اکبر اردو ادب کا پہلا بڑا مزاحمتی شاعر

ناخوشگوار اور ناسازگار حالات میں' حق کہنا آسان کام نہیں۔ اکبر الہ آبادی نے' یہ فریضہ بڑے سلیقے اور اہتمام سے انجام دیا۔ سرکاری ملازم ہو کر' ناگوار حالات پیدا کرنے والوں کو' آڑے ہاتھوں لیا۔ کہیں پوشیدہ کہیں نیم پوشیدہ اور کہیں بلاپوشیدگی' کہنے کی بات' کہہ دی۔ ایک طرف سرسید' جو مغربی تہذیب کے نمائندہ تھے' ساتھیوں سمیت' مغرب کے لیے سرگرم عمل تھے' تو دوسری طرف اکبر' اس کہے یا کیے کی' تکذیب کر رہے تھے۔ ہمہ وقت سپاٹ اور براہ راست کہنا' آسان کام نہ تھا اسی لیے انہوں نے طنز و مزاح کا رستہ اختیار کیا۔ ہاسے ہاسے میں' کسی عمل' فکر یا طور کی ڈنڈ لاہ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایک طرف ٹیم ورک ہو رہا تھا' تو دوسری طرف فرد واحد' غیرسنجیدہ انداز میں' سرگرم عمل تھا۔ بدقسمتی یہ کہ جس پذیرائی اور اعزاز و اکرام کے مستحق تھے' وہ انہیں میسر نہ آئی. اس کے برعکس' سرکاری گماشتے سر خان بہادر اور شاہی تلوے چوس' کیا سے کیا قرار دے دیے گیے۔ بدقسمتی کی بات یہ کہ وہ تاریکیوں کے امین' آج بھی عظیم تاریخی اور قومی شخصیات ہیں۔ شاہی کڑچوں کا ہیرو ٹھہرنا' کوئی نئی نہیں' بہت پرانی ریت چلی آتی ہے۔

اکبر نے اردو کو نیا طور اور نیا اسلوب دیا۔ ان کے اکثر مرکبات بڑے کاٹ دار ہیں۔ ان کی ترکیبات اور تشبیہات' حساس دلوں کی دھڑکنوں کو بڑی ملائمیت سے چھیڑتی ہیں۔ جب وہ پرانی اقدار کی تذلیل کا نوحہ کہتے ہیں' تو مغرب پریدہ انہیں دقیانوس قرار دے کر' ان کی سننے سے انکار کر دیتا ہے۔ اس ذیل فقط یہ دو شعر ملاحظہ ہوں

تمھاری پالیسی کا حال کچھ کھلتا نہیں صاحب
ہماری پالیسی تو صاف ہے ایماں فروشی کی

شکست رنگ مذہب کا اثر دیکھیں نئے مرشد
مسلمانوں میں کثرت ہو رہی ہے بادہ نوشی کی

اکبر کا موقف رہا ہے' کہ بےشک ہمارے دشمنوں نے ہمیں روند ڈالا ہے' ہمارے مذہبی اور تہذیبی ورثے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے' ریورس کا عمل اگرچہ ابھی جاری ہے' تاہم اس امر کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا' کہ جو لوگ آج کامیاب ہیں' کل جہاں بانی کے معاملات میں ناکام ہو جائیں اور آج کے ناکام کل کو کامیاب ٹھہریں۔

انگریز نے 1857 میں جنگ جیت جانے کے بعد' ظلم وستم کی انتہا کر دی۔ چوں کہ اس نے مسلم حکومت کو ختم کیا تھا اور ردعمل کی' اسی سے توقع تھی' اس لیے زیادہ تر مسمان ہی اس کی تیغ ستم کا نشانہ بنے۔ دہلی اس وقت چھے لاکھ آبادی کا شہر تھا' جہاں آہوں اور سسکیوں کے سوا' کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ اس صورت حال سے گزرنے کے باوجود' مسلمانوں میں جذبہءآزادی بیدار ہوا' جس کے باعث زندگی میں جدوجہد کی ایک نئی لہر دوڑنے لگی' اکبر کے ہاں اس امر کا اشارہ ملتا ہے' کہ فاتح اپنی فتح پر خوش نہ ہوں' کیوں کہ سورج ہمیشہ نئے انقلاب کے ساتھ طلوع ہوا کرتا ہے۔ ان کا موقف تھا' کہ لوگ مرتے رہتے ہیں' آزادی کے متوالے جنم لیتے رہتے ہیں۔ غلامی سے آزادی تک کا سفر' ہر صورت اور ہر رنگ میں' جاری رہتا ہے۔ پرانی نسل ختم ہو رہی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جس تناسب سے اموات ہو رہی ہیں' اسی تناسب سے لوگ آ بھی رہے ہیں' جو اپنے سینے میں گزرا ہوا کل رکھتے ہیں۔ اکبر کے ہاں جگہ جگہ موازنہ کی صورتیں نظر آتی ہیں اور واضح ا لفاظ میں' نئی آمدہ تہذیب کے نقائص کو واضح کیا۔

