اردو.... قائد اعظم اور علمائے ہند

 قائد اعظم محمد علی جناح نے21 مارچ 1948ءکو ڈھاکا میں قوم کے نام اپنے پیغام میں فرمایا تھا: ”میں آپ کو واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی اور صرف اردو اور اردو کے سوا کوئی اور زبان نہیں ہو گی۔ دیگر اقوام کی تاریخ اس امر پر گواہ ہے کہ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہو سکتی اور نہ کوئی اور کام کر سکتی ہے۔ پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے، وہ صرف اور صرف اردو ہی ہو گی۔“ اس پیغام کا تقاضا تو یہ تھا کہ قیام پاکستان کے فوری بعد اردو کو عملی طور پر پاکستان میں نافذ کردیا جاتا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اردو ہماری قومی زبان اور پہچان ہے، اس کے باوجود قیام پاکستان سے پہلے سے آج تک اسے اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑی ہے۔ برصغیر میں اردو مسلمانوں کی زبان، جبکہ ہندو سنسکرت اور ہندی کے دعوے دار تھے۔ اس طرح تقسیم کے عمل میں دونوں زبانیں دو قوموں کی حیثیت اختیار کر گئی تھیں۔ اردو کو دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ متعصب ہندو رہنماﺅں نے اس بات پر پورا زور لگایا کہ سنسکرت ملی ”ہندی“ کو عربی اور فارسی کے زم زم میں دھلی ”اردوئے معلی“ کے مقابلے میں عربی کی بجائے دیوناگری رسم الخط میں رائج کردیا جائے، اس کو اسی انداز میں سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے اور اسے ہی برصغیر کی واحد مشترک زبان تسلیم کر لیا جائے۔ اردو کو جو عربی رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، بیک جنبش قلم خارج کر دیا جائے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی ، لیکن اردو کے بدخواہوں کو ناکامی ہوئی۔

1908ءمیں جب پنجاب یونیورسٹی کے ہندو وائس چانسلر ڈاکٹر چیٹرجی نے یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں کہا کہ پنجاب میں اردو کی جگہ پنجابی رائج کی جائے تو مسلمانان پنجاب اس بیان کے خلاف یک زبان ہو کر میدان میں نکل آئے۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوا، جس میں علامہ محمد اقبال، سرشیخ عبدالقادر، سر محمد شفیع، مولانا سلیمان شاہ پھلواری اور دیگر مسلم رہنماؤں نے اردو کی حمایت میں مدلل تقاریر کیں اور ایک جامع قرار داد منظور کی، جس میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ مسلمانان برصغیر اردو زبان سے کسی صورت دستبردار ہوں گے، نہ ہی اس کی جگہ کسی دوسری زبان کو رائج کرنے کی اجازت دیں گے۔ قائداعظم نے علی گڑھ یونیورسٹی میں 1941ءمیں انگریزوں اور ہندوؤں کو مخاطب کر کے فرمایا تھا: ”مجھے پاکستان میں اسلامی تاریخ کی روشنی میں اپنی ثقافت و روایات کے تحت اور اپنی اردو زبان کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزارنے دو۔“

قیام پاکستان سے پہلے اردو زبان کو مسلمانوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے ہندوؤں کی نفرت کا سامنا رہا ہے۔ اس تناظر میں مملکت خداداد پاکستان کو اپنے قیام کے ساتھ ہی اردو کو ہر سطح پر رائج کرنے کے لیے تمام تر کوششیں بروئے کار لانی چاہیے تھیں، لیکن محبان فرنگ نے قومی خواہشات کا اول روز سے مذاق اڑایا اور مختلف حیلے بہانوں سے اس کو رائج کرنے کے راستے میں روڑے اٹکائے۔ حالانکہ 1973ءکے آئین کے مطابق: ”پاکستان کی قومی زبان اردوہے اور دستور کے یوم آغاز سے 15 برس کے اندر اندر اس کو سرکاری و دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔“ 15 برس کی دی گئی آئینی مہلت 1988ءمیں ختم ہوئی، لیکن قومی زبان اردو کو عملی طور پر سرکاری زبان کی حیثیت نہیں ملی اور مسلسل یہ اہم معاملہ سرد خانے کی نذر ہوتا چلا گیا۔ مقام شکر ہے کہ قیام پاکستان کے 68 سال بعد ہی سہی، لیکن عدالت عظمیٰ نے اردوزبان کو فوری طور پر نافذ کرنے کاحکم جاری کردیا ہے۔ بلاشبہ قومی زبان کے نفاذ کا فیصلہ قوم کی دیرینہ امنگوں اور خواہشات کا حقیقی ترجمان ہے، جس کے دوررس نتائج برآمد ہوں گے۔ سماجی اعتبار سے پیدا ہونے والی تفریق کے خاتمے میں مدد مل سکے گی اور عوام کو اپنے آئینی و شہری حقوق اور ریاستی امور کو سمجھنے میں سہولت ہوگی۔ اس کے ساتھ ملک میں نظام تعلیم کی وحدانیت کا تصور بھی اجاگر ہو سکے گا اور اردو کو واحد تعلیمی زبان کے طور پر نافذ کیا جا سکے گا۔

