مجھے میرے پیسے واپس چاہیے۔۔۔۔۔!

اس دنیا میں ہر شخص ایک کہانی ہے اور ہر چہرہ ایک داستان۔جب تک ہم اپنی ذات کے اندر مقید رہتے ہیں ہمٖیں اپنا دکھ، اپنی تکالیف بہت بڑی معلوم ہوتی ہیں لیکن جب انسان اپنی ذات کے دائرہ سے باہر آتا ہے تو اندازہ ہو تا ہے ہر شخص اپنی ذات کے اندر سمندر ہے گہرا اور عمیق۔یہ ماڈل ٹاؤن سکول کی گراؤنڈ کا ایک منظر ہے سکول کا گراؤنڈ نوجوان لڑکیوں اور درمیانی عمر کی خواتین (جو کے غالباً ان لڑکیوں کی ما ئیں یا بڑی بہنیں ہیں) سے کھچا کھچ بھرا ہے۔لاہور اس کے مضافات سے ہزاروں کی تعداد میں خواتٖینNTS National Testing Service) ) کی زیرِنگرانی منعقد کردہ ٹیسٹ (جو کے پنجاب ایجوکیٹرز کی خالی اسامیوں پہ تقرری کے لئے تھا)کے لۓ جمع تھی۔یہ ٹیسٹ BPS-09 کی جاب کے لئے تھا۔میری جتنی بھی لڑکیوں سے ملاقات اور بات چیت ہوئی ان میں سے کوئی بھی ماسٹرز اور ایم فل سے کم نہ تھی۔میرے ساتھ میری والدہ بھی تھی۔میرے ٹیسٹ کے دوران وہ باہر بیٹھی مختلف خواتین سے بات چیت کرتی رہی ان میں سے ایک خاتون تو ایسی بھی تھی جن کی ٹانگ پہ پلستر چڑھا ہواتھا وہ بھی اپنی بیٹی کی ساتھ آئیں تھی۔ان کو دیکھ کے بارباریہٖی خیال آ رہا تھا کہ خدا جانے ان کی کونسی ایسی ضرورت ہے جو ان کو اس حالت میں بھی یہاں کھینچ لائی۔میں یہاں یہ بھی بتاتی چلوں کہ اس ٹیسٹ میں شرکت کے لۓ۱۰۰۰روپے کا بینک ڈرافٹ اپنی درخواست کے ساتھ منسلک کرنا تھا اور اس کے بعد ہی امیدوار کو ٹیسٹ میں شرکت کے لئے اہل قرار دیا جانا تھا۔اسامیاں صرف ۲۰۰ تھیں اور امیدواران کی تعداد تقریباً ۵۰۰۰کے لگ بھگ تھی۔نوکری ملنا اور نہ ملنا تو بعد کی بات تھی لیکن ایک بات پہ تو حکومت تو داد دینی پڑے گی کہ صرف اس ٹیسٹ کی مد میں حکومت کے کھاتے میں کڑوڑوں روپے جا چکے تھے۔

یہ مختصر سی کہانی ٹیسٹ کے بعد کا احوال لکھے بغیر مکمل نہیں ہوگی۔ہم اپنے ملک کے نظام، حکومتی اداروں کی کرپشن اور اقربا پروری سے اچھی طرح واقف ہیں مگر انسان فطرتاً خوش فہم ہے۔امید کا دیا اپنے اندر جلائے رکھتا ہے۔مجھے بھی امید تھی کی شاید منتخب ہونے والے خوش نصیبوں میں میرا نام بھی ہو۔مقررہ تاریخ (جس دن منتخب امیدواران کی لسٹ آویزاں کی جانی تھی) میں جیل روڈ پہ واقع پنجاب ایجوکیٹرز کے دفتر جا پہنچی۔میں نہ دل میں نہ جانے کتنی دعا ئیں اور نوافل مان لیۓ کہ منتخب ہونے والوں میں میرا نام بھی ہو۔وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ لسٹ ابھی تک تیار نہیں ہوئی ایک نئی تاریخ دے کر پھر سے انتظار کی سولی پہ لٹکا دیا گیا۔ ہر نئے چکر پر نئی تاریخ ملتی گئی مگر وہ لسٹ نہ لگنی تھی اور نہ لگی۔یوں لگتا تھا کہ جیسے کسی مقدمے کی سماعت بھگت رہی ہوں ہر بار پیشی پر ایک نئی تاریخ ھاتھ میں تھما دی جاتٖی تھی۔مگر مقدمے کا فیصلہ نہ ہونا تھا اور نہ ہوا یہاں تک کہ دفتر کے چوکیدار کو میرٖی شکل یاد ہو گئی ایک دن ترس کھا کے بولا:
باجی تسی کتھے خوار ہوندے پئے او۔جنہاں نوں ملنیاں سی اونہاں نوں مل گئیاں اوہ تے پئے جاندے نے نوکریاں تے۔تسی مت آیا کرو۔