نئی تہذیب سے ساقی نے ایسی گرمجوشی کی
کہ آخر مسلمانوں میں روح پھونکی بادہ نوشی کی

ہم ریش دکھاتے ہیں کہ اسلام کو دیکھو
مِس زلف دکھاتی ہے کہ اس لام کو دیکھو

اس پر تنقید بھی کرتے ہیں۔ بعض اوقات بڑی بےباقی سے کام لیتے ہیں۔ مثلا

یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام
یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے

وہ حاکم لوگوں کے رویے رجحان اور اطوار سے خوب خوب آگاہ تھے' تب ہی تو کہتے ہیں

رعایا کو مناسب ہے کہ باہم دوستی رکھیں
حماقت حاکموں سے ہے توقع گرم جوشی کی

وہ حکومتی چمچوں کڑچھوں کی نفیسات سے آگہی رکھتے تھے۔ یہ پٹھو لوگ' اپنی پرانی تہذیب کی خامیاں گنوا رہے تھے اور نئی تہذیب کی خوبیوں کا ڈھندورہ پیٹ رہے تھے اور اسی کو ترقی کا زینہ قرار دے رہے تھے۔ اس ذیل میں اکبر ایک جگہ کہتے ہیں

چھپانے کے عوض چھپوا رہے ہیں خود وہ عیب اپنے
نصیحت کیا کروں میں قوم کو اب عیب پوشی کی

چوں کہ آزادی اور حق سچ کی بات کرنے والے جان جاتے تھے اس لیے انہوں نے اس کے لیے تین حربے استعمال کیے:

1- اشارتی انداز اختیار کرتے
2- دبے لفظوں بہت کچھ کہہ جاتے
3- کبھی تھوڑا کھل کر بات کرتے

انہیں اس امر کا تاسف رہا' کہ ان کے ہم نوا اور حق کی بات کرنے والے' تقریبا ختم ہو گیے ہیں اور انگریز تہذیب کے حامیوں میں' ہرچند اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے تکذیب کرنے والے ان کے خلاف منفی اطوار پر اتر آئے ہیں۔ کہتے ہیں

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

انہوں نے علامتی طور اختیار کرکے' ایک اصول وضع کیا' کہ کچھ بھی سہی' حالات کیسے بھی رہے ہوں' حریت کا سفر جاری رہنا چاہیے۔ عیش و طرب کی محفل میں رونے والے بھی رہنا چاہیے۔ وہ روتے رہے۔

تعلیم کا شور اتنا تہذیب کا غل اتنا
برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے

سرسید تحریک کی طرف اشارہ ہے۔ ایک دوسرے شعر میں ایک نام نہاد مصلح طبقہ' نسل نو کو جس تعلیم سے آرائستہ کرنا چاہتا تھا' پر چوٹ کرتے ہوئے کہتے ہیں۔

ہم ایسی کل کتابیں قابلِ ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے بیٹے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں

حاکم یہاں کے وسائل سے پچرے اڑا رہا تھا' بچے کھچے میں سے پیٹ بھر انہیں بھی مل رہا تھا۔ گویا کمائے گی دنیا کھائیں گے ہم' کے مصدق دونوں فریقوں کا موجو لگا ہوا تھا۔ اکبر اسے وقتی اور عارضی سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک' عیش و نشاط کا خاتمہ ناتمام حسرتوں اور خواہشوں پر ہوا کرتا ہے۔ جب یہ طے ہے' کہ عیش و عشرت کا خاتمہ ناتمام حسرتوں پر ہوا کرتا ہے' تو پھر کیوں نہ وقت مثبت کاموں پر صرف کیا جائے۔ گویا وہ عیش کوشی کو تیاگنے کے حق میں تھے۔ درحقیقت وہ مغلوں کی عیش کوشی کو زوال کا سبب سمجھ رہے تھے۔ انہوں نے وسائل کا غلط کیا۔ انجام کار زوال کا شکار ہوئے۔ اگر وہ باصول اور ڈھنگ کی زندگی کرتے' تو ذلت و رسوائی اور دیس بدری ان کا مقدر نہ ٹھہرتی۔ اب بھی یہ ہی کچھ چل رہا تھا' لیکن اپنی اصل میں یہاں کی تہذیب کے مزاج سے ہٹ کر' کہا اور لکھا جا رہا تھا۔ اس سے لمحاتی ارتعاش تو پیدا ہوا۔ مخصوص حلقوں کے سوا مجموعی مزاج ترکیب نہ پا سکا۔