امر واقع یہ ہے کہ اردو قومی زبان کا درجہ رکھنے کے باوجود ہمارے سماج میں ایک یتیم اور لاوارث زبان رہی، جس کی بنا پر مختلف النوع مسائل اور مشکلات نے جنم لیا ہے۔ قومی زبان سے بے اعتنائی اور صرف نظر کی روایت نے معاشرے میں طبقاتی تفریق پیدا کی ہے۔ یہاں یہ حقیقت فراموش نہیں کی جانی چاہیے کہ جدید دنیا میں ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی میں کمال کا انحصار محض انگریزی زبان پر موقوف نہیں ہے، بلکہ آج معاشی اور دفاعی لحاظ سے قابل ذکر ممالک کی ترقی کا واحد راز مادری زبان کو بنیادی اہمیت اور مرکزیت دینا ہے۔ چین، جاپان سمیت کئی ممالک کی مثالیں اس ضمن میں پیش کی جا سکتی ہیں، جہاں انگریزی کو ذریعہ تعلیم بنانے کی بجائے اسے محض عالمی رابطہ کاری کا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے، لیکن اس کے باوجود اقوام عالم کے سامنے ان قوموں کو کسی قسم کی شرمندگی اور خجالت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔

جو قومیں اپنی زبان سے لاتعلق ہوجاتی ہیں، وہ اپنا تشخص بھی گم کربیٹھتی ہیں۔ برصغیر کی عظیم روحانی شخصیت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کو ایک بار اردو کانفرس میں شرکت کی دعوت دی گئی تو حضرت نے جواب تحریر فرمایا: ”اس خط کو پڑھ کر قلب میں ایک حرکت پیدا ہوئی کہ اس خدمت میں حصہ لیا جائے۔ اس خاص خدمت کی طرف کسی نے توجہ بھی نہیں کی اور وہ یہ ہے کہ اس تحریک کا شرعی درجہ کیا ہے؟ اس کی ضرورت بھی اس لیے محسوس ہوئی کہ اس وقت اس مسئلے نے تمدن و قومیت سے بڑھ کر مذہبیت کی صورت اختیار کرلی ہے۔ اس لیے خیال ہوا کہ اس کے متعلق ایک مختصر تحریر منضبط کر کے بھیج دی جائے۔“ اس تحریر میں پہلے چند آیات اور حدیث و فقہ کی روایات اور احکام نقل کیے گئے ہیں اور پھر ان سے اردو کی دینی و شرعی حیثیت و درجہ کے متعلق نتائج اخذ فرماکر آگے رقم فرماتے ہیں: ”....معلوم ہوگیا کہ اس وقت اردو زبان کی حفاظت دین کی حفاظت ہے۔ اس بنا پر یہ حفاظت حسب استطاعت، اطاعت اور واجب ہوگی اور باوجود قدرت کے اس سے غفلت اور سستی کرنا معصیت اور موجب مواخذہ آخرت ہوگا۔“ اسی طرح برصغیر کے عظیم محدث علامہ انور شاہ کشمیری نے ایک بار اپنے شاگردوں کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: ”اگرچہ میں نے عربی ذوق کے دفاع کے لیے ہمیشہ اردو زبان سے احتراز کیا، لیکن اب مجھے اس پر بھی افسوس ہے، برصغیر میں دین کی خدمت کے لیے اردو کو ذریعہ بنایا جائے، میں اس بارے میں آپ صاحبان کو خاص وصیت کرتا ہوں۔“ اب اگرچہ اردو کو کے نفاذ کا حکم صادر کیا جاچکا ہے، لیکن معیار کے ساتھ اس کو فروغ دینے کے لیے بھی کوئی فارمولا وضع کیا جانا چاہیے۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632522 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.