" پرانی محبت کے ٹوٹتے دھاگے"

یوں تو خالق کائنات کی پیدا کردہ ہر شے اپنے رنگ اور کمال میں بے مثال ہے لیکن محبت وہ عظیم تخلیق ہے جو تمام تخلیقات کا موجب ہے۔ یہ وہ مضبوط دیوار ہے جسکی اساس عقیدت، مروت، عبادت اور خلوص ہے۔ یہ وہ نازک پودا ہے جسے بونے کے بعد محبوب طفل سادہ کی مانند راتوں میں اٹھ اٹھ کر شرح افزائش دیکھتا رہتا ہے۔ یہ خود غرضی کا وہ سنگین احساس ہے جو محبوب کی خوشنودی میں دنیا کی ہر شے سے باغی کر دیتا ہے۔ یہ وہ بے اعتبار جذبہ ہے جو خواہ حقیقی ہو یا مجازی،اپنی گواہی کسی قربانی کی شکل میں مانگتا ہے۔ وہی قربانی جو آدم نے جنت کی دی، ہابیل نے اپنی زندگی کی دی، سبا کی ملکہ نے اپنی بادشاہت کی دی، داوود نے اپنی عزت کی دی، زلیخہ نے اپنی جوانی کی دی، یوسف نے اپنے رشتوں کی دی، یعقوب نے اپنی بینائ کی دی، آل نبی نے اپنے اہل وعیال کی دی اور ہاں وہی قربانی جو نوے سالہ بوڑہے ابراہیم اپنے معصوم اسماعیل کی دی اور یہ وہ قربانی تھی جس نے رضائے الہی کو ایسا جوش دلایا کہ اسکے بعد ہر عاشق پر اسکی ادائیگی واجب ہو گٰئی۔

قربانی محض ایک لفظ نہیں بلکہ ایک فلسفہ اور علم ہے۔ یہ لازوال محبت کی قیمتی نشانی بھی ہے اور مقرب ترین عبادت کا واضح ثبوت بھی۔ یہ بے پناہ عقیدت کا روح پرور نظارہ بھی ہے اور عظیم روایت کی پاسداری کا دعوت نامہ بھی،یہ ایک مقدم رکن بھی ہے اور بابرکت سعادت بھی، نیز یہ خاص نعمت بھی ہے اور عام رحمت بھی۔ کوئی عاشق جب اپنی محبت، بندگی، عقیدت اور رکنیت کی انتہا کو چھوتا ہے تو قربانی عمل میں آتی ہے۔ یوں تو قربانی زمانہ آدم سے عبادت اور عقیدت کی صورت عمل میں آتی رہی ہے لیکن جب دست ابراہیمی نے حلق اسماعیل کو چیرنا چاہا تو اس لمحے قربانی کی ایک نئ تاریخ رقم ہو گئی جو صدیاں گزرنے کے بعد بھی ہر سال اسی جذبے سے دہرائی جاتی ہے۔ دنیا بھر سے عاشقان اسلام حب الہی میں مگن صدق خلیل کو سلامی دیتے ہیں۔ وفا کے رستے پر گامزن ناچتے پھدکتے رنگ برنگے جانوروں کی لمبی قطاریں محنت،محبت، مسرت اور بندگی کے تصور کو اس انداز میں بیاں کرتی ہیں کہ فضائیں احساس کی خوشبو سے مہک اٹھتی ہیں۔ گویا قربانی عشق کی معراج ہے اور اسے نا ماننے والا منکر عشق۔

ہمارا معاشرہ دوقسم کے منکرین عشق میں بٹ چکا ہے۔ ایک وہ جو سرے سے قربانی دیتے نہیں اور دوسرے وہ جنکی قربانی ہوتی نہیں۔ پہلے فرقے والے لوگ تو اس بحث سے ہی خارج ہیں کہ وہ تو اپنے دلوں اور مالوں پر بخل کی مہریں لگائے سر کشی کی انتہا پر کھڑے ہیں دوسرے وہ بدبخت جنکی نظر میں قربانی سے مراد صرف جانور ذبح کرنا ہے، جو قربانی کی روح سے ناآشناہیں جو اگر محبوب کی نذر اپنی محبتیں اور مال کرتے ہیں وہ یاتو دھوکہ ہوتا ہے یا ریا کاری، جو عتاب بن کر انکا نور بصیرت چھین لیتا ہے۔