انسان دکھ میں خدا کو یاد کرتا ہے اور اس سے مدد مانگتا ہے۔ کتنا بڑا طنز ہے' کہ مغربی تعلیم نے' خدا کی یاد ہی بھلا دی ہے۔ شخص کے لیے صاحب ہی سب کچھ ہو گیا۔ جملہ توقعات اسی سے وابسطہ ہو گئیں۔

مصیبت میں بھی اب یادِخدا آتی نہیں ان کو
زباں سے دعا نہ نکلی جیب سے عرضیاں نکلیں

شرم وحیا' برصغیر کی تہذیب کا لازمہ و لوازمہ رہا ہے۔ مسلمانوں کے ہاں تو پردہ حکم میں داخل ہے۔ مغرب میں' صورت حال اس سے مختلف ہے۔ بےحجابی کا ایک تاریخی جواز ہے۔ یہاں اس کی تفصیل درج کرنا' لایعنی طوالت کے مترادف ہوگا۔ یہ معاملہ مادری اور پدری سوسائٹی کا ہے۔ عہد اکبر میں مردوں اور عورتوں کا توازن بگڑا نہیں تھا' لیکن مغربی اطوار کے زیر اثر یا ترغیب دہی کے تحت' بالااسٹیٹس کے حامل شورےفا کے ہاں بھی' بیبیاں ممانمائی وغیرہ پر' اتر آئی تھیں۔ اکبر نے جس طور سے چوٹ لگائی ہے' اس پر ان شورےفا کا سیخ پا ہونا' فطری سی بات تھی۔ تاہم ان کا طرز تکلم خالص برصغیر کی اسلامی تہذیب کا غماز ہے۔

بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

یہ بدیسی تہذیب کے دل دادہ اور پرانی تہذیب کو ناپسند کرنے والوں کے' رخسار گرامی پر پرزناٹا طماچہ تھا۔ اگر شرم وحیا ہوتی' تو ضرور جاگ اٹھتی۔ ان کے نزدیک ایسا شخص دھوکے میں ہے' اندھیروں میں بھٹک رہا ہے اور اسے معاملہ دکھ ہی نہیں رہا۔ یہ بھی کہ ہمیں ان کی رہنمائی کی ضرورت ہی نہیں۔

اکبر' مغرب کے چلن اور اس کے کہے کو' طنز کا نشا نہ بناتے اور اس کی تقلید کو مضر اثر قرار دیتے آئے ہیں۔ مغرب کے چوری خور توتے کہتے تھے' تمہیں زندگی اور حکومت کرنا نہیں آتا۔ مغرب تمہاری تربیت کر رہا ہے۔ اسی تناظر میں' اکبر مغرب اور اس کی تہذیب پر چوٹ کرتے رہے۔ انہوں نے عیاری سے حکومت ہتھائی اور عیاری سے ہی لوگوں کو اپنے ساتھ کیا ۔

گولوں اور گماشتوں کو ایک طرف رکھیے' یہ ہر دور میں' مقتدرہ قوتوں کے دم ہلاوے اور گریب عوام کے خون چوس رہے ہیں۔ لالچ اور طمع انہیں گھٹی میں ملا ہوتا ہے۔ ان سے خیر کی توقع نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی مرتا ہے یا مار دیا جاتا ہے' انہیں اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔

اکبر کے نزدیک' خلوص اور تعلق داری یک طرفہ چیز نہیں ہے۔ اس کی موجودگی اطراف میں ضروری ہوتی ہے۔ تپاک سے ملنے والے لوگوں کا باطن بھی گرم جوشی سے معمور ہو' یہ ضروری نہیں۔ ایسی صورت میں گمشتگان سے' خیر کی توقع اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہوتا ہے۔

اگر اکبر کی شاعری کا' دیانت داری سے مطالعہ کیا جائے' تو یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہو گا' کہ انہوں نے مزاحمتی ادب لکھنے کا آغاز کیا۔ اس ذیل میں انہیں پہلا بڑا مزحمتی شاعر قرار دینا' مبنی بر انصاف ہو گا۔ اس حوالہ سے ان پر کام کرنا ابھی باقی ہے۔

تحریر مارچ 6' 1978
maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 184 Articles with 193890 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.