینابہت بڑی بات ہے ۔ اللہ کیلئے جان دینے کے توکیا ہی کہنے اوراس کا کیا ہی بڑا اجر ہے ۔ مگرغور کیجیے کہ انسانی تاریخ میں جوہزاروں جنگیں ہوئیں ہیں،ان میں کروڑوں لوگوں نے پورے شعور سے اپنے ملک ،قوم،بادشاہ اورمتعدد دیگربڑے مقاصد کی خاطر جان دی ہے اورآج بھی دیتے ہیں ۔
اتنا کہہ کرخاموش ہوگئے ۔ لوگوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ ان کی رائے لوگوں سے مختلف ہے۔ وہ اب اس رائے کوجاننے کے منتظرتھے۔ وہ ہم سب کاانتظار ختم کرتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انسان دوچیزوں سے مرکب ہے ۔ایک اندرونی شخصیت اوردوسراظاہری جسم۔ جان دیناظاہری جسم کی قربانی ہے ۔ بے شک یہ بڑی بات ہے،مگر جان دینے پرابھارنے کیلئےایک قادرالکلام مقرر کی زوردار تقریر،جذبات میں ہلچل پیدا کر دینے والی فیصلہ کن گھڑی اورمحبت ونفرت کے جذبے کی شدت کا کوئی لمحہ کافی ہوتاہے مگراپنی اندرونی شخصیت کوقربان کرنا جسے عام الفاظ میں انا کو قربان کرناکہتے ہیں، اس دنیاکامشکل ترین کام ہے۔ انسان کسی بناپرکسی خاص لمحے میں یہ کربھی لے تواگلے لمحے میں انا زندہ ہوجاتی ہے ۔ کسی جذبے کی وجہ سے کسی خاص شخص کے سامنے یہ کربھی کر لے تودوسرے شخص کے سامنے اناتن کرکھڑی ہوجاتی ہے ۔ بارہا ایساہوتاہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے اناکوختم کر دیاہےمگروہ پوری طرح موجودہوتی ہے ۔

تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ انا ختم ہوئی یانہیں ۔

بتاتا ہوں مگر پہلے یہ سمجھ لیں کہ انادوقسم کی ہوتی ہے ۔ ایک عام اوردوسری خاص،عام انا اپنااظہار بہت کھل کرکرتی ہے اس لیے اس کوجاننابڑاآسان ہے ۔ یہ وہی چیزہے جسے تکبرکہتے ہیں یعنی خودکوکسی بھی پہلوسے بڑا سمجھنا اوردوسروں کوچھوٹاسمجھنا۔کوئی بھی اس کی نشاندہی کرسکتا ہے اورہم مخلص ہوں توفوراًاپنی اصلاح کر سکتے ہیں چنانچہ جب ہم خودکوبڑا اور دوسروں کوچھوٹاسمجھنا چھوڑدیتے ہیں تواس عام انا سے نجات پا لیتے ہیں۔ جبکہ خاص اناکولوگ سات پردوں میں چھپا کررکھتے ہیں۔خود کوحقیرو فقیر کہنے والوں کی انا بھی آسمان تک بلندہوتی ہے اوران کوخبربھی نہیں ہوپاتی۔

اس انا کوکیسے پہچاناجائے؟ایک اورشخص نے سوال کیا۔

اس کی پہچان آسان نہیں مگراس کی کچھ موٹی موٹی نشانیاں بتادیتاہوں ۔ پہلی یہ کہ آپ کسی اورانسان کی خوبیوں کے اعتراف کی عادت نہ رکھتے ہوں۔ دوسری یہ کہ جب آپ پرتنقید کی جائے تو آپ ناقد کی بات سمجھنے سے پہلے ہی اس کی بات کا جواب سوچنے لگیں اور تیسری یہ کہ جب کوئی شخص آپ کی غلطی واضح کرنے کی کوشش کرے توآپ کوشش کر کے کسی نہ کسی طرح اس میں بھی فورا کوئی خرابی اورخامی تلاش کرنا شروع کردیں ۔ ان میں سے ہررویہ یہ بتاتا ہے کہ آپ انا کے مریض ہیں لیکن چونکہ تکبرایک سماجی برائی سمجھاجاتاہے اس لیے آپ اسے چھپا کررکھتے ہیں ۔ لیکن جس نے اپنے مرض کوسمجھ لیاوہ یقیناًاس سے نجات پالے گا!

بہت مزے کی بات کہتے تھے:کم کو زیادہ جانواورمیں آج تک اس پرعمل نہیں کرسکا۔ بولتارہتا ہوں، بولتارہتا ہوں۔ چلئے آج اتنا ہی....... زندگی بخیر رہی توملتے رہیں گے دنیا کے کام تو چلتے رہیں گے آپ سب سداخوش رہیں۔ آباد رہیں ۔ دل شاد رہیں۔ کچھ بھی تونہیں رہے گابس نام رہے گا اللہ کا۔
بکھرائے تیرے رنگ ہواؤں نے ہر طرف
کوئی نہیں ہے ترے سواخشک و تر میں بھی
سیراب ہوگئے ہیں تری اک نظر سے ہم
کیا کیا قیامتیں ہیں تری اک نظر میں بھی
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 351515 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.