اسلام کی بنیادی خوبی جدت پسندی ہے کیونکہ باری تعالی کے مطابق یہ دین کامل اور تمام زمانوں کیلیے ہے۔ دور حاضر کے تقاضوں کو سمجھنے کیلیے انسان کے پاس واحد سہارا عقل ہے وہی عقل جس نے فرشتوں کے سر سجدوں میں گرا دیے۔قرآن پاک میں باری تعالی فرماتے ہیں کہ میرے آیات میں عقل والوں کیلیے نشانیاں ہیں۔ اسی میں ایک نشانی قربانی بھی ہے۔ آج سے صدیاں پہلے جب ابراہیم نے قربانی دی اس وقت کے حالات کچھ یوں تھے کہ لوگ کئی کئی دنوں تک فاقوں سے رہتے تھے، کنبہ بڑا ہوتا تھا اور کمانے والا ایک ہی فرد ہوتا تھا جسکی وجہ سے دی گئی قربانی بہترین انداز میں ادا بھی کر لیتے تھے اور ہضم بھی۔ فاقہ کشی کے اس دور میں اگر کھانے کواتنی بہترین غذا مل جاتی تو لوگ نہال ہو جاتے، رزق کی بے قدری ہوتی نہ ہی دکھاوے کا رستہ نکلتا لیکن آج حقیقت اسکے بلکل بر عکس ہے۔ آج لوگ خوش خوراک بھی ہیں اور چھوٹا خاندان زندگی آسان والے نظریے پر عمل پیرا بھی۔ دولت مند بھی ہیں اور ریاکار بھی۔

پوش علا قوں میں رہنے والا ہر فرد اگر قربانی دے گا تو کیا رزق اپنے پورے احترام سے تقسیم ہو پائے گا؟ حبس،گرمی اور لوڈ شیڈنگ کے اس عذاب میں جلتے من و سلوی کی حفاظت کون اور کیسے کرے گا؟ بجھے ہوئے چولھے کے اوپر رکھے ہوئے ٹکڑے کیسے پیٹ کی آگ بجھائیں گےِ؟ کھالیں خیرات بن سکتی ہیں تو قربانی رقم کیوں نہیں؟ قربانی رکاوٹیں دور کرتی ہے اور پاکستان دنیا کا دوسرا زیادہ قربانی کرنے والا ملک ہے،تو کیا انھتر سالوں میں پاکستان کی رکاوٹیں دور ہو گیئں؟ قربانی عشق کی معراج ہے جو روح کو سیراب کرتی ہے، پھر ہماری روحیں تشنگی کے کس سراب میں بھٹک رہی ہیں؟
جو سجدہ گاہیں تلاش کرنے لگے تو عمریں گزار دو گے،
خود اپنے سائے کی صف بچھانا، وہیں سجود و قیام کرنا!

ہزاروں ناقدین اس خیال کی مخالفت ہی کریں گے کیونکہ انکے نزدیک قربانی ہر حال میں جانور ذبح کرنا مانگتی ہے جبکہ قربانی فنڈ کسی حال میں قابل قبول نہیں میں ان سے یہ پوچھنا چاہوں گی کہ اگر اپنی بےچارگی کی تکلیف میں میرا ہمسایہ مدد کیلیے کراہ رہا ہے تو الله کی نظر میں میری قربانی کی کوئی حیثیت ہے؟ لیکن دین کے مجدد علمآءکے مطابق یہ رقم کسی ضرورت مند کو دی جا سکتی ہے۔ ٣٠ ہزار کے بکرے کی جگہ ١٠ ہزار کا بھی چل سکتا ہے اور باقی ٢٠ ہزار کسی ضرورت مند کی ضرورت دور کی جا سکتی ہے۔ گھر کا ایک فرد قربانی کر کے باقی اپنی رقم ضرورت مندوں پر قربان کر سکتے ہیں اور یقین جانیں یہ عمل ابراہیم کی روح کو ٹھنڈا کر سکتا ہے۔ خدارہ اپنی محبت کو ریا کاری، مکاری، اور اداکاری کی بھینٹ نہ چڑھنے دیں ورنہ نہ خدا ملے گا نہ وصال صنم، نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔
الله ہم سب کو ہدایت کی دولت سے نوازیں۔ آمین۔
Sidra Subhan
About the Author: Sidra Subhan Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.