بہترتعلیم، بہتر مستقبل۔ ہمارا خواب، پڑھا لکھا پنجاب۔پڑھو لکھو اور آگے بڑھو۔ اور نہ جانے کتنے نعروں کے بت میری آنکھوں کے سامنے چکنا چور ہو گئے۔وزیر اعلی پنجاب نے پڑھے لکھے پنجاب کا نعرہ لگا کر سب کو ایک خوبصورت خواب تو دکھا دیا مگر یہ نہیں بتایا کہ پنجاب اتنا پڑھ لکھ کر کیا کرے گا جب فارغ التحصیل طلبا و طالبات کے لئےآگے ویسی نوکریاں نہیں ہوں گی۔بلکہ نام نہاد خالی اسامیوں کے نام پر ان کی جیب میں موجودرقم بھی چھین لی جائے گی۔میں اس وقت وزیر اعلی پنجاب سے صرف ایک سوال کرنا چاہوں گی کیا لازمی ہے کہ جب تک سرکا ری اور غیر سرکاری ادارے فارغ التحصیل طلبا و طالبات کا نوکریوں کے نام پراستحصال نہیں کرٖیں گے، ان کی جیب میں مو جود رقم نہیں بٹورے گے نوکریاں نہیں ملیں گی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہر ادارے کا حق ہے کہ وہ امیدواران کی صلاحیت اور قابلیت کا امتحان لے۔مگر یہ امتحان ان کی تعلیمی قابلیت کا ہونا چاہیے نہ کہ ان کی مالی حیٖثیت اور اہلیت کا۔NTS National Testing Service)) کاادارہ ہر سال ان ٹیسٹوں کی مد میں بچوں سے لاکھوں کڑوڑوں روپیہ بٹورتا ہے اور اسامیاں پھر اقرباپروری،سفارش اور رشوت کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ۲۰۱۲ سے لے کر اب تک NTS National Testing Service))کے آمدن میں ہرسال اضافہ ہو رہا ہے۔مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے آخر جب NTS National Testing Service))کا ٹیسٹ سسٹم نہیں تھا تقرریاں اس وقت بھی تو ہوتی تھی۔
وزیر اعلی پنجاب کے دکھائے گئے ہر خواب کی پیچھے لبیک کہنے والے نوجوان ملک کی حالت سدھارنے کا حواب لے کر نکلتے ہیں مگر صد افسوس ملک کی حالت سدھارنا تو دور کی بات وہ اپنے گھر کی حالات بھی درست نہیں کر پاتے۔ ایسے میں اپناآپ کرہ ارض پر بوجھ لگنے لگتا ہے۔معاف کیجیے گا مگر پاکستان کا بیشتر نوجوان طبقہ اس وقت صرف اپنے بقا کی جنگ لڑ رہا ہے۔سعادت حسن منٹو نے کہا ہے کہ تمام بڑی لعنتوں میں سب سے بڑی لعنت بھوک ہے۔اگر آپ کسی کو روٹی دے نہیں سکتے تو خدارا اس سے چھینے بھی مت۔ میں اس وقت وزیر اعلی صاحب سے یہ نہیں کہوں گی کہ وہ NTS National Testing Service)))کی حدودکا تعین کریں یا پھر نوکری کے لئے دئے جانے والے تمام ٹیسٹوں کی فیسیں ختم کریں۔ کیوں کہ مجھے نہیں لگتا کہ مجھے انھے کہنے کی ضرورت ہے۔ہاں مگر اتنا ضرور کہوں گی کہ مجھے میرے پیسے واپس چاہیے کیوں کہ میں نے بڑی محنت سے کماۓ تھے۔
Wafiyya
About the Author: Wafiyya Read More Articles by Wafiyya: 7 Articles with 21728 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.